Qalamkar Website Header Image
گھر کے باہر چند افراد اور پولیس اہلکار، کورونا وائرس کے مشتبہ کیس پر قرنطینہ کا منظر

کورونا اور معاشرتی خوف – ڈاکٹر رابعہ خرم

کورونا اور معاشرتی خوف نے ابتداء ہی سے عوامی رویوں کو بری طرح متاثر کیا۔ابتدا میں جن مرد حضرات نے کورونا پوزیٹو آنے پر خود کو قرنطینہ کے لیے رضاکارانہ طور پر اداروں کے حوالے کیا ان سے بھی مجرموں جیسا سلوک کیا گیا۔ قرنطینہ سینٹر سے ان کے عدم اطمینان پر مبنی ویڈیوز وائرل ہوئیں جس میں سرکاری ملازمین کے عدم تعاون، صفائی کے ناگفتہ بہ حالات اور غیر صحت مند خوراک (Unhygienic Food) ، جسے کھا کے مریض مزید بیمار تو ہو سکتا ہے امیونٹی بہتر نہیں ہو سکتی۔۔ ۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ ان کے فیملی ممبرز کو بھی ایسے قرنطینہ میں رکھا گیا اور پولیس کا پہرا لگایا گیا جیسے اس گھر کا کوئی بندہ قتل کر کے بھاگا ہے اور باقی فیملی کو ضمانتی کی طرح حراست میں رکھا جا رہا ہے ۔معاشرے میں بدنامی اور معاشرتی مقاطعہ ایک الگ چیپٹر ہے ۔

اچھا اب ذرا دل پر ہاتھ رکھیے ۔ ہم نے دو ننھے بچوں کو قرنطینہ کے لیے اس حال میں رخصت ہوتے دیکھا کہ بچے کے ساتھ قرآن محافظ تھا ۔ کس دل سے ایک ماں نے شوہر کے بعد اولاد بھی قرنطینہ میں بھیجی ہو گی ۔وہ تو شکر ہے کہ وہ کیس وائرل ہو گیا تو میو ہسپتال میں بچوں کو باپ کے ساتھ الگ کمرہ مل گیا ۔ یہ واقعہ کورونا اور معاشرتی خوف کی ایک زندہ مثال ہے۔

یہ بھی پڑھئے:  کرونا اور جہالت کا مشترکہ حملہ

اچھا اب اگلی کیفیت سوچیں۔ ایک نوجوان جوڑے کا کورونا ٹیسٹ  پازیٹیو آ گیا ہے ،انہیں الگ الگ قرنطینہ سینٹر بھیج دیا جائے گا ۔ پاکستانی غریب جتنا بھی ہو غیرت سے مالا مال ہوتا ہے ۔ بتائیے وہ بیوی کو آنکھوں سے اوجھل کیسے ہونے دے ؟

چلیں زوجین کی کہانی رہنے دیں ۔ ایک والد اور اس کی بیٹی سوچ لیں جیسا کہ ڈاکٹر فرقان کے کیس میں ہوا ۔ وہ تو بیٹیوں کو صرف معاشرے کے طعن و تشنیع سے بچا رہے تھے لیکن کیا کسی کی بیٹی کو قرنطینہ کے نام پر کہیں بھی لے جا کے بند کر دیا جائے گا ۔ ڈاکٹر عالمانی جامشورو نے کورونا ٹیسٹ پازیٹیو آتے ہی خودکشی کیوں کر لی ۔ کیا وہ کورونا سے خوفزدہ تھے ۔ کیا بیماری کی تکلیف کا خوف اتنا زیادہ تھا کہ موت قبول تھی یا گھر پر موجود بہنوں اور والدین کی حفاظت کا خیال دامن گیر تھا ۔ سوچیں!

ہم عزت کی زندگی اور عزت کی موت کے خواہاں ہیں ۔ بتائیے کون سے مرد و زن کورونا سے وفات کے بعد سرکاری تدفین چاہتے ہیں۔ جس میں نماز جنازہ یا آخری غسل کا اہتمام بھی مشکوک ہے ۔ ویسے اب تو اقوام متحدہ نے سرکلر جاری کر دیا ہے کہ ڈیڈ باڈی کی تدفین گھر والے خود کریں بس اپنی حفاظت کا پراپر انتظام رکھیں ۔ نعش سے کسی کو کوئی خطرہ نہیں ۔ پاکستانی معاشرے میں کورونا اور معاشرتی خوف نے سماجی توازن بگاڑ دیا ہے

یہ بھی پڑھئے:  کرونا وائرس اور عوامی رویے: غلط فہمیاں، لاپرواہی اور نتائج

آپ ہی بتائیں، بچوں کو کہہ دیا جائے کہ تمہاری ماں دفن کر دی گئی ہے،بھائیوں کو بتا دیا جائے کہ بہن کی ابدی رخصتی تمہارے کاندھوں کے بنا ہی عمل میں آ گئی ہے یا بوڑھے باپ کو بتا دیا جائے کہ تمہارا جوان بیٹا وفات پا گیا اسے دفنا دیا گیا ہے تو کیا حال ہو گا ۔ ہم نے ایک نوجوان لڑکے کی تدفین اور باپ بہنوں کے بین دیکھے ہیں جو کہہ رہے تھے کہ آخری بار چہرہ تو دیکھنے دیتے ۔ یہ خوف یہ ہراسمنٹ یہ سب مل کے عوام کو کورونا کا ٹیسٹ کروانے سے روک رہی ہے ۔ اس ماحول کو درست کیجیے ۔ ورنہ ہرڈ امیونٹی کے لیے تیار رہیے ۔اس وقت سب سے اہم مسئلہ کورونا اور معاشرتی خوف کو کم کرنا ہے، تاکہ لوگ احتیاط کے ساتھ علاج کی جانب راغب ہوں۔ 

Views All Time
Views All Time
2106
Views Today
Views Today
1

حالیہ پوسٹس

ڈاکٹر ظہیر خان - قلم کار کے مستقل لکھاری

موسمیاتی تبدیلی اور جدید سائنس: تباہی دہرانا بند کریں

وطن عزیز میں ہر سال کی طرح اس سال بھی مون سون کی بارشوں نے بڑے پیمانے پر تباہی کی ہے۔ مختلف علاقوں سے اب بھی نقصانات کی اطلاعات موصول

مزید پڑھیں »