Qalamkar Website Header Image

بدلتے سماجی روابط اور ہمارا ادب – حصہ دوم | ڈاکٹر ابرار احمد

بہت پرانی بات نہیں جب ہر طرف ریڈیو کا زمانہ تھا. خط لکھے جاتے، ڈاکیا کا انتظار کهینچا جاتا تھا. کریڈل والا ٹیلی فون، اخبارات ، محلہ لائبریریاں، آج جو شاعر عوام الناس کو یاد ہیں، ان کا تعارف ریڈیو پر گائی گئی غزلوں کے مرہون منت ہے. ریڈیو پر ہی باقاعدہ مشاعرے ہوا کرتے تھے. مجھے وہ راتیں نہیں بهولتیں جب مشاعرہ لگنا ہوتا تھا تو ہمارے گهر میں اس دوران کسی کو بولنے کی اجازت نہیں ہوا کرتی تھی. مجھے امروز اخبار کا ادبی ایڈیشن بهی یاد ہے جس کے مدیر احمد ندیم قاسمی ہوا کرتے تھے.
احمد فراز سے بطور نظم گو میرا تعرف انہی صفحات سے ہوا جب قاسمی صاحب نے فراز کی نظم "میں کوئی کرنوں کا سوداگر نہیں” کا تجزیاتی مطالعہ دو اقساط میں پیش کیا اور میں پورا ہفتہ اگلی قسط کا انتظار کرتا رہا.
قدم بہ قدم آگے بڑهتے جائیں تو آج کا سفر ہمارے سامنے کی بات ہے. ٹی وی کا ایک چینل ، دو میں تبدیل ہوا.پهر بهر مار ہوتی چلی گئی. لینڈ لائن کی جگہ موبائل فون نے لے لی اور گھروں میں کمپیوٹر داخل ہو گیا اور یہ تیز رفتار تبدیلی موجود منظر کی صورت گری کرتی چلی گئی.
ثبات تو تغیر ہی کو ہے اور کسی بهی جوہری تبدیلی کو ہم خوش آمدید ہی کہہ سکتے ہیں اور پھر یہ تبدیلی تو انقلابی ہے جس کی بے پناہ طاقت سے انکار ممکن نہیں. لیکن کیا ہم ان تبدیلیوں کے ساتھ ہم آہنگ ہونےہونے کے عمل میں لڑکهڑا تو نہیں گئے؟ راستہ تو گم نہیں کر بیٹھے؟ اصل سوچنے کی بات یہی ہے.
ہمیں یاد رکھنا ہو گا کہ اصل طاقت میڈیم میں نہیں، اسے استعمال کرنے والے میں ہوا کرتی ہے. مثال کے طور پر ہمارے سینیئر ہمیشہ کہا کرتے کہ بھائی اپنی اچھی بری جو بهی تخلیق ہے اسے کسی رسالے میں اشاعت کی غرض سے بهیجا کرو.کسی قابل ہوئی تو چهپ جائے گی. یوں محفوظ بهی اور آنے والوں کے لئے حوالے کا کام بهی دے گی. ہم اسی لئے سب ادبی جرائد کے پتے نوٹ کر کے اپنے پاس رکهتے تهے. میں میڈیکل کالج میں تها کہ ہمت کر کے کشور ناہید کو اپنی غزل اشاعت کے لئے بهیج دی.

یہ بھی پڑھئے:  فیس بکی محبت کی انوکھی داستان

جو ان دنوں "ماہ نو ” کی ایڈیٹر تھیں.میری خوشی بے ٹھکانہ تھی جب مجھے انکا خط موصول ہوا کہ "غزل کو شامل اشاعت کیا جا رہاہے.”یہ بات یوں یاد آئی کہ چندروز قبل نصیر احمد ناصر نے "تسطیر”کی از سر نو اشاعت کا سوشل میڈیاپر اعلان کیا.یہ پرچہ محض پانچ سات برس پہلے تک باقاعدگی سے شائع ہوتا رہا ہے اور سنجیدہ لکھنے والے اور قاری اس سے اچھی طرح آگاہ ہیں.حیرت انگیز بات یہ تھی کہ اکثر نوجوانوں نے جو کچھ اسے کم عمر بھی نہ تھے, پرچے کی بابت اپنی مکمل لاعلمی کا اظہار کیا. جس پر نصیر احمد ناصر کو الگ سے لکھنا پڑا کہ اس کے ایک شمارے میں شامل تحاریراور مصنفین کی فہرست درج ذیل ہے. اس پر سب سے دلچسپ تبصرہ کسی جوان کا یہ تھا:
"اچھا تو یہ معروف اور بڑے ناموں کا پرچہ ہے. ”
یہ ایک واقعہ ہمیں اپنی موجودہ ادبی سماجیات اور مجموعی صورتحال سمجھانےکے لئے کافی ہے گویا ہمارے نوجوان لکھنے والوں کی اکثریت ادبی جرائدکو اہمیت دینا تو رہا ایک طرف انکے وجود تک سے آگاہ نہیں.

حالیہ بلاگ پوسٹس

آئس کینڈی مین – تقسیم کی ایک الگ کہانی

بپسی سدھوا پاکستانی، پارسی ناول نگار ہیں۔ اِس وقت ان کی عمر اسی سال ہو چکی ہے۔ وہ پاکستان کے ان چند انگریزی ناول نگاروں میں سے ایک ہیں جنہوں

مزید پڑھیں »

زیف سید کا ناول گل مینہ

زیف سید کا ایک تعارف بی بی سی پر لکھے گئے کالم ہیں۔ وہ اپنے منفرد اسلوب کی بنا پر بی بی سی کے چند مقبول کالم نگاروں میں سے

مزید پڑھیں »

جنگ جب میدانوں سے نکل کر آبادیوں کا رخ کرتی ہے۔

”سر زمین مصر میں جنگ“ مصری ناول نگار یوسف القعید نے 1975 لکھا ہے۔ جو ہمیں بتاتا ہے کہ جنگ کی وجہ سے کسی ملک کے غریب باشندوں پر کیا

مزید پڑھیں »