کلینک سے واپسی پر لیپ ٹاپ کهولتا ہوں اور فیس بک پر لگے رنگا رنگ تماشوں میں کهو جاتا ہوں. کہیں لکها ہے ؛ "ہر نمبر دو شاعر ، میر و غالب بنا پهرتا ہے.”
کہیں درج ہے ؛
"ہمیں ایسا پلیٹ فارم مل گیا ہے کہ جعلی اور سینئیر شاعر اپنی خیر منائیں. ”
تو کہیں لکها ہے کہ؛
"جب تک میں لڑکی بن کر اپنا اکاؤنٹ چلاتا رہا تو مجهے ہزاروں کی تعداد میں لائکس ملیں.اب اصل شناخت کے ساتھ شعر پوسٹ کرتا ہوں تو کوئی گھاس نہیں ڈالتا.”
کہیں لکھا ہے کہ؛
"واہ کیا نظم ہے.ایسی نظم کہ سر شار ہو گیا.”
یہ واقعی نئی اور دلچسپ صورتحال ہے. میں کہیں بھی، کچھ بھی لکھ دیتا ہوں اور بات چل نکلتی ہے. جلد ہی مجھے احساس ہو جاتا ہے کہ اس سب لا یعنی سرگرمی سے کچھ بر آمد ہونے والا نہیں. پهر بھی میں جاری رہتا ہوں. اچانک گهڑی پر نظر پڑتی ہے اور اسے بند کرکے سوچتا ہوں کچھ کام بهی کر لوں. کوئی کتاب پڑھ لوں یا پھر کم از کم اپنی نئی کتاب کا مسودہ ہی دیکھ کر ، کام ختم کروں لیکن سر بوجھل ہے اور بے دلی غالب آ چکی ہے. بستر میں گهستا ہوں تو بیگم کے ہاتھ سے ریموٹ لے کر چینل بدلنے لگ جاتا ہوں. جہاں بهانت بهانت کی بے ہنگم آوازیں رنگ برنگے اشتہار اور مسخرے ایک طرح کے اضمحلال میں مبتلا کر دیتے ہیں اور سونے کی جانب دھیان دیتا ہوں، اپنا ہی ایک شعر یاد کرتے ہوئے …….
کام بهی کرنے ہیں پر کیا کیجے
وقت سارا تو یہ فرصت لے جائے
جی ہاں یہ مصروفیت ، دراصل فرصت ہی ہے. بے معنی اور غیر تخلیقی، جس نے ہم سب کو اپنی لپیٹ میں بری طرح لے رکھا ہے. سب کچھ گهروں کی چار دیواریوں تک محدود ہو چلا ہے اور ہم چار پانچ لوگوں کی محبوس سماجی اکائیوں میں ڈهلتے جا رہے ہیں.
اب ذرا ماضی کی جانب چلتے ہیں. جی ہاں یہی کوئی پندرہ بیس برس پہلے اور اس سے بھی پہلے تک.
یاد آتا ہے راولپنڈی جہاں کے سول ہسپتال راجہ بازار میں میری پہلی تعیناتی ہوئی ہے. شام کی ڈیوٹی لگی ہے جو رات آٹھ بجے ختم ہو گی. چهٹی کے وقت سے ذرا پہلے ایک سیاہ رنگ کے موٹر سائیکل پر ایک گورا چٹا نوجوان نمودار ہوتا ہے اور بغلگیر ہوتے ہوئے بتاتا ہے ؛
"میں احمد داؤد ہوں. میرے شہر میں خوش آمدید. ”
میں کهل اٹهتا ہوں کہ اس کے بغاوت آمادہ افسانے پڑھ چکا ہوں. وہ مجھے اپنے ساتھ راجہ بازار کے کسی کهوکهے پر لے جاتا ہے اور اس سے پہلے اپنے گھر موہن پورہ، کهوکهے پر چائے پیتے ہوئے وہ بتاتا ہے ؛
"رات ایک بجے سے ذرا پہلے یہاں سے ایک شاعر گزرے گا. تمہارا ذکر کرتا رہتا ہے. ابهی دیر ہے.”
سو ہم کهانا بهی کهاتے ہیں اور چائے کے مزید دور بهی چلتے ہیں اور پھر ایک بجے کے قریب کسی ذیلی گلی سے لمبے بالوں ، سانولی رنگت اور مسکراتے چہرے والا نثار ناسک برآمد ہوتا ہے. میں اٹھ کر سلام کرتا ہوں اور وہ مجھے گلے لگا لیتے ہیں؛
"چنگا ہویا ڈاکٹر…. توں ایتهے آ گیا.”
اس شہر میں مرزا حامد بیگ بهی ہے جس سے محمد خالد کے توسط سے لاہور میں ملاقات ہو چکی ہے اور احمد جاوید بهی یہیں رہتا ہے گویا میری تو عید ہو گئی.
ادهر گورڈن کالج میرے ہسپتال سے قریب ہے. میں مرزا سے ملنے پہنچ جاتا ہوں اور وہیں آفتاب اقبال شمیم، توصیف تبسم،شاہد مسعود اور آصف ہمایوں سے بھی ملاقات شروع ہو جاتی ہے.
یہ سب ذاتی نہیں ادبی حوالوں سے میرے عزیز، میرے محترم ، میرے دوست ہیں. ان ملاقاتوں میں بھی ہمارے درمیان قدر مشترک صرف ادب ہے جو ہمارے باہمی تعلق کے تمام پہلوؤں کا تعین کرتا ہے. ہماری گفتگو ادب پر ہی ہوتی ہے اور ہماری شناخت ہمارا تخلیقی کام.
پهر میں لاہور منتقل ہو جاتا ہوں. ہسپتال سے گهر آ کر کچھ دیر آرام کرتا ہوں اور پھر پانچ بجے گھر سے نکل پڑتا ہوں کہ کلینک شروع کرنے میں ابھی دو ڈھائی گھنٹے ہیں. محمد خالد کا دروازہ کهٹکهٹاتا ہوں. وہ ہمیشہ کی طرح خوش دلی سے استقبال کرتا ہے. اندر جاتا ہوں تو علی افتخار جعفری پہلے سے موجود ہے. کچھ دیر میں ضیاء الحسن بھی آجاتا ہے. ہم گفتگو میں ایسے محو ہو جاتے ہیں کہ اچانک وقت کا احساس ہوتا ہے اور میں کلینک کے لئے بهاگ پڑتا ہوں. رات گیارہ بجے کوئی نہ کوئی دوست کلینک پر پہنچ جاتا ہے . میں اسے اپنے ساتھ گهر لے آتا ہوں. راستے میں کسی اور دستیاب دوست کو بهی اچک لیتے ہیں اور میرے گهر پر نشست جم جاتی ہے.
مذکورہ ادوار سے پہلے ایام جوانی میں چنیوٹ اور پھر ملتان، ہر جگہ ایسے ہی سلسلے موجود رہے. ان ملاقاتوں کی روداد بہت پر لطف اور بامعنی ہو سکتی ہے لیکن اسکا محل نہیں. ہم لوگ ادبی تحاریک ، تنقید ، عالمی ادب ، فلسفہ ، معاصر صورتحال، سیاست ہر موضوع پر بات کرتے رہے ہیں. ہماری ملاقاتوں کا مرکز و محور اپنی اپنی تخلیق کی بابت دوستوں کی رائے جاننا، ان سے اس بابت بحث کرنا اور پھر خود کو ٹھیک کرنے کی کوشش کرنا ہے.
یوں تو سب دوست ہی مشاورت کیا کرتے تهے مگر میں تو آج بھی کہہ سکتا ہوں کہ اپنی کسی نظم یا غزل کو میں اس وقت تک سامنے نہیں لاتا جب تک محمد خالد اسکی حتمی منظوری نہ دے .میری لگ بهگ آٹھ برس کی شاعری محمد خالد کے ساتھ افتخار علی جعفری نے بھی بهگتی اور مشورے بهی دونوں دیتے رہے. یہی معاملہ مرزا حامد بیگ ، احمد جاوید اور احمد داؤد کے ساتھ بهی رہا.
ہم آج بهی ایک ہی شہر میں ہیں، جعفری تو خیر راہئ ملک عدم ہوا لیکن باقی ہم تو تا حال زندہ ہیں لیکن وہ ملاقاتیں کدهر گئیں؟ ہم پورے سال میں محض دو تین ملاقاتوں تک کیسے محدود ہو گئے؟ ان سوالوں کا جواب ہی دراصل وہ تبدیلی ہے جو ہمارے سماجی رویوں میں در آئی ہے اور دن بدن راسخ ہوتی چلی جا رہی ہے.
اس تبدیلی کی بے شمار وجوہات ہیں اور فکری حوالے سے قابل فہم بهی. عالمی استعمار کی نئی صورت ، مارکیٹ اکانومی ، گلوبلائزیشن ، نئے استحصالی ہتھکنڈے، بالا دستی کی جنگ کی تبدیل شدہ صورتحال اور یہ مظہر جسے ہم انٹرنیٹ کا نام دیتے ہیں جس کا آغاز کمپیوٹر سے ہوا اور اب موبائل فون کی صورت جو ہمہ وقت ہماری جیب میں چیختا چنگهاڑتا رہتا ہے .لیکن یہ موضوع بہت وسعت کا حامل ہے اسلئے مجهے اسے ان معروضات کے حوالے سے محدود کرنا ہو گا.کم از کم اس سارے معاملے کا کوئی ایک پہلو تو سامنے آ جائے تاکہ ہم اس پر غور و خوض کر سکیں.
جاری ہے۔
(ڈاکٹر صاحب بین الاقوامی شہرت یافتہ شاعر اور مایہ ناز نقاد ہیں)
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn