Qalamkar Website Header Image

بڑا آدمی چھوٹاآدمی

ہر شخص ایک بڑا آدمی بننا چاہتا ہے۔ لیکن بڑا پن دکھائے بغیر جب تک اس بات کا تعین نہ ہو جائے کہ چھوٹا آدمی کون ہے اور بڑا آدمی کون ہوتا ہے۔ بڑا آدمی بننے کی تمنا داخلی اور خارجی دونوں جہانوں میں فتنہ وفساد برپا کرنے کا موجب ہوتی ہے۔ جب تک بڑے پن کا ادارک نہ ہو‘ انسان دولت ، طاقت اور شہرت کے پیمانوں سے بڑائی ماپنے کی کوشش کرتا ہے۔ ایسی بڑائی جو دولت کے چلے جانے جانے سے چلی جائے ، شہرت کے گم ہوجانے سے معدوم ہو جائے ، طاقت کا پلڑا بدل جانے سے پہچان میں نہ آسکے۔۔۔ وہ بڑائی نہیں، بلکہ بُرائی ہے۔ اچھائی یا برائی کا تعین کئے بغیر بڑائی کی دوڑ میں شامل ہونا میڈیا کی بیساکھیوں کے سہارے چلنا ہے۔ میڈیا کی لہروں کے جام ہوتے ہی خود کو بڑا جاننے والا آدمی شدید ڈیپریشن اورتناﺅ کا شکار ہوجاتا ہے۔ آخر ایسا کیوں نہ ہو۔۔۔۔ وہ بڑائی کواپنے اندر تلاش کرنے کی بجائے باہر ڈھونڈ رہا تھا۔ وہ دلوں کے بجائے دماغوں کو متاثر کرنے کے جتن کرتا رہا۔ اس کی تنہائی اور مجمعے کی زندگی میں ایک خوفناک خلیج پیدا ہوچکی تھی۔ اس خلیج کو پاٹنے کے لئے عجز اور توبہ کی مٹی درکار تھی لیکن اس کے پاس اس کام کے لئے نہ مزاج تھا، نہ فرصت بڑے آدمی کی نشانی یہ ہوتی ہے کہ وہ چھوٹے آدمی کا خیال رکھتا ہے۔ اس کی دل شکنی کا مرتکب نہیں ہوتا۔ وہ امیرِ شہر کے فنکشن میں جاکر اس کی دعوت کا تذکرہ نگار بننے کی بجائے کسی غریب اور گمنام آدمی کی مجلس میں بیٹھ کر اس کا ہمدم بننا پسند کرتا ہے۔ اسے نام کی بجائے اپنا کام عزیز ہوتا ہے۔ وہ شہرت کانہیں، عزت کا طلبگار ہوتا ہے۔ شہرت اور عزت میں فرق ہوتا ہے ، شہرت آنکھوں کو چندھیاتی ہے، عزت دلوں میں جگہ پاتی ہے۔ شہرت کو عبرت بننے میں دیر نہیں لگتی ہے۔ شہرت عارضی ہوتی ہے ، عزت ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دراصل بڑا آدمی وہ ہے جو اخلاق میں بڑا ہے۔ اخلاق کا امتحان شروع ہی اس وقت ہوتا ہے جب مدِ مقابل چھوٹا آدمی ہوتا ہے۔ ہم مرتبہ لوگوں کے ساتھ اخلاقیات کا مظاہرہ کرنا تو ہماری معاشرتی مجبوری ہوتی ہے۔ جب کیمروں کے شٹر آف ہوجائیں تو غریبوں کی بیٹھک سے اُٹھ جانے والاشخص چھوٹا آدمی بھی ہوتا ہے اور جھوٹا آدمی بھی۔ سوئے ہوئے بچے کو پیار کرنے والا شخص بڑا آدمی ہوتا ہے۔ غریب کو پروٹوکول دینے والا شخص کسی پروٹوکول کا محتاج نہیں رہتا۔ تنہائی میں نیکی کرنے والا خدا سے ڈرتا ہے…. نیکی کا اشتہار چلانے والا صرف مخلوق سے خائف ہے۔ انسان کے ظرف کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب وہ کسی ایسے شخص سے نیکی کرے جو نہ تو اس کا صلہ دینے پر قادر ہو، اور نہ اس کی نیکی کا ڈھول بجانے کی قدرت رکھتا ہو۔ غریب آدمی کو عزت دینے والا حقیقت میں امیر ہوتا ہے…. امیر وہ ہے جس کا خیال دولت کا اَسیر نہ ہو ….اُس کی کتابِ زیست میں ترجیح ِ اوّل دولت کا باب نہیں….بلکہ اس کی ترجیحات کے باب میں میں انسان اوّل ہے۔

یہ بھی پڑھئے:  جناب وزیراعظم! کچھ مطالعہ بھی کر لیجئے

بڑا آدمی پُرعزم ہوتا ہے، باہمت ہوتا ہے۔ اس میں اپنی غلطی کا اعتراف کرنے کی ہمت ہوتی ہے ، اس میں نئے سرے سے اپنے سفر کا آغازکرنے کا عزم ہوتا ہے۔ ناکام وہ ہوتا ہے‘ جو عزم ِ نَو قائم کرنے میں ناکام ہوجائے۔ گرنا ‘ناکامی نہیں، بلکہ گرنے کے بعد دوبارہ اٹھنے کے عزم سے دستبردار ہونے کا نام ناکامی ہے۔ اس لئے بڑا آدمی ناکام رہ کر بھی ناکام نہیں ہوتا۔

چھوٹا آدمی وہ ہے‘ جس کا ظرف چھوٹا ہے …. ….اور بڑاآدمی وہ ہوتا ہے جس کا ظرف بڑا ہوتا ہے۔ بڑاآدمی جھکنا جانتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ چھوٹے آدمی کی صرف اکڑفوں بڑی ہوتی ہے۔ جو آدمی جتنا چھوٹا ہوتا ہے، اُس کے شعور کا دائرہ اتنا ہی تنگ ہوتا ہے ….اورجتنا تنگ ہوتا ہے ‘اتنا کثیف ہوتا چلا جاتا ہے…. اس لئے وہ کسی اور کے دائرہ ِ شعور میں سے نہیں گذر سکتا…. اور نہ وہ کسی اور ہی کو اپنی سوچوں میں سے گذرنے دیتا ہے۔ چھوٹے آدمی کا دل بھی چھوٹا ہوتا ہے ….مادی نظامِ عالم چھوڑنے کو اس کا دل نہیں چاہتا …. وہ کثافت قبول کر لیتا ہے لیکن دنیا چھوڑنا قبول نہیں کرتا۔ ایک کثیف ”میں“ کو رہنے کے لئے سنگ و خشت کا مکان ہی کافی رہتا ہے ….اورسنگ و خشت ظاہر ہے‘ ایک دوسرے کو راستہ نہیں دیتے۔

آدمی جتنا بڑا ہو گا‘اتنا ہی وسیع القلب ہو گا….قلب کی وسعت دینے سے بڑھتی ہے۔ سمیٹنے سے جمع کرنے سے صرف توند بڑھتی ہے دل چھوٹا رہ جاتا ہے۔ لطافت وسیع القلبی کی میراث ہے۔ وسیع القلب انسان اپنی لطافت ِ قلبی کے سبب کسی مکان میں نہیں سما سکتا۔ درحقیقت لطافت کو درکار وسعت مکان کی بجائے لامکاں میں میسر آتی ہے وسعت لطافت پیدا کرتی ہے اور لطافت وسعت، جنّت ایک جائے لطافت ہے۔اس لئے وسعت میں زمین و آسمان سے بڑھ کر ہے۔

یہ بھی پڑھئے:  بےنظیر بھٹو قتل کے ذمہ دار کون؟

ایک وسیع القلب اور عالی ظرف آدمی اَن دیکھی لطافتوں کا نشاں اور اَن حد وسعتوں کا اَمین ہوتا ہے۔ اس کا شعور مادّے سے نکل کر روح میں داخل ہوجاتا ہے۔ روحانی شعور مادّی شعور سے اتنا ہی مختلف ہے جتنا انسان حیوان سے۔ روحانی شعور کا دائرہ ہمہ حال وسعت پذیر رہتا ہے اور یہ دائرہِ شعور بڑھتے بڑھتے وسعتوں کی اُس انتہا کو پہنچ جاتا ہے کہ خط مستقیم کی صورت اختیار لیتا ہے۔ خط ِ مستقیم دائرہِ انسانیت کو چھولیتا ہے۔ روحانی شعور ”من و تو“ کی بحث سے نکل کر سب دائروں کو اپنی آغوشِ رحمت میں سمیٹ لیتا ہے۔ بڑا آدمی اپنے رب کی رحمتوں اور نعمتوں کی تقسیم میں اپنے پرائے کا فرق نہیں رکھتا۔ وہ اپنے رب کی نعمتوں کا خازن اور رحمتوں کا امین ہوتا ہے! اس کی نیکی اس بارش کی طرح ہے جو خشک و تر دونوں جگہ برستی ہے۔ بارانِ رحمت اپنے پرائے سب کے لئے ہے۔ اس پر استحقاق کا فارمولہ لگانے کی ضرورت نہیں۔ اگر استحقاق اور استعداد نہ رکھنے کے باوجود کوئی اپنے رب کی نعمتوں اور رحمتوں میں پل بڑھ رہا ہے تو عالی ظرف اس پرمعترض نہیں ہوتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ رحمت سیّاٰت کو حسنات میں بدلنے کے لئے ہوتی ہے. رحمت رات کی کوکھ سے دن پیدا کرنے کے لئے پیدا کی گئی ہے۔ رحمت اعمال کو اِحتساب سے نجات دلانے کے لئے ہوتی ہے۔ رحمت رحم سے ہے اور انصاف سے پہلے رحم کرتی ہے۔ رحمت مذلت کے اسباب میں سے عزت کا راستہ اور نتیجہ دے سکتی ہے۔ درحقیقت رحمت کے حصول کا نام فضل ہے اور رحمت سے محرومی کا نام عذاب ہے۔ اپنے رب کی رحمت پر معترض محروم رہ جاتا ہے، معترف مستحق ہوجاتا ہے۔ معترض عذاب میں ہے، معترف ثواب میں ہمہ حال ثواب میں۔

حالیہ بلاگ پوسٹس