Qalamkar Website Header Image

زہرِ ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند

منصف اور مصنف ہمہ حال مسندِ عدالت پر ہوتے ہیں۔ منصف اور مصنف دونوں کا قلم راہِ عدل سے ہٹ جائے تو حال ہی نہیں مستقبل بھی تاریک ہوجاتا ہے۔ لازم ہے کہ منصف اور مصنف مقبول فیصلے نہیںٗ بلکہ درست فیصلے تحریر کریں۔ عوام میں داد و ستائش کی لپک ایک منصف اور مصنف دونوں کو مسندِ عدل سے اٹھا کر ایک وکیل کی سطح پر لے آتی ہے۔ منصف کی طرح مصنف کو نہ تو وکیل صفائی بننا ہوتا ہے اور نہ ہی وکیلِ استغاثہ کا دستِ راست ۔۔۔۔۔ کہ راہِ راست سے دُور جا پڑے۔ راہِ عدل یقیناً ایک دشوارگزار گھاٹی کا راستہ ہے۔ معاشرے میں امن عدل کی بنیاد پر قائم ہے۔ جہاں عدل متاثر ہوتا ہےٗ امن و عامہ میں خلل واقع ہوجاتا ہے۔ عدالت کی اصل طاقت اپنے صائب فیصلوں کے سبب حاصل ہونے والی ایک اخلاقی طاقت ہوتی ہے۔ منصف اور مصنف ہمہ حال مسندِ عدالت پر ہوتے ہیں۔ منصف اور مصنف دونوں کا قلم راہِ عدل سے ہٹ جائے تو حال ہی نہیں مستقبل بھی تاریک ہوجاتا ہے۔ لازم ہے کہ منصف اور مصنف مقبول فیصلے نہیںٗ بلکہ درست فیصلے تحریر کریں۔ عوام میں داد و ستائش کی لپک ایک منصف اور مصنف دونوں کو مسندِ عدل سے اٹھا کر ایک وکیل کی سطح پر لے آتی ہے۔ منصف کی طرح مصنف کو نہ تو وکیل صفائی بننا ہوتا ہے اور نہ ہی وکیلِ استغاثہ کا دستِ راست ۔۔۔۔۔ کہ راہِ راست سے دُور جا پڑے۔

راہِ عدل یقیناً ایک دشوارگزار گھاٹی کا راستہ ہے۔ معاشرے میں امن عدل کی بنیاد پر قائم ہے۔ جہاں عدل متاثر ہوتا ہےٗ امن و عامہ میں خلل واقع ہوجاتا ہے۔ عدالت کی اصل طاقت اپنے صائب فیصلوں کے سبب حاصل ہونے والی ایک اخلاقی طاقت ہوتی ہے۔ گزشتہ دنوں ناموسِ رسالتؐ کے حوالے سے عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے اور اس کے ردِ عمل میں ایک جماعت کی طرف سے شورش کی آواز نے حساس ذہنوں کو انتہائی متفکر کر دیا۔ یہ موضوع جس قدر حساس ہےٗ اسی قدربروقت اور بے لاگ اظہار کا متقاضی بھی ہے۔ سوٗ قلم کے قاضی کو عدالت لگانا پڑی۔   عشق جلنے کا نام ہے۔۔۔۔۔۔  جلانے کا نہیں۔ عشق میں جلنے والا جِلا پاتا ہے، وہ خود جلتا ہے اور ارگرد روشنی پھیلاتا ہے۔ دراصل  شمعِ علم کے سوا کچھ بھی جلائیں تو روشنی بجھ جاتی ہے۔ عشق سوزِ دروں ہے۔ عشق کا کام باطن کے ساتھ ہے۔ یہ جلسے کرتا ہے، نہ جلوس نکالتا ہے۔عشق دعویٰ نہیںٗ عمل ہے۔۔۔ یہ اعلان نہیںٗ پیمان ہے۔ عشق کا پیمانہ محبوب کی رضا ہے۔ اگر محب کے دستِ خیال میں محبوب کی پسند ناپسند کا دامانِ خیال نہ ہو تو عشق کا دعویٰ ایک سامانِ رسوائی کے سوا کچھ نہیں۔ نارِ عشق اندر ہوتی ہے، اس کی تاثیر نور بن کا ظاہر میں روشنی کا سامان کرتی ہے۔ زادِ عشق آدم زاد کوفرشتوں سے برتر کرتا ہے۔ عشق کی دسترس میں لامکاں ہے۔۔۔۔ بشرطیکہ مکان سے دست کش ہو جائے۔۔۔ اورنام و نمود کی خواہش کو نابود کردے۔ عشق روحِ روحانیت ہے۔

روحانیت اگر دولت ، شہرت اور منصب کی خواہش سے آزادی کا پروانہ نہ دلائے تو روحانیت کا مسافر نور کا نہیںٗ کسی اور منزل کا مسافر ہے۔  حضرتِ انسان فطرتاً نرگسیت پسند واقع ہوا ہے۔ وہ اپنے ہر جذبے کیلئے بہتر سے بہترین الفاظ کا انتخاب کرتا ہے۔ معمولی سے لگاؤ کوجھٹ پٹ محبت کا نام دے دیتا ہے۔ اَنا کو خود داری کا نام دیتا ہے۔ لسانی اور نسلی تعصب کو حب الوطنی سمجھتا ہے۔ وہ تعصب اور محبت میں کوئی فرق روا نہیں رکھتا۔ اپنے مسلک کی اشاعت کو دین کی اشاعت سمجھتا ہے۔ وہ غصے کو غیرت سمجھتا ہے اور اظہارِ غم کے موقع پر غم اور غصے میں فرق نہیں کرپاتا۔ بسا اوقات فرقہ واریت سے تنگ آکر ایک نیا فرقہ ایجاد کر لیتا ہے۔ اصلاح کے نام پرفساد پھیلاتا ہے اور دینِ رحمت کی نمائندگی اس طریقے سے کرتا ہے کہ مخلوقِ خدا کو زحمت میں مبتلا کر دیتا ہے۔ اپنے دائرہ اِرادت سے خارج ہونے والے کو دائرہ اسلام ہی سے خارج سمجھتا ہے۔ دراصل وہ دین کے ساتھ ساتھ اپنی ذات اور جماعت کو بھی منوانا چاہتا ہے۔ اپنے ناتراشیدہ جذبے کو جذبہ عشق کا نام دیتا ہے اور اپنے مخالف کی دھیمی محبت پر عقل پرستی کا فتویٰ جڑ دیتا ہے۔ خود کوہمیشہ رائٹ سمجھنے والا اختلاف کرنے والے کو لیفٹ ہی نہیںٗ رانگ بھی سمجھتا ہے۔

حالانکہ اصل تقسیم رائٹ اور لیفٹ کی نہیں ، بلکہ رائیٹ اور رانگ کی ہے۔ خود کو مومن اور دوسروں کو کافر اور منافق جاننا ہی یہ کافی ثبوت ہے کہ ایمان ابھی ہمارے دلوں میں داخل نہیں ہوا۔ ایمان کی نوری کرن جب دل میں نافذ ہوتی ہے تو کفر، فسق اور عصیان سے کراہت ہو جاتی ہے۔ کافر ، فاسق اور عاصی سے نہیں۔ ایمان کا ذکر صرف نوکِ  زبان پر ہو تو سارا جہاں کفر کے فتووں کی زد میں ہوتا ہے، ایمان دل میں اتر جائے تو چپکے سے محبت بھی دل میں اترآتی ہے۔ محبت کا اثرآنکھوں میں ظاہر ہوتاہے۔ محبت میں مخمور آنکھ کوعام انسانوں میں کوئی کمی، کجی یا کوتاہی نظر ہی نہیں آتی ۔ یہ محبت کا کمال ہے کہ ہر شخص مکمل نظر آنے لگتا ہے۔ دوسروں کی کوتاہیوں پر غصہ کی بجائے ترس آتا ہے۔ دراصل اصلاح کا راستہ سوائے محبت کےٗ کسی اور راہگزر سے نہیں گزرتا۔ روح اور جسم کی طرح یہ عالمِ وجود بھی ظاہر اور باطن میں تقسیم ہے۔ باطن میں عشق و مستی کی حکومت  ہے اور عالمِ ظاہر میں شرع، عقل اور قانون کی حکمرانی ہے۔ عقل کی جگہ دل نہیں لے سکتا اور دل کی جگہ عقل نہیں سنبھال سکتی ۔ ازروئے قرآنٗ  سورج کی یہ مجال نہیں کہ چاند کو جالے اور نہ رات ہی دن سے پہلے آسکتی ہے، اور سب اپنے اپنے مداروں میں  تسبیح خواں ہیں۔

یہ بھی پڑھئے:  پیشوائے بنی گالہ اور ریحام خان

ہم لاکھ عاشق ہوجائیںٗ جنابِ منصور حلاجؒ سے بڑے عاشقِ رسولؐ نہیں ہوسکتے، ذرا ان کی تصنیفِ دلنشین "طاسین” پڑھنے کی کوشش کرکے دیکھ لیں۔۔۔” طاسین محمدؐ” کا باب ہی پڑھ کر دیکھ لیں۔ قاضی کا فیصلہ انہوں نے بھی مانا ۔۔۔۔۔۔ جان سے گئے لیکن منصف کا فیصلہ مان کر گئے۔ جنابِ منصور حلاجؒ کے محرم راز حضرت شبلیؒ بھی قاضی کے فیصلے پر دستخط کرنے والوں میں شامل ہیں۔ شریعت وبشریت کے تقاضے سےاپنے عارف باللہ دوست پر سنگ زنی کرنے والے مجمع میں شامل ہوتے ہیں اور اتمام حجت کیلئے ان پرایک پھول پھینک دیتے ہیں۔ جناب منصورؒ نے کہاٗ تم مجھے جانتے ہوٗاس لیے تمہارا یہ پھول پھینکناٗ ان سب نہ جاننے والوں کے پتھروں سے زیادہ تکلیف دیتا ہے۔   منصفین کی نیت پر شک نہیں کیا جاسکتا۔ وہ بھی اسی رسولِ رحمتؐ  کا کلمہ پڑھتے ہیںٗ جس کے ساتھ عشق و محبت کا دعویٰ ہمیں لاحق ہے۔ ہمیں اعتراض کا حق توحاصل ہےٗ ناروا احتجاج کا نہیں۔ ہر چند کہ احتجاج بھی روا ہے لیکن ایسا احتجاج جو شائستگی اور وقار کا بینر اٹھائے ہوئے ہو۔ لاٹھی اور پتھر اٹھا کر ہم اس رسولِ رحمتؐ کی ناموس کے حق میں مظاہرہ نہیں کر سکتےٗ جس نے پتھر کھا کر دعائیں دی ہیں۔ دنیا بھر میں لوگ احتجاج ریکارڈ کرواتے ہیں، ملین مارچ نکالتے ہیں لیکن کسی شہری کو تکلیف نہیں ہوتی، شہریوں کی املاک نذرِ آتش نہیں کی جاتیں۔ جس دین میں راستے سے کانٹے اور کنکر دور کرنے پر اجر کی بشارت دی گئی ہےٗ اس دین پر چلنے والے راستے کیسے بند سکتے ہیں؟  رسولِ رحمتؐ کا حکم ہے”لاتجلس فی الطریق "۔۔۔ راستوں پر مت بیٹھو کہ راستوں پر گذرنے والوں کا حق ہے۔ رسولِ رحمتؐ کی حرمت پر پہرہ دینے والے آپؐ کے حکم کونظر انداز کیسے کر سکتے ہیں؟  مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ فرمایا کرتے ” اپنے غم کو غصہ نہ بناؤ”۔ کچھ بھی ہوجائےٗ بغاوت پراکسانے اور اُترآنے کی روش بجائے خود ایک سوالیہ نشان ہے۔ افواجِ پاکستان افواجِ اسلام ہیں۔ افواج کو کمزور کرنا اسلام کو کمزور کرنے کے برابر ہے۔ ماضی میں کسی سیاسی جماعت کی ہنگامہ آرائی ہمارے لیے نظیر ہےٗ نہ جواز۔ کچھ لوگ توجیہ دیتے ہیں کہ جب تک ہنگامہ آرائی نہ ہوٗ احتجاج رجسٹر نہیں ہوتا، خبر نہیں بنتی، اس لئے جو ہواٗ اسے آزادی اظہار ہی سمجھا جائے۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اگر مقصد اچھا ہوٗ تو اس مقصد تک پہنچنے کیلئے کوئی بھی راستہ اختیار کیا جاسکتا ہے۔ مغرب سے درآمد شدہ کلیہ” محبت اور جنگ میںسب کچھ جائز ہے” دینِ اسلام میں قابلِ قبول نہیں۔ یہاں محبت شریعت کے تابع ہے اور جنگ قانون کے تابع ۔ دین میں صراط مستقیم کی دعا کی تاکید ہے، یعنی راستے کا سیدھا ہونا شرطِ اوّل ہے، منزل حاصل ہوتی ہے یا نہیںٗ  مسافر کا تائب اور راستے کا صائب ہونا بنیادی چیز ہے۔ یہاں تک فرما دیا گیا کہ مومن کی نیت اس کے عمل سے بہتر ہے۔ درست راستے کا تعین درست نیت سے ہوتا ہے۔ سیدھا راستہ وہی ہے جو انعام یافتہ لوگوںٗ انبیا، شہدا، صدیقین اور صالحین کا راستہ ہے۔اولیا و اصفیا نے کبھی اس اصول کی خلاف ورزی نہیں کی۔ اسلاف علما و صوفیا کی سنت (پروٹوکول) سے انحراف ہمیں ضالین کی فہرست میں شامل کرتا ہے یا پھر مغضوبین میں۔ یہ لمحہ فکریہ بھی ہے اور المیہ بھیٗ ہم جس شخصیت سے محبت و عقیدت کا اظہار کرتے ہیںٗ اس کے کام اور کلام سے یکسر غافل ہوجاتے ہیں۔ شوق کے ساتھ ساتھ ذوق کا ہونا بھی ضروری ہے ۔۔۔ اورذوق کی پرورش تعلیم اور علم کے پالنے میں ہوتی ہے۔ عقیدت کے نام پر عقیدت کے صاحب کےمزاج اور فکر کے برعکس کوئی راستہ اختیار کرنا راہِ راست نہیں۔  دل گواہی دیتا ہےٗ  رسولِ رحمتؐ اپنے امتیوں کے اس طرزِ عمل پررنجیدہ خاطر ہوں گے۔

یہ بھی پڑھئے:  تہذیب کا ماتم

تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ سلیم الطبع لوگ اس فیصلے پر تحفظات ظاہر کر رہے ہیں، معزز منصفین اس واقعے کی از سرِ نَو تفتیش کا حکم دے سکتے تھے، جے آئی ٹی یہاں بھی بن سکتی تھی۔سوال یہ اٹھایا جارہا ہے کہ اگر معاملہ اتنا ہی سادہ اور شفاف تھاٗ تو پہلی عدالتوں نے پھانسی ایسی انتہائی سزا کیوں سنائی؟  ایسا تو نہیں ہے کہ کچھ بھی نہیں ہے ۔ جہاں سے دھواں اٹھا ہےٗ وہاں آگ نہ سہیٗ کوئی چنگاری تو بھڑکی ہوگی۔ سزا میں تخفیف بھی کی جا سکتی تھی، یکدم بریت کا فیصلہ عوام کو مشتعل کر گیا۔ موسم کا حال پڑھنے والے بھی گرمی سردی کو صرف ڈگری سینٹی گریڈ میں نہیں دیکھتےٗ بلکہ وہ موسم کی  FEEL بھی دیکھتے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اس قسم کے مقدمات میں سب سے اہم چیز توہینِ رسالتؐ کا تعین کرنا ہے ۔۔۔۔ لیکن اس امر کی طرف توجہ بہت کم توجہ دی جاتی ہے۔ اگر معزز عدالت اس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ توہین کا ارتکاب نہیں کیا گیا تو ایسے میں الزام لگانے والوں پر قذف کی حد جاری کی جانی چاہیے۔ کسی بے گناہ کوقید میں رکھنے کا سبب بننے والوں کیلئے سزا تجویز کی جائے ، تاآنکہ آئندہ کسی کوجھوٹا الزام لگانے کی جرات نہ ہو سکے، بصورتِ دیگر مجرم کو ایسی عبرتناک سزا دی جائے کہ مملکتِ خدا داد میں ایسے قبیح جرم کا ہمیشہ ہمیشہ کیلئے قلع قمع ہوجائےاور دنیا بھر کیلئے ایک مثال بن جائے۔ عدلٗ انصاف سے بڑھ کر ہے۔ راہِ اعتدال ہیٗ راہِ عدل ہے! عدل کے تقاضے پورے کرنا منصف کا کام ہے۔ عدل کوئی حسابی کتابی کلیہ نہیں کہ وو جمع دوٗ چار کا فارمولہ بن جائے۔ ظاہر میں نظر آنے والے شواہد کی جانچ پڑتال بھی اہم ہے، کسی واقعے کا سیاق واسباق جاننا بھی ضروری ہے اوراس کے پس منظر اور پھر پیش منظر پر نگاہ رکھنا بھی لازم ہے۔ بہرطور شریعت ہمیں حکم دیتی ہے کہ قاضی کا فیصلہ خواہ غلط نظر آئےٗ تسلیم کرو۔ ملزم اور مدعی اگراس  عدالت میں جوابدہ ہیںٗ تو منصف کسی اور عدالت میں جوابدہ ہے۔۔۔۔۔۔ سب سے پہلے اپنے ضمیر کی عدالت میں ۔۔۔ اور پھر اس عدالت میں جو بروزِ قیامت سب کیلئے قائم ہوگی!!  تصویر کا تیسرا رخ انتہائی بھیانک ہے۔ مغرب میں ہراس شخص پر دولت اور شہرت کی دیوی مہربان ہو جاتی ہےٗ جو توہین رسالت مآبﷺ کا ارتکاب کرے، یہاں دوسرے اور تیسرے درجے کے ناول نگاروں کو ادبی انعام دے دیا جاتا ہےٗ ان کے دامنِ ہنر میں اس کے سوا کچھ نہیں ہوتا کہ ان کے قلم شہرِعلمؐ کی شان میں بے ادبی کر چکے ہیں۔ آزادی اظہار کی آڑ میں اہلِ اسلام کی مرکزو محور شخصیات اورشعائر کی توہین کی مسلسل حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ ہرشاتمِ رسولؐ کوایک طے شدہ پروگرام کے تحت ہیرو بنا دیا جاتا ہے۔ سلمان رشدی ایسے کئی مصنفین ڈالروں میں تول دیے گئے۔

گویا یورپی ممالک میں سیاسی ہمدردی اورپناہ حاصل کرنےکی ترکیب اور ترغیب دی جارہی ہے کہ دین اور بانی دینِ مبینؐ کی شان میں متنازعہ کلام کرو۔ اس کیس میں بھی نامزد گستاخہ کی سواگت کیلئے پورا یورپ بسر و چشم منتظر ہے، اس پر کتابیں لکھی جا چکی ہیںٗ جس کی لاکھوں ڈالرکی رائیلٹی اس کیلئے مختص کر دی گئی ہے، بس جیل اور ملک سے باہر نکلنے کی دیرہے کہ نام نہاد انسانی حقوق کی تنظیمیں اسے سر پر بٹھا لیں گی، عین ممکن ہےٗ کل کلاں اسےکسی نوبل انعام کیلئے بھی نامزد کر دیا جائے۔ اہلِ اسلام کے سینے پر مونگ دلنے کیلئے ان کے ہاتھ میں ایک اور مختاراں مائی آچکی ہے۔ یہ طرز عمل تہذیبوں کے تصادم کو عسکری تصادم کی طرف ہانکنے کا ایک خطرناک کرتب ہے۔ کیااربابِ حل و عقد کو اس جہت کا ادراک ہے؟ اس کے تدارک کیلئے کیا تدابیرعمل میں لائی جارہی ہیں؟     انسانی حقوق کے علم بردارو!  انسانِ کاملؐ کے حقوق مت بھولو! وہ انسانِ کاملﷺ   جس نے نوعِ انسان کو اس کے بنیادی حقوق یاد دلائے ۔۔۔ انسانی جان مال اور آبرو کی حرمت کو حرمتِ کعبہ پر بھی فایق رکھا۔۔۔۔ اسؐ کی شان اور عظمت کے حقوق ہم پر تاقیامت فرض ہیں۔

حالیہ بلاگ پوسٹس