ووٹ کیا ہے؟ بعض لوگ اسے گواہی کہتے ہیں، بعض کہتے ہیں کہ ووٹ کی شرعی حیثیت شہادت کی نہیں بلکہ وکالت کی ہے۔ وکالت سے مراد یہ ہے کہ آپ مجلسِ شوریٰ میں ووٹ کے ذریعے اپنی جگہ کسی کو اپنا وکیل مقرر کرتے ہیں۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو ہمارا ووٹ ہمارے ضمیر کی گواہی ضرور ہے۔ ہر چند کہ راقم کی تحریر اور طرزِ تحریر کبھی سیاست کی غلام گردشوں کی اسیر نہیں رہی، اور نہ ہی اس کے افکار کے موقلم نے کسی سیاسی کینوس میں رنگ بھرے ہیں، لیکن گزشتہ چند روز سے قارئین اور قریبی احباب مصر ہیں کہ حالیہ انتخابات اور سیاست پر قلم فرسائی کی جائے، اور یہ ضرور بتایا جائے کہ ووٹ کسے دیا جائے۔ احسن طریق تو یہی ہے کہ ہر شخص ارد گرد سے پوچھنے کی بجائے اپنے ضمیر سے پوچھے۔ ضمیر تنہائی میں زیادہ شستہ کلام کرتا ہے۔ سیاست کے بازار میں بھانت بھانت کی بولیاں بولی جارہی ہیں، یہ بتانا مشکل ہے کہ ووٹ کسے دیا جائے۔ ہاں! اس کا جواب ضرور دیا جا سکتا ہے کہ کسے ووٹ نہ دیا جائے۔ معالج کا تجربہ ہے کہ صرف یہی بتا دینا کافی ہوتا ہے کہ کس چیز سے پرہیز کیا جائے۔
بہر طور مشورہ بھی ایک امانت ہےٗ جسے دیانت داری سے دینا فرض ہے۔ گونگا شیطان بن کر چپکا بیٹھا رہنے سے بہتر ہے کہ انسان ضمیر کی گواہی دیتا ہوا کوئے ملامت سے گذر جائے۔ سیدھی سی بات ہےٗ اگر ہمارا مقدمہ سیدھا سا دیوانی بھی ہو تو ہم اپنے وکیل کا انتخاب سوچ سمجھ کر کرتے ہیں، کجا یہ کہ ایسا انتخاب سر پر آ جائے جو دیوانی سے زیادہ فوجداری نوعیت کا مقدمہ بن چکا ہو۔ کہنے کو ہم اپنے حلقے کے امیدوار کا چناؤ کرتے ہیں لیکن ہمارنظامِ سیاست کچھ ایسا ہے کہ اکیلا فرد کچھ نہیں کر سکتا، پارٹی فرد پر غالب آ جاتی ہے۔ ایک صائب شخص بھی پارلیمنٹ میں پارٹی پالیسی سے انحراف نہیں کر سکتا۔ اس طرح ایک فرد کا چناؤ جس میں شخصی کردار ملحوظ رکھا جائےٗ بے معنی سا ہو کر رہ جاتا ہے۔ گرچہ ہمارا نظام صدارتی نہیںٗ لیکن ہماری پارلیمان کے ہاتھ کچھ اس طرح باندھ دیے گئے ہیں کہ پارٹی کا سربراہ مطلق العنان صدر بن جاتا ہے۔ لہٰذا فرد کی بجائے پارٹی سربراہ کو پیشِ نظر رکھنا ضروری ہے اور کسی فردِ واحد کے وعدوں ، دعووں اور نعروں کے بجائے پارٹی منشور کو مد نظر رکھنا اشدضروری ہے۔عین ممکن ہےٗ میری دانست میں ایک شریف النفس امیدوار پارلیمان میں میری نمائندگی کیلئے لب کشائی نہ کر سکے۔
موجودہ انتخابات میں فوج اور اسٹیبلشمنٹ کا نام بہت زور اور شور سے سننے میں آ رہا ہے۔ دراصل فوج بھی رہے گی اور اسٹیبلشمنٹ بھی۔ کوئی ملک فوج اور اسٹیبلشمنٹ کے بغیر تو نہیں چل سکتا۔ کسی نے فوج کے بجٹ پر اعتراض کیا تو ایک فوجی جوان نے بہت خوبصوت جواب دیاٗ جناب والا! فوج تو رہے گی، کوئی خطہ فوج سے خالی نہیں ہو سکتا ہے، یہ فیصلہ آپ نے کرنا ہے کہ کون سی فوج رہے گی۔ جہاں ملکی فوج کم اور کمزور پڑ جاتی ہے وہاں اس کی جگہ لینے کیلئے غیر ملکی فوج آ جاتی ہے. شام، عراق ، افغانستان اور لبیا میں آگ اور خون سے دہکتے ہوئے شہر سب کی نظروں کے سامنے ہیں۔ اسی طرح اسٹیبلشمنٹ اور ادارے بھی ہر ملک میں رہیں گے۔ کہا جاتا ہےٗ فلاں اور فلاں کو اسٹیبلشمنٹ کی حمائت حاصل ہے…. چلیں! ملکی اسٹیبلشمنٹ نہ سہیٗ کسی غیر ملکی اسٹیبلشمنٹ کے حمایت یافتہ کے حق میں ووٹ دے دیں!! کسی نے قائدِ اعظمؒ سے کہا تھاٗ مسٹرجناح! میں آپ کو ووٹ نہیں دوں گاٗ آپ شیعہ ہیں۔ قائدِ اعظمؒ نے بڑے تحمل سے جواب دیاٗ گاندھی کو ووٹ دے دوٗ وہ سُنّی ہے.
حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا قول ہےٗ کسی تاجر کو حکمران نہ بناؤ۔ تاجر قوم کا سودا کردے گا۔ تاجر انہ ذہن میں قومی اور ملّی شعور نہیں ہوتا۔ مفاد عقل کو ماؤف کر دیتا ہے۔ درِ علمؓ سے ایک قول منقول ہے کہ دوست تین قسم کے ہوتے ہیں. دوست، دوست کا دوست اور دشمن کا دشمن، اور اسی طرح دشمن بھی تین قسم کے ہوتے ہیں. دشمن ، دوست کا دشمن ، اور دشمن کا دوست۔ دشمن میڈیا کی سُر تال سنیں ، انڈین اخباروں میں شائع ہونے والے آرٹیکل پڑھیں. دشمن جن کو آشیر باد دے رہے ہوں بسٗ اُن سے ذرا بچ کے ، ذرا ہٹ کے!! دال میں کچھ کالا نہیں، پوری دال ہی کالی ہے. اور دال دلیہ اور دھن تو ہے ہی کالا!
یہ بیانیے کا بیان بھی خوب ہے۔ بیانیہ بیانیے سے ملنے لگے تو سمجھیں بیابانیاں قریب آنے لگی ہیں۔ جن کے بیانئے آپس میں ملنے لگیں، وہ عنقریب گلے بھی ملیں گے…. کر کر لمبے ہاتھ…. جس طرح مایا کو مایا ملتی ہے!!
خائن کو خزانے کا محافظ نہ بنائیں۔ ہم کسی مجرم کیا ملزم کو بھی اپنے گھر کا چوکیدار مقررنہیں کرتے۔ ہم کبھی بحث نہیں کرتے کہ تھانیداروں اور ججوں کی ملی بھگت نے اس بے چارے کو ملزم اور پھر مجرم قرار دے دیا ہے، وگرنہ ہے تویہ ایک معصوم اور شریف آدمی!! الغرضٗ جو لوگ کسی بھی سطح پر خائن ثابت ہو چکے ہوں‘ انہیں قومی خزانہ کا محافظ بنانا ان کی خیانت میں معاونت کرنا ہے۔” مومن ایک سوراخ سے دوبارہ نہیں ڈسا جاتا”.
ووٹ دینا کسی کو عددی قوت مہیا کرنا ہے۔ پارلیمنٹ میں یہی عددی قوت اختیار اور اقتدار کا روپ دھار لے گی۔ قائد وہ ہوتا ہےٗ جو قومی سالمیت کی بات کرتا ہے۔ قوم کا قائد وحدت کی علامت ہوتا ہے۔ جس کے بیان سے دشمن کا بیانیہ مضبوط ہوتا ہوٗ اسے طاقت ملے گی تو ملکی سالمیت کمزورہوگی۔ فرقوں اور صوبوں کی عصبیت کو ہوا دینے والا مملکت کا وکیل مقرر نہیں کیا جا سکتا۔ ملک کے ادارے عشروں اور صدیوں میں بنتے ہیں، اداروں کو متنازع بنانے والا مملکت میں تنازعہ کھڑا کر دے گا۔ دانستگی یا نادانستگی میں دشمن کے ہاتھ مضبوط کرنے والے کے ہاتھ مضبوط نہ کریں۔ کسی گروہی، صوبائی ، لسانی یا مسلکی عصبیت کو ہوا دینے والا ہماری فہرست سے خارج ہے، خواہ کسی بیلٹ پیپر کی فہرست میں شامل ہی کیوں نہ ہو۔
دین کو سیاسی قوت حاصل کرنے کیلئے استعمال کرنے والی قوتیں بدقسمتی سے نہ دینی قوتیں ہیں، نہ سیاسی۔ یہ گروہ کہیں موثر ثابت نہیں ہوئے۔ قوتِ کردار نہ ہوٗ تو دین کا ابلاغ دین کے طور پر نہیں ہوتا بلکہ ایک مسلک اور فرقے کا رنگ اختیار کر لیتا ہے۔ ان کے جلسے جلوس بھولے بھالے دین پسند عوام کے مذہبی جذبات کے استحصال کا پروگرام ہے۔ نفاق کفر سے بدتر ہوتا ہے۔ خود کو اسلامی کہلوانے والے اپنے مخالفین کو بڑے دھڑلے سے غیر اسلامی قرار دیتے ہیں. آخر کس برتے پر!! اسلام کے نام پر مسلمانوں میں تفریق پیدا کرنے کی روش اگر سازش نہیں تو ایک سنگین قسم کی نادانی ضرور ہے۔ دانا لوگوں نے کہہ رکھا ہے کہ نادان دوست سے دانا دشمن بہتر ہے۔
اسلام دینِ صداقت ہے. اور یہ صداقت قول سے کردار تک ہے۔ صداقتِ کردار سے محرومٗ قول کی صداقت سے بھی محروم ہوتا ہے۔ کردار میں صداقت نہ ہو تو خود کو دیندار کہلوانا غور طلب ہے۔ کوئی علم کسی منافق کو مومن نہیں بنا سکتا. کہ ایمان دلیل کا نہیںٗ دِل کا سودا ہے۔ نفاق…. ہمیشہ مفاد کی تلاش میں ہوتا ہے، اور اخلاص…. ہمہ حال ذات کی تلاش میں.اخلاص، مال، مفاد اور مزاج کی نفی کا نام ہے۔ ہم اس نفی سے جتنا دور ہوتے ہیںٗ نفاق سے اتنا ہی قریب ہوتے ہیں۔ اخلاص کے سوا ہر رشتہ منافقت کا رشتہ ہے۔ نفاق مفاد پرستی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا اور کسی موقع پر اپنے مفاد سے دستبردار نہیں ہوتا۔ جب تک کوئی درجہِ اخلاص تک نہیں پہنچتاٗ دین کی نمائندگی نہیں کر سکتا! اخلاص سیاست کا کاروبار نہیں کرتا!!
سیاست کی منڈی میں ایک رجحان یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ بے پر کی اڑا دی جائےٗ فلاں لیڈر کو فلاں روحانی شخصیت کی حمائت حاصل ہے، فلاں کا تعلق فلاں خانقاہ سے ہے…. یہ روحانی سطح کا استحصال ہے۔ روحانی شخصیت مقامِ روح پر فائز ہوتی ہے، اور روح کا تعلق اَمر اور عالمِ اَمرسے ہے، روح نہ کسی کا باپ ہےٗ نہ بیٹا!! روحانی شخصیات جمہوریت کی بجائے مشیت کی حمایت کرتی ہیں۔ ایک روحانی شخصیت کا اعلانِ برات سن لیں:
؎ جس نے محبوب وطن کی ہے اڑائی مٹی
واصفؔ اس شخص کی ہو ساری کمائی مٹ
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn