Qalamkar Website Header Image

حضرت واصف علی واصف ؒ کا تصورِ تصوف اور پاکستان

مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ کا فرمان ہے کہ دین کے حوالے سے بات جتنی قدیم ہوگی اتنی ہی مستند اور حقیقت کے قریب ہو گی۔ تصوف کے حوالے سے اگر مستند اور قدیم بات تلاش کریں تو ہمیں "رسالہ قشیریہ” کے بعد” کشف المحجوب“ میسر آتی ہے‘ جو اس موضوع پر قدیم ترین دستاویز ہے۔” کشف المحجوب“ میں سید ہجویر حضرت علی بن عثمان الجلابی المعروف داتا گنج بخش علیہ الرحمتہ نے 34 ابواب قائم کیے ہیں…. ہر باب ہی بابِ حیرت ہے….ہر جملہ اپنے اندر ایک مکمل مقالہ ہے۔” کشف المحجوب“ کا ایک مخصوص اسلوب ہے، ہر موضوع پر باب شروع کرنے سے پہلے داتا حضورؒ قرآنی آیت سے سند لیتے ہیں، پھر احادیث پیش کرتے ہیں، اس کے بعد گزشتہ چار سو برس میں گزرے ہوئے عارفین کے احوال و اقوال بیان کرتے ہیں اور سب سے آخر میں اپنی رائے پیش کرتے ہیں ‘جو اس موضوع پرایک حرفِ آخر ہوتی ہے۔مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ کا فرمان ہے کہ دین کے حوالے سے بات جتنی قدیم ہوگی اتنی ہی مستند اور حقیقت کے قریب ہو گی۔ تصوف کے حوالے سے اگر مستند اور قدیم بات تلاش کریں تو ہمیں "رسالہ قشیریہ” کے بعد” کشف المحجوب“ میسر آتی ہے‘ جو اس موضوع پر قدیم ترین دستاویز ہے” کشف المحجوب“ میں سید ہجویر حضرت علی بن عثمان الجلابی المعروف داتا گنج بخش علیہ الرحمتہ نے 34 ابواب قائم کیے ہیں…. ہر باب ہی بابِ حیرت ہے….ہر جملہ اپنے اندر ایک مکمل مقالہ ہے۔

” کشف المحجوب“ کا ایک مخصوص اسلوب ہے، ہر موضوع پر باب شروع کرنے سے پہلے داتا حضورؒ قرآنی آیت سے سند لیتے ہیں، پھر احادیث پیش کرتے ہیں، اس کے بعد گزشتہ چار سو برس میں گزرے ہوئے عارفین کے احوال و اقوال بیان کرتے ہیں اور سب سے آخر میں اپنی رائے پیش کرتے ہیں ‘جو اس موضوع پرایک حرفِ آخر ہوتی ہے۔ بابِ تصوف کا آغاز داتا حضورؒ سورة الفرقان کی ایک آیت سے کرتے ہیں: ”وعباد الرحمٰن اللذین یمشون علی الارضِ ھوناً واِذا خاطبھم الجاھلون قالو سلاما“ (اور رحمان کے بندے وہ ہیں جو زمین پر بڑی عاجزی سے چلتے ہیں اور جب جاہلوں سے مخاطب ہوتے ہیں تو کہتے ہیں کہ تمہیں سلام ہو)۔ یہ آیت ایک صوفی کا مکمل ورکنگ پروٹوکول ہے، گویا صوفیا کا قرآنی نام عباد الرحمٰن ہے۔ قرآن کریم میں انہیں محسنین بھی کہا گیا ہے۔ اس باب میں صوفی کی تعریف یہ کی گئی ہے کہ صوفی کو صوفی اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ صف ِ اوّل میں شامل ہوتا ہے۔ گویا یہ سابقون الاوّلون ہیں…. زمانہِ اوّل میں زیادہ اور زمانہِ آخیر میں قلیل۔ یہاں درج ہے کہ صوفی وہ ہے ‘جو صفائے باطن رکھتا ہو، گویا تزکیہ نفس صوفی کاطرّہ امتیاز بھی ہے اور پہچان بھی۔ صوفی کی ایک تعریف یہ بھی بتائی گئی کہ صوفی وہ ہے جو اصحابِ صُفّہ سے تعلق رکھتا ہو یا اصحابِ صُفّہ سے محبت رکھتا ہو۔ یہاں یہ تذکرہ بھی برمحل ہے کہ ”کشف المحجوب“ میں ایسی احادیث نظر سے گزریں‘ جن کا مفہوم یہ ہے کہ جو شخص جس قوم سے محبت رکھے گا‘ اسی کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔

طائر ِ خیال نے یہ تعریف ، تذکرہ اور یہ مفاہیم ِ احادیث  مرشدی حضرت واصف علی واصف ؒکے پنجابی کلام ”بھرے بھڑولے“ کے اِس شعر کے ساتھ منطبق کیں تو بہت لطف حاصل ہوا: ؎ جس دی یاد اے ساڈے دل وچ اوہدی ساڈی ، اِکّو گور  محافل ِ گفتگو میں آپؒ ” کشف المحجوب“ کا یہ جملہ اکثر کوٹ کیا کرتے ” ایک وقت تھا جب تصوف ایک حقیقت تھی بغیر نام کے‘ اور آج ایک نام ہے بغیر حقیقت کے“۔ اکثر یہ سوال اٹھایا جاتا کہ لفظ تصوف کیا دَورِ نبوی میں رائج تھا؟ دراصل کسی حقیقت کا مظاہرہ manifestation پہلے ہوتا ہے اور اس کا nomenclature نام اور تعریف بعد میں متعین ہوتی ہے….اور یوں بھی اُس دَور میں اِس لفظ کے تکلف کی قطعاً کوئی ضرورت نہ تھی کہ سب اصحاب ہی صاحبانِ باطن تھے…. یہ تو بعد کی بات ہے‘ جب لوگ ملوکیت اور مادیت میں لت پت ہوتے چلے گئے تو ان میں سے جو صفائے باطن والے باقی رہ گئے‘ انہیں عوام صوفی کہنے لگے۔ تاریخی سند یہ ہے کہ دوسری صدی ہجری تک لفظ” صوفی“ مسلم معاشرے میں رائج ہو چکا تھا۔ایک شخص نے حضرت واصف علی واصفؒ سے پوچھا ”کیا رسولِ کریمﷺ صوفی تھے؟“ دیکھا جائے تو یہ بہت تیکھا سوال تھا، آپؒ نے جواب دیا”رسول صوفی نہیں ہوتا ‘و ہ صوفی گر ہوتا ہے“۔ صاحبو! ہم نے اپنے صاحب سے یہ سبق لیا کہ تصوف اتباعِ کردارِ محمدیﷺ ہے…. تصوف اخلاقِ محمدیﷺ سیکھنے اور سکھانے کا نام ہے۔ درجہ اخلاص اور اخلاق تک رسائی کا نام تصوف ہے۔ تصوف درجہ احسان ہے…. ایک معروف حدیث ِ جبریل کی رُو سے اسلام اور ایمان کے بعد احسان کا درجہ ہے…. کہ تو اپنے رب کی عبادت اس طرح کرے جیسے تو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر تو نہیں دیکھ رہا تو وہ تو تجھے دیکھ ہی رہا ہے۔ ہم ایک ایسے دور میں زندہ ہیں جہاں تصوف کو متنازع بنا دیا گیا ہے۔ تصوف جیسی حقیقت ِ بلاعنوان کو دو قسم کے مکاتبِ فکر کی مشقِ سخن سے خطرہ ہے، ایک مکتبہ فکر تصوف کو شریعت سے وَرا سمجھتا ہے، اور دوسرا اِسے شریعت سے جدا سمجھتا ہے۔ اسی فکری تخریب کاری کو بھانپتے ہوئے مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ نے فکر کی راہیں سیدھی کردیں ‘ فکری مغالطے رفع کر دیے ‘ اور واضح الفاظ میں یہ بتایا کہ” طریقت دراصل شریعت بالمحبت ہے“۔ آپؒ نے فرمایا کہ اطاعت میں محبت شامل کر دو‘تو یہ طریقت ہے۔ گویا روحِ شریعت تک پہنچنے کا ایک طریقہ کار ہے‘ جسے طریقت کہہ سکتے ہیں۔ روحانیت اور تصوف کی ابجد‘ کیفیات سے شروع ہوتی ہے…. اور آپؒ نے بڑا واضح فرما دیا کہ کیفیت نہ بھی ہو‘ تو نماز پڑھنی چاہیے ، نماز فرض ہے‘ کیفیت فرض نہیں۔ آپؒ نے فرمایا کہ علم اور عمل کے درمیان فرق کم کرنا شریعت بھی ہے اور ولایت بھی!! آپؒ فرمایا کرتے کہ جب ایک مجذوب کی بھی خانقاہ تعمیر ہوتی ہے تو اس میں سب سے پہلے مسجد بنائی جاتی ہے.

یہ بھی پڑھئے:  اداریہ – قلم کار ادبی ویب سائٹ کا نظریہ اور مشن

ایک مرتبہ اشفاق صاحب کے دفتر ’اردو سائینس بورڈ‘ میں دانشوروں کی ایک بیٹھک تھی، آپؒ ان کے سوالات کے جوابات دے رہے تھے، اتنے میں عصر کی نماز کا وقت ہو گیا، محفل کو روک دیا گیا، وہاں موجود داڑھیوں والے لوگ‘ اور اُن کے دفتر میں ملازم غریب کلرک نماز کیلئے چل دیے ، میں اپنے تئیں خود کو ترقی یافتہ قسم کا دانشور سمجھتا تھا‘ چنانچہ میں بیٹھ رہنے والوں کے ساتھ چپکا بیٹھا رہا، آپؒ نے چند لمحے مجھے غور سے دیکھا اور اِشارے سے نماز کیلئے اُٹھا دیا۔ ویسے آپس کی بات ہے ‘ میں اِس کے بعد بھی متعدد مرتبہ عبادت سے رخصت لینے کی کوشش کرتا رہا۔ایک مرتبہ آپؒ سے اشارةًپوچھا” سر! ایک شخص جو دیانتداری سے اپنے فرائض ادا کررہا ہے‘ مثلاً ایک لکھاری ہے ‘ وہ اپنا کام کر رہا ہے تو اس کا یہ کام بھی اس کیلئے عبادت ہی نہیں ہو جاتا؟ آپؒ میرے نفس کی شرارت بھانپ گئے اور مجھے خشمگین نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہنے لگے ”نہیں ! بالکل نہیں! جو فرض عبادتیں ہیں ‘ان کا کوئی بدل نہیں‘ وہ معاف نہیں ہو سکتیں، نمازیں پانچ ہی رہیں گی“ حقیقت یہ ہے کہ فکر میں تخریب پہلے رونما ہوتی ہے، اور عمل میں بعد میں دَر آتی ہے ! ایک اور فکری تخریب کاری جس کی زد میں آج کا دانشور گرفتار ہے‘اور شاید لاشعوری طور پر دوسروں کو بھی گرفتار کئے جارہا ہے…. وہ ہے” انسانیت بمقابلہ مذہب“!! آج کل اس قسم کے سلوگن سننے میں آ رہے ہیںکہ انسانیت سب سے بڑا مذہب ہے“۔ No religion is higher than humanity ۔ ایسے پرکشش نعرے جدید اذہان کو متاثر کرنے کا ایک میڈیائی سامان ہے ۔ درحقیقت عالمی سطح پر انسانیت کے نام پر در پردہ مذہب بیزاری سکھائی جا رہی ہے۔

یہ بھی پڑھئے:  تو یہ تھا آپ کا اوم پوری - وسعت اللہ خان

اس فکری تخریب کاری کا اُپائے بھی آج سے تیس برس قبل آپؒ کر چکے ہیں۔ ایک قاری نے آپ ؒکو ایک خط لکھا کہ آپ بھی ہماری طرح انسان دوست معلوم ہوتے ہیں‘ اس زندگی کا مقصد اخلاقیات اور انسان دوستی ہی تو ہے …. اور یہ کہ نظامِ عبادات انسان کو خدمت ِ انسان کی طرف مائل کرنے کیلئے ٹریننگ کا ایک نظام ہے اور بس دنیا کے مذاہب میں صرف انسانوں کی خدمت اور انسانیت کا درس دیا جاتا ہے…. اور یہ کہ ہم سب مل کر ہیومینزم کی تحریک چلائیں اور قوم کو ملاّ کے دین کی اذیت سے بچائیں۔ آپؒ نے اس کے جواب میںایک مکمل مضمون تحریر کیا جو ”حرف حرف حقیقت“ میں بعنوان ”ایک وضاحت“ موجود ہے۔ اس میں آپؒ واضح کر رہے ہیں ”ہم کسی ہیومینزم کے نام پر کوئی تحریک نہیں چلا سکتے، ہم صرف ایک تحریک کو مانتے ہیں ، محسنِ انسانیتﷺ کی عطا کی ہوئی کہ انسانوں کو انسان کی خدمت کے ساتھ ساتھ خدا کی طرف مائل کرو اور اللہ کو اس کی رحمت کے ساتھ انسانوں پر مہربان ہونے کی گذارش کرتے رہو، ہمارے لیے اتنا عمل، اتنا علم اور اتنا ہی اخلاق کافی ہے“۔ آپؒ کسی ایسی اخلاقیات کے قائل نہیں جس میں دینیات شامل نہیں، آپؒ کا ارشاد ہے کہ اخلاقیات میں الٰہیات شامل کی جائے تو دینیات بنتی ہے۔ دراصل آج کے گلوبل ویلیج کا پینڈو‘میڈیا کی مدد سے ایسی روحانیت کی تلاش میں ہے‘ جو کلمے سے آزاد ہو ….وہ تصوف کا کوئی ایسا ایڈیشن ڈھونڈ رہا ہے ‘جو اس کیلئے محض ایک دانشورانہ تفریح اور فنونِ لطیفہ کا درجہ رکھتا ہو۔ ایسی مادر پدر آزاد انسانیت اور روحانیت کہاں سے ڈھونڈ کر لائیں؟ تصوف تو ایسی روحانیت ہے جو اصحابِ صُفّہ کے چبوترے پر نبوی اخلاق و کردار کے اسباق کیلیے زانوئے تلمذ تہ کیے ہوئے ہے…. تصوف گنبدوں اور میناروں کے سائے میں ہے…. اور سارے گنبد ایک گنبدِ خضریٰ کے زیرِ سایہ ہیں۔ آپؒنے فرمایا ہے : ”ہر مزار سے مدینے کا راستہ نکلتا ہے!!“ فی زمانہ تصوف کے نام پر تصوف ہی میں جو فکری تخریب کاری کی کوشش جاری ہے‘ آپؒ نے اس کا کما حقہ سدّ باب کردیا ہے!  گزشتہ چودہ سو برس میں رائج تصوف کے موضوع پر گنجلک، دقیق اور پیچیدہ افکار کوآپؒ نے عام فہم زبان میں بیان کردیا۔ آپؒ نے ایک خوبصورت مائدہِ اَدَب بچھایا اور اس میں روحانیت کی قابوں میں حکمت و دانائی کے خوان چن دیے ….ایمان کو ذائقے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ آپؒ نے تصوف کو درگاہوں سے درسگاہوں میں منتقل کر دیا ہے۔ تصوف ایسی روحِ دین کو آپؒ نے کیپسولیٹڈ فارم میں اپنے خوبصورت اور جامع اقوال کی صورت میں جدید اَذہان کیلئے قابلِ قبول بنا دیا!! آپؒ وحدتِ ملی کے علم بردار تھے۔ چشتی ، قادری اور قلندری ہونے کے باوجود آپؒ طریقت کے سلاسل کے نامنکلیچر nomenclature کو مدّھم رکھنے کے قائل تھے۔”کرن کرن سورج“ میں آپؒ فرماتے ہیں:”طریقت کے تمام سلاسل اپنے اپنے انداز میں بالکل صحیح ہیں ‘لیکن مِلّتِ اِسلامیہ کی فلاح اِسی میں ہے کہ وہ ایک عظیم وَحدت بن کر اُبھرے۔مسلک اِسلام سے ہے‘اِسلام نہیں۔اِسلام‘ اِسلام ہے“۔ سلاسل کے حوالے سے بات کرتے ہوئے آپؒ فرماتے ہیں:….”ہر اِک کے انداز جُدا،عطا جُدا، طریقہِ تعلیم جُدا۔کہیں قوالی ہو رہی ہے، کہیں سماع کو حرام کہا جا رہا ہے۔اصل میں سب سچ ہی کہہ رہے ہیں۔ لیکن اب پورا ہاتھی دیکھنے کا وقت ہے۔ لہٰذا بہتر یہی ہے کہ ہم کلمے کی وَحدت پر حضورِ پُرنورﷺ کی ذاتِ مُبارک پر مکمل ایمان رکھتے ہوئے ایک عظیم وَحدت میں اِکٹھے ہو جائیں۔ راستے کے لُطف الگ ہیں لیکن مُدّعا اور منزل ایک ہے۔ شریعت ہی واضح اور مکمل راستہ ہے۔مِل کر سفر شروع کریں‘قو م ترقی کر جائے گی“۔

یہ بھی پڑھئے:  ایدھی صاحب ! لال سلام | عامر حسینی

اسی طرح یہ بھی آپؒ ہی کا قول ہے: ”اِسلام وحدةُ المسلمین کی داستان ہے۔ مسلمان اکٹھے نہ ہوئے تو دِین ِ اِسلام سے خارج کر دیے جائیں گے۔ مسلمانوں کامنظم اِجتماع ہی اِسلام کا عروج ہے“۔ آپؒ کا فکری اثاثہ اخلاقیات، دینیات اور پاکستانیات کا ثلاثہ ہے۔ درحقیقت آپؒ نے اسلام ، پاکستان اور روحانیت کے باہمی تعلق کوایک فکری بنیاد فراہم کر دی ہے اور تاریخ کے اس موڑ پر اسلام ،پاکستان اور روحانیت کو ایک اَمر رشتے میں باندھ دیا ہے ۔ واصفیات…. پاکستانیات کا ترنجن ہے۔ آپؒ فرماتے ہیں: "جس طرح ہمارے ہاں طریقت کے سلاسل ہیں‘چشتی، قادری، نقشبندی، سہروردی وغیرہ اور ہر سلسلہ کا کوئی بانی ہے ‘اِسی طرح قائدِ اعظمؒ سے ایک نئی طریقت کا آغاز ہوتا ہے اور وہ طریقت ہے ”پاکستانی“۔ اِس طریقت میں تمام سلاسل اور تمام فرقے شامل ہیں۔ ہر ”پاکستانی“ پاکستان سے محبت کو ایمان کا حصہ سمجھتا ہے۔ ہمارے لیے ہمارا وطن خاکِ حرم سے کم نہیں۔ اقبالؒ نے مسلمانوں کو وحدتِ افکار عطا کی، قائدِ اعظمؒ نے وحدتِ کردار۔آج اگر قوم میں کوئی انتشارِ خیال ہے تو اِس لیے کہ وحدتِ عمل نہیں۔وحدتِ فکر و عمل عطا کرنا وقت کے صاحبِ حال کا کام ہے۔ صاحب ِحال بنانے والی نگاہ کسی وقت بھی مہربانی کر سکتی ہے۔ وہ نگاہ ہی تو مشکل کُشا ہے۔نہ جانے کب کوئی صاحب ِحال قطرہِ شبنم کی طرح نوکِ خار پہ رقص کرتا ہوا آئے اور قوم کے دل و نگاہ میں سماتا ہوا وحدتِ عمل پیدا کر جائے‘ اور ایک بار پھر:ع ”ہاتھ آئے مجھے میرا مقام اے ساقی“ آپ ؒ نے فرمایا ”ہم مسلمان ہیں ، یہی ہمارا فرقہ ہے ، یہی ہماری طریقت ہے اور یہی ہماری جمعیت ہے“۔ آپؒ یہ اطلاع دے چکے ہیں کہ ”مسلمان مسلمان کے خلاف جہاد نہیں‘ فساد کرتا ہے“۔ آج ہم ایک قومی بیانیے کی تلاش میں ہیں …. فکرِ واصفؒ جدید اسلامی جمہوریہ پاکستان کا فکری بیانیہ ہے۔(ملتان ٹی ہاﺅس میں منعقدہ سیمنارمیں پڑھا گیا)

Views All Time
Views All Time
1041
Views Today
Views Today
1

حالیہ پوسٹس