Qalamkar Website Header Image

اپنے حصے کی گواہی

ہم نے سیاست کو مذہب کا درجہ دے دیا ہے اور مذہب میں سیاست سے کام لینا شروع کر دیا ہے۔ یہ بات بعید از عدل ہے۔ عدل ہر چیز کو اس کے درست  اور جائز مقام پر رکھنے کا نام ہے۔ جب ہم دوسروں کے مقام و مرتبے کو خاطرمیں نہیں لاتے توخود بھی کسی مقام کے اہل نہیں ٹھہرتے۔ حفظِ مراتب مقامِ آدمیت کی خبر دیتا ہے۔ عدل آدمیت ہے اوراحسان انسانیت!! ہمارے پاس دعویٰ ہے کہ ہم انسانیت کیلئے کام کرتے ہیں لیکن اس دعوے کی دلیل میں ہم راہِ آدمیت کے آس پاس بھی نہیں پائے جاتے۔ ہم راہِ عدل سے دُور کہیں پگڈنڈیوں میں گھوم رہے ہیں اور باہم حیران و پریشان ہیں کہ منزل کا کوئی سنگ میل نظر نہیں آتا۔۔۔ وہ منزل جس کا خواب آنکھوں میں سجائے ہم کبھی عازمِ سفر ہوئے تھے۔ ہم نے اپنے سیاسی راہنماوں کو مذہبی راہنماوں کی طرح اپنا خدا بنا لیا ہے۔۔۔ اور خداوندانِ سیاست ہیں کہ ہمارے ساتھ کبھی وفا نہیں کرتے۔ بندگانِ ہوا و ہوس کے خدا ایسے ہی ہوا کرتے ہیں۔ ان کے ہاں صرف مال ہے اور مفاد ہے ۔اور پھر مال اور مفاد کا یک گٹھ جوڑ ہے۔ اپنے مال اور مفاد کو وسعت ِ مزید دینے کیلئے اِن کا میدانِ عمل میدانِ سیاست ہے۔ راہ نما اگر گم راہ ہو تو منزل کی راہ کیسے ملے؟

 کسی نظریے پر قائم ہونا ، کسی قول پر پہرہ دینا اب قصہِ پارینہ ہوا۔ ایک نظریاتی شخص ‘ خواہ وہ کسی غلط نظریے ہی پر کیوں نہ کھڑا ہو ‘ اُس شخص سے کہیں زیادہ قابلِ اعتبار ہوتا ہے جو مال و مفاد کی گٹھریوں کے پیچھے بگٹٹ بھاگ رہا ہے۔ سیاست کے میدان میں ایک نظریاتی شخص ‘ کسی شخصیت پرست جیالے سے زیادہ معتبر ہے۔

سیاست پر قلم اٹھانا اگرچہ راقم کا شیوہ نہیں۔ اب تک کوشش یہی رہی کہ اخلاقی ، روحانی اور آفاقی قدروں کو موضوعِ سخن بنایا جائے کہ تاثیر کے باب میں تحریر تا دیر قائم رہے اور کل کے اخبار کی طرح ردی کی ٹوکری کا رزق نہ بنے، لیکن ایک حساس انسان اپنے اعصاب کے مضبوط ہونے کا لاکھ دعویٰ کرے ، وہ اپنے گرد و پیش سے بے خبر اور بے اثر نہیں رہ سکتا۔ گزشتہ کچھ دنوں سے ہمارے ہاں سیاست کے میدان میں ایک ناقابلِ فہم رویہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ گلی محلے کے نیم خواندہ سیاسی ورکروں کی بات تو دُورٹھہری ، ہمارے ہاں تعلیم یافتہ طبقہ بھی اپنی رائے قائم کرنے اور اس یک طرفہ رائے کو ایک فیصلے کی طرح آگے سوشل میڈیا پر نشر کرنے میں افراط و تفریط کا شکار ہے۔ یہ سیاسی عصبیت ہمیں عدل کی راہ سے دُور کر رہی ہے۔ ہماری سیاسی پارٹیاں ہمارے عقیدوں کی طرح جدا جدا ہیں، ہمارا ہر قائد ہر حال میں قائد اعظم ہے اور ہم اپنے قائد کے "تقدس” کے خلاف کچھ نہیں سننا اور پڑھنا چاہتے۔ وہ سیاہ کرے یا سفید، وہ سچ بولے یا سفید جھوٹ، ہمیں ہر حال میں اس کی ہاں میں ہاں ملانے کی ذمہ داری سونپ دی گئی ہے۔

 ہم میں سے کچھ لوگ سیاسی خانوادوں کو تقدس کا لباس پہنا رہے ہیں۔ کسی کے نانا کی سیاسی میراث کو ثابت کرنے کیلئے نعوذ باللہ من ذالک‘۔۔۔۔خانوادہِ نبوت کی میراث کی مثال لے آتے ہیں ، اور کسی کی دختر نیک اختر کی ثنا خوانی اس طرح بلند کی جاتی ہے کہ قانون کی وزارت پکار اٹھتی ہے  ۔۔۔۔”تقدس مجروح نہ ہونے پائے“۔ ہم ایک عجب دورِ جاہلیت سے گزر رہے ہیں۔ سیاست ہماری ترجیحِ اول بن چکی ہے اور دین ترجیحِ دوم۔ دین بڑا حساس معاملہ ہے۔۔۔۔ یہ اتنا حساس ہے کہ اپنے لیے دوسری ترجیح کبھی قبول نہیں کرتا۔۔۔۔ بس چپکے سے وہاں سے رخصت ہوجاتا ہے۔

یہ بھی پڑھئے:  جہانگیر بدر،سیاسی کلچر کا روشن چہرہ - حیدر جاوید سید

ایک آواز سننے کو ملی ، جو ہرگز سعید نہ تھی ، اور نہ دل ہی اس کا رفیق تھا۔۔۔۔” صادق اور امین والا ڈرامہ نہیں چلنے دیں گے، اس طرح تو ساری پارلیمنٹ ہی فارغ ہوجائے گی“ ۔۔۔۔ استغفراللہ من کل ذالک۔۔۔۔ لادینی سیاست کا علمبردار مغرب بھی اپنے ہاں کسی جھوٹے اور خائن کو برداشت نہیں کرتا اور ایک ہم ہیں ثنا خوان ِ تقدیسِ مشرق کہ اپنی سیاست اور اپنا قائد بچانے کیلئے اس کلیے کو ردّ کرتے جارہے ہیں جو ہمارے دین کا اہم جزو ہے۔ ہمیں تو چودہ سو برس قبل یہ بتا دیا گیا تھا کہ اس کا کوئی دین نہیں جس کے پاس ، پاسِ عہد نہیں اور جسے پاسِ امانت نہیں اس کا کوئی ایمان نہیں۔ گویا ہم خود کو دین سے بالا  اور ایمان سے فارغ باشد سمجھتے ہیں؟؟

 ایک طبقہ وہ ہے جسے صادق اور امین ایسے الفاظ سے گھٹن محسوس ہوتی ہے کہ یہ الفاظ اپنے اندر ایک دینی مزاج کی نشاندہی کرتے ہیں۔ چلیں ! الفاظ نئے سرے سے ترتیب دے دیتے ہیں، اسی پر اتفاق کر لیتے ہیں کہ جو شخص جھوٹا ہوگا وہ میری حمایت کا حق دار نہ ہوگا، کوئی بدعنوان شخص میرا قائد نہیں ہوگا، میں کسی جھوٹے اور خائن شخص کا گواہ نہیں بنوں گا۔

ووٹ ایک گواہی ہے۔ صادق اور امین ہونے کی شرط صرف ووٹ لینے کیلئے بلکہ ووٹ دینے کیلئے بھی مقرر ہونی چاہیے۔ ایک سزا یافتہ مجرم سے ووٹ لینے اور دینے کا حق سلب کر لینا چاہیے۔ عالم اور جاہل کا ووٹ برابر کیسے ہو سکتا ہے؟ ایک جھوٹے اور سچے انسان کی گواہی برابر کیسے ہو سکتی ہے۔ ہمیں مغربی جمہوریت کا تزکیہ کرنا تھا ، اور ہم ہیں کہ ابھی تک مغربی جمہوری اقدار پر بھی پورا نہیں اُتر رہے۔ ووٹ کو ایک عددی برتری کی اکائی تصور کرنے کی بجائے اگر اسی ووٹ کو گواہی کے معیارِ شہادت سے منسلک کر دیا جائے تو یہی جمہوریت اسلامی شورائی نظام میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ رائے دینا اہل ِ رائے  کا حق ہے اور اس کیلئے رائے دینے کا اہل ہونا ضروری ہے۔ کوئی نظام فی نفسہ غلط نہیں ہوتا ، یہ کسی  نظام کے منتظمین ہیں‘ جو درست یا غلط ہوتے ہیں۔ نظام ایک گاڑی کی طرح ہے اور گاڑی کو چلنے سے کام ہے، سمت کا تعین ڈرائیور کی ذمہ داری ہے۔ منتظم درست ہو گئے تو نظام درست ہو جائے گا۔ مقدار کی دنیا میں اقدار کا معیار نافذ کر دیا جائے تو یہی دنیا ‘ دین بن جاتی ہے۔ مومن کی تجارت بھی عبادت ، اس کا اپنے بیوی بچوں کے حقوق پورے کرنا بھی عبادت ۔۔۔۔ اور سیاست میں درست گواہی دینا بھلا کیسے عبادت نہ ہوگا۔ ہمیں دنیا کو دین کے تابع کرنا تھا لیکن ہم نے خود کو دنیا کے تابع کر رکھا ہے۔۔۔۔ہم نے بزعمِ خویش خود کو دین دار اور اپنے سیاسی مخالفین کو بے دین قرار دے دیا۔

یہ بھی پڑھئے:  طلبا تنظیمیں یا تعلیم؟-خورشید ندیم

اپنے مخالف سیاسی لوگوں کو مودی اور یہودی کا یار قرار دینے کی روش خطرناک ہے۔ اپنے سیاسی مخالفین کو غدار قرار دینا بد دیانتی ہے۔ ہماری سرحدیں غیر محفوظ ہیں، اور ہم اپنے سرحدوں کے محافظوں کو حد میں رہنے کے بھاشن دے رہے ہیں۔۔۔۔ یہ طور کسی طور قبول نہیں۔ معاشی ترقی کا خواب ایک محفوظ معاشرے ہی میں دیکھا جاسکتا ہے اور محفوظ معاشرہ اندرونی اور بیرونی دونوں خطرات سے محفوظ ہوتا ہے۔ کسی ملک کو اندرونی طور اس کی عدالتیں محفوظ کرتی ہیں اور بیرونی خطرات سے فوج تحفظ دیتی ہے۔ عدالت اور شجاعت دونوں ہمارے سر کا تاج ہیں۔ سیاست میں صداقت کی ہنوز ہمیں تلاش ہے۔ فوج اور عدالت پر دشنام طرازی سے عوام کا اعتماد نظام مملکت پر متزلزل ہوتا ہے۔ اِن اداروں سے الجھنا اور بار بار الجھنا ‘ ناعاقبت اندیشی کے سوا کچھ نہیں۔ افراد کو بچانے کیلئے اداروں کی حرمت پامال کرنے کا چلن مشکوک ہے۔۔۔۔ یہ چال دشمن کی ہے ، ایسی سب چالوں سے خبردار رہنے کی ضرورت ہے۔

ایک اور آواز، جو ہر دورِ اقتدار کی تصدیق کرنے والی آواز ہوا کرتی ہے اور ہر صاحبِ اقتدار کو سیاسی اور دینی توجیہات مہیا کیا کرتی ہے ۔۔۔۔ اس کی گویائی عجب تھی۔۔۔۔” خاموشی جھوٹ نہیں ہوتی ، اس لیے اگر کوئی اپنے اثاثوں کا اعلان نہیں کرتا تو اسے جھوٹا نہیں کہا جا سکتا“۔۔۔۔ یہ رحمان کی آواز ہرگزنہ تھی۔۔۔۔ یہ اس کے برعکس آواز تھی۔ مساجد و مدارس میں کلامِ رحمان الرحیم سننے اور سنانے والے جانتے ہیں کہ گواہی چھپانے والے کے متعلق سخت وعید آئی ہے ، حق بات چھپانے والے کو گونگا شیطان کہا گیا ہے۔

گواہی تو وہی دے سکتا ہے جس کا ضمیر زندہ ہو۔ ہماری سیاست مردہ ضمیر گواہوں کی خرید و فروخت کی داستان بن چکی ہے۔ اپنے حصے کی گواہی دے دی جائے ۔۔۔۔اور بروقت دے دی جائے۔۔۔۔ تو نظام بھی بچ جائے گا اور نظم و نسق بھی! اپنے حصے کی گواہی دینے کا وقت آن پہنچا ہے!!

حضرت واصف علی  واصفؒ اپنی تصنیف "کرن کرن سورج” میں فرماتے ہیں:

"انسان کا اصل جوہر صداقت ہے۔ صداقت مصلحت اندیش نہیں ہو سکتی۔ جہاں اظہارِ صداقت کا وقت ہو ٗ وہاں خاموش رہنا صداقت سے محروم کر دیتا ہے۔ اس انسان کو صادق نہیں کہا جا سکتا ٗ جو اظہارِ صداقت میں ابہام کا سہارا لیتا ہو”۔

حالیہ بلاگ پوسٹس