کل رات معروف سلام گو شاعر سید وسیم عون نقوی خون کے سرطان سے لڑتے ہوئے زندگی کی بازی ہار گئے. سوشل میڈیا پر اس وقت اندرون و بیرون ملک سے جواں مرگ شاعر کے دوست اور مداح شدید رنج و غم کا اظہار کر رہے ہیں. ان کی خوب صورت شاعری ہر فورم پر شیئر کی جا رہی ہے جو ان کی مقبولیت اور اس نوعمری میں فن شاعری پر ان کی گرفت اور ہنرمندی کا منہ بولتا ثبوت ہے. کہا جا رہا ہے کہ وہ زندہ رہتے تو جانے کیا کیا کر گزرتے لیکن میں کہوں گا کہ قدرت نے ان سے جتنا کام لینا تھا لیا اور وہ اپنا حق پوری طرح ادا کر کے رخصت ہو گئے.
دو سال قبل میرے شاعر دوست علی عرفان نے مجھے فون کیا اور بتایا کہ میانوالی کا ایک نوجوان شاعر کینسر کے مرض میں مبتلا ہو گیا ہے اور شوکت خانم ہسپتال سے اپنا علاج کروانا چاہتا ہے. انہوں نے مجھ سے وسیم کی مدد کرنے کی درخواست کی. اگلے دن وسیم کچھ شاعر دوستوں غالباً توقیر عباس اور زوہیر کے ہمراہ ہسپتال کے واک ان کلینک میں پہنچا. بدقسمتی سے شوکت خانم نے اس کا علاج کرنے سے معذرت کر لی کیونکہ ان کے اس وقت کے معیار کے مطابق وسیم کا مرض 3 ماہ سے پرانا ہو چکا تھا. وہاں سے وسیم جناح ہسپتال لاہور چلا گیا اور وہیں اس کا علاج شروع ہو گیا. اگرچہ میں بچوں کے سرطان کا معالج ہوں لیکن وہ اپنی موت تک میرے ساتھ رابطے میں رہا اور مجھ سے مشورے کرتا رہا.
وسیم کی بیماری کا نام کرانک مائیلائیڈ لیوکیمیا یا سی ایم ایل ہے. یہ ایک طرح کا خون کا سرطان ہے جس میں خون کے سفید خلیوں کی تعداد خطرناک حد تک بڑھ جاتی ہے. اس بیماری میں ایک مخصوص جینیاتی تبدیلی رونما ہوتی ہے جسے فلاڈیلفیا کروموسوم کہا جاتا ہے. یہ کینسر اس وقت ستر سے اسی فیصد تک قابل علاج ہے. کچھ دہائیاں پہلے تک بون میرو ٹرانسپلانٹ یعنی خون کے گودے کی تبدیلی اس کا واحد علاج تھا لیکن حیاتیاتی کارگزار دواؤں ٹائیروسین کائینیز انہیبیٹرز کی ایجاد کے بعد اس مرض کے علاج میں انقلاب آ گیا. امیٹینب اس میں استعمال ہونے والی سب سے کارآمد اور پہلی صف کی دوا ہے. یہ گلیویک کے نام سے معروف کمپنی نووارٹس بناتی ہے. بدقسمتی سے یہ انتہائ مہنگی دوائی ہے اور اسی وجہ سے عام آدمی کی پہنچ سے بہت دور ہے. اس وقت پاکستان میں گلیویک ایک معاہدے کے تحت چند سرکاری ہسپتالوں کے ذریعے صرف رجسٹرڈ مریضوں تک مفت پہنچائی جاتی ہے. کئی بار اس کی قلت کے باعث سی ایم ایل کے مریضوں کا علاج تعطل کا شکار رہتا ہے. اس دوا کے استعمال کی شرط یہی ہے کہ اسے مسلسل بلاروک ٹوک لامحدود مدت کے لیے لیا جائے. 70 فیصد تک مریض اس علاج سے مکمل طور پر صحت یاب ہو جاتے ہیں لیکن پھر بھی انہیں اس کا استعمال جاری رکھنا پڑتا ہے. اگر کسی مرحلے پر یہ دوا بےاثر ہو جائے تو ٹی کے آئی گروپ کی دوسری صف کی دوا ڈیسیٹینب یا نیلوٹینب (ٹیسگنا) آزما کر دیکھی جاتی ہے. اگر وہ بھی ناکام ہو جائے تو بون میرو ٹرانسپلانٹ کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا. سی ایم ایل کا علاج کامیاب نہ ہو تو یہ مزید پیچیدگیوں کے ساتھ ظاہر ہوتا ہے جن میں بلاسٹ کرائسس سب سے جان لیوا ہے.
بدنصیبی کہ گلیویک کھانے کے باوجود وسیم کی بیماری کنٹرول نہ ہو سکی جس کے بعد اس کے معالجین نے اسے ٹیسگنا پر منتقل کر دیا. ٹیسگنا بھی وسیم کے لیے بےسود رہی اور وہ بلاسٹ کرائسس میں چلا گیا. اس موقع پر اسے شدید کیمو تھراپی دی گئی جو وہ برداشت نہ کر سکا اور اس کی بون میرو بالکل جواب دے گئی. جہاں تک مجھے علم ہے معالجین کی جانب سے وسیم اور اس کے والدین کو اس بیماری کے مختلف طریقہ ہائے علاج کے بارے میں مناسب آگاہی نہیں دی گئی. یہاں تک کہ بون میرو ٹرانسپلانٹ کے بارے میں بھی ایک عرصے تک وہ بےخبر ہی رہے. میرے مشورے پر وہ ایک مرتبہ سی ایم ایچ راولپنڈی کے ٹرانسپلانٹ سینٹر بھی گئے. لیکن انہیں مایوسی کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ وہاں موجود ماہرین نے انہیں کہا کہ وہ ایک صحت مند بون میرو کے ساتھ آئیں تو ان کا علاج کیا جائے گا . پاکستان میں بون میرو ٹرانسپلانٹ بےحد مشکل اور مہنگا ہے کیونکہ محض تین یا چار مراکز یہ سہولت فراہم کر رہے ہیں.
آخری دنوں میں بلاسٹ کرائسس کی وجہ سے وسیم شدید درد میں مبتلا رہا. بلاسٹ خلیے کینسر کے موٹے سفید خلیے ہوتے ہیں جو خون کی باریک نالیوں میں جا کر خون کی گردش کو سست کر دیتے ہیں یا روک دیتے ہیں. اس بدقسمت نوجوان کو ایک مشکل یہ بھی درپیش ہوئی کہ اسے درد کی دوا مارفین کہیں سے دستیاب نہ ہوئی. کچھ دن پہلے میں اپنے دوست ثمر اور کامریڈ ماروی کے ساتھ وسیم کے گھر اس کی عیادت کے لیے گیا. وسیم کے والد نے اس کی درد میں تڑپتے ہوئے ایک وڈیو دکھائی جو ہم سے دیکھی نہ گئی. اس کی وفات سے تین دل پہلے ہمارے ایک دوست حیدر جمال نے، جن کے بیٹے کا سرطان سے انتقال ہو گیا تھا اور اس کی بچی ہوئی مارفین کی چالیس گولیاں ان کے پاس موجود تھیں، مجھے بذریعہ ٹی سی ایس بھیجیں. یہ گولیاں میں نے وسیم کے والد کے حوالے کر دیں.
وسیم کی بیماری اور انتہائی کرب ناک موت ہمارے ملک میں سرطان کے علاج کی ابتر صورت حال، اس کے بارے میں عوام کی لاعلمی اور سہولیات کی اشد ضرورت کو نمایاں کرتی ہے. میں امید کرتا ہوں کہ نوجوان شاعر کے والدین اور احباب جلد اس ناقابل تلافی نقصان کے رنج سے باہر نکل آئیں گے.
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn