اسرائیل ایران جنگ جاری ہے، جی سیون نامی عالمی منافق گروپ کے کینیڈا میں منعقدہ سربراہی اجلاس کا اعلامیہ خالصتاً اسرائیل نوازی سے عبارت ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے ایران سے غیرمشروط سرنڈر کرنے کو کہا ہے۔ فقیر راحموں کے اس عالمی مفت بر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ’’آگے کیا ہوگا دو دن میں پتہ چل جائے گا” ۔تہران سمیت ایران کے متعدد شہروں پر اسرائیلی حملوں کے جواب میں ایران نے اپنے جوابی حملوں میں تین بڑی کامیابیاں حاصل کیں۔ اسرائیل کے ساحلی شہر حیفہ کے پاور پلانٹ اور آئل ریفائنری کی 90 اور 100 فیصد صلاحیت کو تباہ کردیا ۔اس کے ساتھ ہی اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کے صدر دفتر پر میزائل برساکر اسے شدید نقصان پہنچایا۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری مقصود ہے کہ اسرائیلی حکام نے حیفہ شہر میں موجود ملکی و غیرملکی ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو شہر چھوڑنے کا حکم جاری کیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے روس اور شمالی کوریا پر ایران کی مدد کرنے کا الزام لگایا ہے۔ یہ بھی کہا ’’ہمارا صبر جواب دے گیا ہے اب ایران سے بات چیت میں ہمیں کوئی دلچسپی نہیں۔‘‘
ایک دوسرے پر حملوں میں اہداف کے حصول کے حوالے سے اسرائیل اور ایران کے دعوے جاری ہیں۔ اسی اثناء میں شام کے عبوری صدر احمد الشرح الجولانی نے ایران کے خلاف اسرائیل کو اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کی باضابطہ اجازت دے دی۔ ویسے اسرائیل اور شامی شہزادوں کا عملی تعاون جنگ کے آغاز سے ہی جاری تھا۔ادھر چین نے کہا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ جلتی پر تیل ڈالنے کا کام کررہے ہیں۔ اسرائیل ایران جنگ کے حوالے سے بعض مبصرین کا تجزیہ ہے کہ ٹرمپ اس جنگ میں براہ راست فریق بننے جارہے ہیں۔ اسرائیلی جارحیت امریکی پشت پناہی سے ہی شروع ہوئی تھی ۔ اب اگر ٹرمپ کی خواہش کے مطابق امریکہ اس جنگ میں کودتا ہے تو یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ کیا جنگ کا یہ مرحلہ امریکہ کی مرضی سے اختتام پذیر ہوگا؟ اسی اثنا میں عالمی ذرائع ابلاغ کے ذریعے اردن کے بادشاہ کا یہ موقف سامنے آیا کہ ’’اسرائیل ایران جنگ کا دائرہ وسیع ہوا تو مشرق وسطیٰ کا امن خطرے میں پڑجائے گا ۔‘‘
جی سیون نامی عالمی گروپ کے سربراہی اجلاس کے اعلامیہ میں اسرائیل کے دفاعی حق کی تائید کی گئی اور کہا گیا کہ ایران کو جوہری ہتھیار حاصل نہیں کرنے دیں گے۔ اسرائیل کی غیراعلانیہ جوہری صلاحیت اوراس کے پاس موجود جوہری ہتھیاروں بارے دنیا کے سات بڑے منافق ایک لفظ نہیں بولے۔ کیا منافقین کا یہ سات رکنی ٹولہ اس حقیقت سے لاعلم ہے کہ ایران عالمی جوہری توانائی ایجنسی کے معاہدے میں شامل ہے اس کے برعکس اسرائیل نہ تو عالمی جوہری توانائی ایجنسی کے معاہدے میں شامل ہے اور نہ ہی اس نے ایجنسی کے نمائندوں کو کبھی اپنے جوہری تحقیق کے اداروں کا دورہ کرنے کی اجازت دی؟ اسرائیل ایران جنگ کے اب تک کے دنوں میں مغربی ذرائع ابلاغ کے جانبدارانہ طرزعمل کی وجہ سے سوشل میڈیا کی مختلف سائٹوں پر جھوٹ خوب فروخت ہوا۔ ویسے تو جنگ کے ماحول میں جھوٹ سب سے زیادہ بکتا ہے ۔بہرحال یہ کہنا شاید درست نہ ہو کہ جنگ ایک آدھ دن میں ختم ہوجائے گی۔ "ایک دو دن میں پتہ چل جائے گا کہ آگے کیا ہوتا ہے "والے ٹرمپ کے بیان کا عمومی تجزیہ یہی کیا جارہا ہے کہ اپنے لے پالک کو بچانے کے لئے امریکہ خود جنگ کے میدان میں اترنے والا ہے۔
یہاں سوال یہ ہے کہ کیا اگر امریکہ اسرائیل ایران جنگ میں عملی طور پر شریک ہوتا ہے، دنیا میں طاقت کے توازن کے دوسرے مراکز روس اور چین خاموش رہیں گے یا وہ ایران کی مدد کوآئیں گے؟جنگ کی جذباتی فضا میں زیادہ لوگ یہ سمجھ اور کہہ رہے ہیں کہ اگر امریکہ جنگ میں براہ راست فریق بنا تو روس اور چین نچلے نہیں بیٹھیں گے۔ ہماری دانست میں روس اور چین بیانات سے آگے نہیں بڑھیں گے۔ ہم ایسا کیوں سوچ اور کہہ رہے ہیں اس کی وجہ شام میں بشارالاسد کے خلاف الجولانی گروپ کی بغاوت کے آغاز اور کامیاب ہونے کے عرصے میں روس اور چین کی پالیسی ہے۔ دو ہزار گیارہ سے دو ہزار سولہ تک یہ دونوں ملک بشارالاسد کے کاندھوں سے کاندے ملاکر کھڑے رہے ۔مگر حالیہ بغاوت کے عرصے میں ان کی خاموشی پر ایک دنیا کی یہ رائے رہی کہ اب شامی بغاوت کے عرصے والی پالیسی نہیں اپنائیں گے۔ روس اور چین ، کیونکہ اگرامریکہ، برطانیہ اور فرانس کی تگڑم جنگ میں فریق بنتی ہے تو اس سے روس اور چین کی عالمی حیثیت پر ضرب کاری لگے گی اور ان کی عالمی ساکھ متاثر ہوگی۔ پچھلے دنوں کچھ مبصرین یہ کہتے بھی دیکھائی دیئے کہ امریکہ یوکرائن کی قیمت پر روس اور چین کو اسرائیل ایران جنگ میں اپنے اترنے کے بعد اس سے دور رکھنے میں کامیاب ہوجائے گا۔ تجزیوں کو یقیناً حرف آخر قرار نہیں دیا جاسکتا نہ تجزیے الہامی ہوتے ہیں۔ چار اور سے دستیاب اچھی بری معلومات پر تجزیہ کی عمارت اٹھائی جاتی ہے۔
باردیگر عرض ہے کہ ٹرمپ کا یہ کہنا کہ ’’صبر ختم ایران غیرمشروط ہتھیار ڈال دے‘‘ بلاوجہ نہیں۔ ایران کے مقابلہ میں نوے فیصد کم ہی سہی لیکن یہ حقیقت ہے کہ اسرائیل کو پہلی بار ا تنے بڑے نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ حیفہ آئل ریفائنری، حیفہ پاور پلانٹ اور اس سے ملحقہ جوہری تحقیق کے ادارے، موساد کے صدر دفتر کے ریسرچ سنٹر کی تباہی یہ غیراہم کامیابیاں ہرگز نہیں۔ اسی دوران اسرائیلی شہریوں کے اس بڑے طبقے میں جس کے پاس دوہری شہریت ہے ہوا بازی کا نظام متاثر ہونے کی وجہ سے سمندری راستے سے ملک سے نکلنے کے عمل میں تیزی سے اسرائیل کے ناقابل تسخیر ہونے کا بت پاش پاش کردیا ہے۔دنیا ہی نہیں امریکہ بھی یہ سمجھتا ہے کہ یہی صورتحال اگر ہفتہ بھر مزید برقرار رہی تو نتیجہ کیا ہوگا۔ ’’نتیجہ کیا ہوگا‘‘ کا مطلب ایران کی فتح کامل نہیں لیکن یہ ضرور ہے کہ امریکہ اور اتحادی مشرق وسطیٰ کے لئے مقرر اپنے تھانیدار کی اس دہشت کومزید برقرار نہیں رکھواپائیں گے جو حالیہ جنگ سے قبل تھی ۔البتہ آنے والے دنوں میں اسرائیل کے پڑوسی عرب ممالک کا کردار مزید اہم ہوجائے گا۔
یہ دیکھنا ہوگا کہ اگر امریکہ اس جنگ میں کودتا ہے تو عرب دنیا میں اسرائیل کے پڑوسی ممالک ایران کے خلاف امریکہ کو تعاون فراہم کرتے ہیں یا امریکہ ایران کے خلاف جنگی کارروائیوں کو خلیج فارس کے قریب کی سمندری حدود میں موجود اپنے جنگی بیڑے سے چلائے گا؟ ایسا ہوتا ہے تو یقیناً ایرانی آبنائے ہرمز میں کارروائیوں سے گریز نہیں کریں گے۔ اس طور عالمی تجارتی سرگرمیاں متاثر ہوں گی۔ یہاں یہ بات بھی اہمیت کی حامل ہے کہ چین نے بھی پہلی بار اپنے تین طیارہ بردار بحری بیڑے بحرالکاہل میں تعینات کردیئے ہیں۔ اسی طرح یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ ایٹم بم لے جانے کی صلاحیت رکھنے والے امریکی جنگی جہاز بحر ہند میں موجود ہیں تو دوسری جانب ایران نے بھی خبردار کیا ہے کہ ایران پر امریکی حملے میں تعاون کرنے والے ممالک کے خلاف کارروائی ہوسکتی ہے۔ کالم کے اس آخری حصے میں قارئین کو یہ بتادوں کہ "سابق وزیراعظم عمران خان نے 22 جون سے شروع ہونے والی اپنی حکومت مخالف احتجاجی تحریک کو عالمی حالات کے پیش نظر ہفتے کے لئے ملتوی کردیا ہے ” ۔


دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn