کوئی دو سال پرانی بات ہے کہ میں اور میرا 8 سالہ بھانجھا گلشن اقبال پارک لاہور میں بیٹ بال سے کھیل رہے تھے ۔ جب اسے اندازہ ہوا کہ وہ ہار جائے گا اس نے بیٹ گھاس پر پھینکا اور گھاس پر ہی لیٹ گیا اور کہنے لگا میں مر گیا ہوں ۔ یہ سن کر میں نے اسے ڈانٹا کہ کسی بات کی ہے ؟وہ مجھے منانے کے لئے پیار سے میری گود میں آگیا اور پھر اس نے جو کہا وہ جب بھی یاد آتا ہے آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے ہیں . اس نے کہا تھا ” خالہ کیوں ناراض ہوتی ہیں ؟ بھلا گلشن اقبال پارک میں کوئی بچہ کھیلتے کھیلتے مر سکتا ہے؟ ” پھر وہ دن آیا جب گلشن اقبال پارک میں کھیلتے کھیلتے بچے مار دیے گئے . 28 مارچ 2016 کو تقریبا 80 افراد( جن میں زیادہ تعداد بچوں کی تھی ) خود کش حملے میں مارے گئے ۔لاتعداد افراد زخمی ہوئے ۔اور اس 28مارچ کے بعد بچے گلشن اقبال پارک تو کیا اور بھی کسی پارک میں جاتے ہوئے گھبراتے ہیں۔ سانحہ اے ۔ پی ۔ایس کے بعد تمام تر تعلیمی اداروں میں سیکورٹی کا سخت انتظام کیا گیا۔آپ کسی اسکول کا جائزہ لیں ۔اونچی اونچی دیواریں جن کے اوپر خاردارو تاریں لگائی گئی ہیں،آتے جاتے سخت چیکنگ ، بچے اسکول میں کم اور جیل میں زیادہ لگتے ہیں ۔اپنا بچپن یاد کرو یا بچوں سے شئیر کرو تو بچے حیران ہوتے ہیں اور اپنے آپ کو قیدی محسوس کرتے ہیں۔ابھی دل اور دماغ ان خود کش حملوں کو ہی برداشت کرنے کے قابل نہیں تھے کہ پچھلے اک ماہ میں ہونے والے واقعات نے تو دنیا سے ہی اعتبار ختم کردیا۔ پنجاب میں حیرت انگیز طور پر بچے اغواء ہونے لگے ۔ دیکھتے ہی دیکھتے 1000 کے قریب بچے گھر سے کچھ لینے گئے اور واپس نہ لوٹے ، کچھ ماؤں کی گود سے چھین لئے گئے۔کل ہی لاہور اقبال ٹاؤن میں ایک عورت سے دو لخت جگر چین لئے گئے۔اس سارے معاملے کی جب تحقیق ہوئی تو خطرناک حقائق سامنے آئے ،، لوگوں کا ماننا ہے کہ یہ ایک مافیا ہے جو بچوں کو ان کے جسم کے اعضاء فروخت کرنے کے لئے اغوا کر رہا ہے . حالات قابو سے باہر ہوچکے ہیں۔ پہلے بچوں کے اسکول جیلوں میں تبدیل ہوئے، پھر پارکوں کو ان کی دسترس سے دور کردیا۔ اور اب حالات ایسے کہ ہمارے معصوم بچے اپنے والدین کے ساتھ بھی گھر سے نکلنے کے قابل نہ رہے۔ہمارے بچے مر رہے ہیں نہ ہی وفاقی اور نہ ہی صوبائی حکومت کو کوئی پرواہ ہے۔ ایک جماعت تبدیلی کا نعرہ تو لگاتی ہے لیکن ڈی ۔جے کی بیٹ پر ناچنے کے علاوہ کچھ نہ کر پائی۔ پنجاب حکومت کا رویہ بھی مایوس کن ہے۔ ہر کوئی والدین کو سمجھا رہا ہے کہ بچوں کا خیال رکھے جو دراصل یہ پیغام ہے کہ انھیں گھر سے بالکل باہر نہ نکلنے دیں۔ ہمارے حکمران کرسی کی جنگ میں مصروف ہیں۔ پولیس عام عوام کو تنگ کرنے کے نت نئے طریقوں کی تلاش میں ہے اور میڈیا چینل سب سے آگے نکل جانے کی کوشش میں اخلاقیات اور احساس کو بہت پیچھے چھوڑ آئے ہیں ۔اور بیچارے گمشدہ بچوں کے والدین کی آنکھیں دروازے کو تکتے تکتے پتھر کی ہو گئی ہیں . اس مافیا کو جلد از جلد پکڑا نہ گیا توہم اپنی نسلوں کو ختم ہوتے دیکھیں گے ۔ خود کو خادم پنجاب کہنے والوں سے صرف اپیل کی جا سکتی ہے کہ اس سے پہلے کہ آپکے نواسوں اور پوتے ، پوتیوں کے ساتھ یہ سب ہو اس صورتحال پر قابو پانے کے لئے اقدامات کرے .
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn