قصہ کچھ یوں ہے کہ انگلش میڈیم سکول کا طالبعلم ہونے کے ناطے میرا اردو کے مضمون سے ویسا ہی رشتہ تھا جیسا کہ انگریزوں کا بر صغیر میں بسنے والوں کے ساتھ ۔ ابتدائی جماعتوں تک تو میں بر صغیر کی مظلوم عوام اور اردو کا مضمون انگریز حکمران کا کردار نبھاتے رہے مگر جیسے جیسے اس کا ظلم و ستم بڑھتا گیاویسے ویسے میرے دل میں آزادی کا جوش۔ دل میں اٹھنے والی خاموش بغاوت آہستہ آہستہ نوٹ بک اور امتحانی پرچوں پر اپنا اثر دکھانے لگی۔
والدین کا تعلق اہل زباں خاندان سے تھا اور خصوصا والدہ تدریس کے شعبے سے وابستہ ہونے کی وجہ سے یہ حالات دیکھ کر دکھی ہوتی تھیں ۔ زبانی کلامی تو اردو بولنے میں مہارت تھی مگر لکھنے کے معاملے میں ہجے اور املاء کے معاملے میں بالکل پیدل تھا۔ حد تو یہ ہے کہ کبھی تکا بھی صحیح نہ لگا ۔مثلا ذ، ض،ز اور ظ سب ایک قبیلے کے لگتے تھے اور املاء کے دوران اسی باہمی بھائی چارے کی وجہ سے نتیجہ اور منہ دونوں ہی چھپانے پڑتے۔
شروع میں تو مجھ پر صرف بغاوت کا الزام تھا مگر بعد میں والدہ کا کہنا تھا کہ میں باقاعدہ تختہ الٹ چکا ہوں۔ چھوٹی جماعتوں میں میرے اساتذہ میری املاء کی غلطیوں اور لکھائی کو دوسرے ہم جماعتوں کے سامنے بطور عبرت پیش کرتے تھے مگر بعد میں میرے بڑھتے ہوئے اعتماد کی وجہ سے اضافہ ہونے لگا۔ پہلے کلاس فیلو اور بعد میں ٹیچرز بھی تفریح لینے لگے۔ اس دل لگی میں وقت اچھا کٹ جاتا تھا۔ اکثر نمبر بھی کٹ جاتے۔ مگر بامحاورہ بول چال اور مطالعے کے شوق کی وجہ سے کسی نہ کسی طرح پاس ہو ہی جاتا تھا۔
یوں تو مجھے انگریزی کتابیں پڑھنے کا شوق تھا مگر میٹرک تک پہنچتے پہنچتے اردو شاعری بھی اچھی لگنے لگی۔ شوق شوق میں معاشرتی موضوعات پر ٹوٹے پھوٹے شعر بھی کہے۔ کلام سناتا تو سب خوش ہوتے ۔پڑھاتا تو ہنس ہنس کے دہرے ہوجاتے ۔ وجہ وہی املاء کی غلطیاں ۔
منظر کچھ یوں ہوتا
شعر کا موضوع +میراجذباتی انداز بیاں + املاء کی غلطیاں = ہنس ہنس کے لوٹ پوٹ ہوتے ہوئے سامعین و قارئین ۔
اس زمانے میں میٹرک کے امتحانات کی تیاری زوروں پر تھی۔ادھر شعر و شاعری کے جذبات کی بھی یہی حالت تھی۔ روز رات کو جاگ کر پڑھنے کے دوران ایک آدھ غزل لکھنا فرض تھا۔ تمام غزلیں بڑے اہتمام سے ڈائری پر لکھ رکھی تھیں جن میں سے زیادہ تر کا موضوع محبوب کی بے رخی تھا۔ اردو شاعری میں محبوب کو اہم بلکہ مرکزی مقام حاصل ہےاور میرے لئے اس وقت شعر و ادب کا واحد آسرا اردو کی کورس کی کتاب تھی۔
گھر والوں کو اس سلسلے کی خبر نہیں تھی مگر برا ہو ملازمہ کا جس نے کمرے کی صفائی کے دوران تکیئے کے نیچے سے ہمارا قلمی نسخہ دریافت کر لیا۔ نہ صرف دریافت کیا بلکہ والدہ کے حضور پیش کردیا۔ کیونکہ اشعار کے ساتھ کہیں کہیں دل اور اس میں پیوست ایک مخصوص آلہ ء حرب بھی بنا رکھا تھا ( بخدا میرا کوئی غلط ارادہ نہ تھا ۔ وہ تو بس ذرا شعر میں جان ڈالنے کے لئے ایک بے ضرر اور معصوم سی کوشش تھی ) بس پھر کیا تھا۔ دن چڑھے سو کر اٹھنے کے بعد جب ناشتے کی بجائے والدہ کے ہاتھوں خوب تواضع ہوئی تو پتہ چلا کہ کیا قیامت گزر گئی ۔ والدہ کا واضع ارشاد تھا کہ آج یا تو میں یا میرا ” نادیدہ محبوب ” ضرور اپنے انجام کو پہنچے گا۔ میں سر جھکائے اپنا دیوان ہاتھ میں لئے کھڑا تھا۔ آج بھی وہ وقت یاد آتا ہے تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔
کلام کے یوں اچانک منظر عام پر آنے سے بولتی بند ہو چکی تھی۔ دیوان تو پہلے ہی ضبط ہو چکا تھا بس اپنی رہی سہی عزت نفس سمیٹی اورآئندہ ایسی حرکت نہ کرنے کا وعدہ کیا مگر یہ تو طے ہے کہ پہلے والدین اور بعد میں ننھیال اور ددھیال کے قابل اعتماد رشتے داروں کی نظر سے گزرنے کا شرف حاصل کرکے میرا کلام پسندیدگی کی سند حاصل کر چکا ہے ۔ سب کا کہنا ہے کہ میرے اس سنجیدہ شعری مجموعے کو (املاء کی غلطیوں سمیت)ضرور شائع ہونا چاہئیے تاکہ اردو ادب میں مزاح نگاری کو فروغ ملے۔
اس تبصرے کو اجازت سمجھ کر میں نے اس کے نام پر غور کیا ۔ ایک نام موزوں لگا تو جھٹ سے کاغذ پر لکھ ڈالا مگر جسے میں نے اپنی دانست میں "دیوان اصغر” لکھا تھا وہ اصل میں "دیوانے اصغر ” لکھا گیا تھا۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn