Qalamkar Website Header Image

بگڑے چہرے

افسانہ برائےعالمی افسانہ میلہbigre chehre2016
عالمی افسانہ فورم
افسانہ نمبر 17 ” بگڑے چہرے ” ۔
انیلہ معین سید ۔ اسلام آباد ۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ ۔۔
قد کاٹھی سے ‘صدو’ تقریبا چودہ کی لگتی تھی یا شاید تیرہ کی ہو۔۔۔ جب گندم کٹ رہی تھی تب ہی جنا تھا اس کی ماں نے اس موالن کو۔۔۔ اور اب سرسوں اگی ہوئی تھی پنڈ میں۔۔۔ اس حساب سے وہ تقریبا چودہ کی بنی۔۔۔
اپنے ماں باپ کی وہ پہلی اولاد تھی جو ان کے بیاہ کے چار سال بعد ہوئی تھی۔۔۔ بڑی منتوں، مرادوں اور جادو ٹونوں کے بعد وہ پیدا ہوئی تھی۔۔۔ مگر اس میں پہلی اولاد والا کوئی گن نہ تھا۔۔۔ نہ منہ نہ متھہ۔۔۔اوپر سے نام دیکھو ‘صدو’۔۔۔ اصل نام تو اسکا صدف تھا مگر پنڈ میں کوئی اسکو اس نام سے نہ جانتا تھا۔۔۔ وہ صدو تھی۔۔۔ مینا اور ماجے کی پہلی اولاد۔۔۔ اسکی پیدائش کے ٹھیک سات مہینے چودہ دن بعد فیکا آ گیا، اور پھر اس کے بعد شیدا اور پھر کالا او پھر۔۔۔۔ پھر اسکی ماں نے چھ اور بچے جنے۔۔۔ اور ساتواں ابھی اس کے پیٹ میں تھا۔۔۔
اس کی ماں وہ زرخیز مٹی تھی جس پر ساون میں پانی پڑتے ہی اس میں جوق در جوق کیچوے پیدا ہونے شروع ہو جاتے تھے۔۔۔
کالے اور بھورے کیچوے۔۔۔
گندی مٹی میں پلنے والے کیچوے۔۔۔
پلپلے اور دھاری دار کیچوے۔۔۔
گندے، پلید اور غلیظ کیچوے۔۔۔
____________________________
اسکی ماں ‘مینا’ کشمیرن تھی۔۔۔ گوری چٹی۔۔۔ کشمیری سیب کھا کر پلی تھی اور اسکا باپ ماجا۔۔۔ وہ دہلی کا تھا۔۔۔ سنا تھا قیام پاکستان سے پہلے اسکے باپ دادا دہلی میں شودروں کے ساتھ صفائی ستھرائی کا کام کرتے تھے۔۔۔ جگہ جگہ جھاڑو دیتے اور کوڑا اٹھاتے تھے۔۔۔ پھر وہ ہجرت کر کے کشمیر آ گئے اور وہاں بھی یہ ہی کام کیا۔۔۔
مینا اور ماجا کشمیر میں ہی فاریسٹ آفیسر کی کوٹھی میں نوکر تھے۔۔۔ پھر دونوں کی عشق معشوقی چلی اور دونوں کے خاندانوں کے ہزار روک ٹوک کے باوجود دونوں نے بیاہ کر لیا اور بھاگ کر پوٹھوہار میں بس گئے۔۔۔
ماجا اب کبھی کوڑا چنتا تھا تو کبھی مزدوری کرتا تھا۔۔۔
‘صدو’ نے اپنی ایک کمرے کی جھگی میں ہمیشہ ماں کو بچے جنتے اور باپ کو کوڑا چنتے اور مینا کو مارتے ہی دیکھا تھا۔۔۔
ماجا مینا جیسا گورا نہ سہی مگر گندمی رنگت اب تک قائم تھی۔۔۔
عجیب بات یہ تھی کہ ان سب اولادوں میں سے کسی کا رنگ صاف تھا نہ گندمی۔۔۔ مینا کہتی تھی انکی دادی کا رنگ توے جیسا سیاہ اور بوا کا ناک پکوڑے جیسا موٹا تھا۔۔۔ شاید سب کے سب دادی اور بوا پر چلے گئے تھے۔۔۔
______________________________________
مٹی کی بنے ہوئے چھوٹے سے باورچی خانے میں مینا، صدو ، فیدو اور باقی کیچوے رینگ رہے تھے
"اے فیدو۔۔۔ اے فیدو مجھے میری روٹی کا نوالہ دے” وہ چلائی اور فیدو کے ہا تھ سے باسی روٹی کا نوالہ چھپٹ لیا۔۔
"مر جا ناس پیٹی۔۔۔ کھا کھا کر سانڈ بنی جا رہی ہے۔۔۔ عورت جاتی ہے تو۔۔۔ کیوں کھاتی ہے اتنا۔۔۔” مینا نے اسکے ہاتھ سے نوالہ لے کر پھر فیدو کو دے دیا۔۔۔
"غلیظ پلے فیدو۔۔۔ مر جا۔۔۔ مجھے دے میرا نوالہ۔۔۔” وہ بھی چپکی بیٹھنے والی کہاں تھی۔۔۔ اور پھر اس دڑبے میں دھینگا مشتی شروع ہو گئی
"مر جاو تم سب کے سب حرامزادو۔۔۔۔” مینا نے موٹی سے گالی دی۔۔۔
حرام۔۔۔۔؟؟؟ یہ پتہ نہیں کیا ہوتا ہے؟؟؟ ماں اکثر انہیں یہ گالی تھی۔۔۔ مگر اس گالی کا کیا مطلب ہے نہ صدو کو پتہ تھا نہ وہ جاننا چاہتی تھی۔۔۔ اس وقت اسے اپنا نوالہ درکا ر تھا۔۔۔
اس دھینگا مشتی میں اس نے اپنے گندے مگر نوکیلے دانت فیدو کی کلائی میں گاڑ دیئے۔۔۔۔
"ہائے میں مر گیا۔۔۔” فیدو کراہ کراہ کر اس سے کلائی چھڑانے لگا مگر وہ اب دانتوں کی گرفت اور مضبوط کر رہی تھی۔۔۔۔
فیدے کی گندی میلی کلائی پسینے سے شرابور تھی۔۔۔ اسے اسکی کلائی نمکین محسوس ہو رہی تھی۔۔۔ یہ پسینہ ہے۔۔۔ یہ نمکین ہو تا ہے۔۔۔ اسے پتہ چل گیا کہ پسینہ نمکین ہوتا ہے۔۔۔ نمک جیسا۔۔۔ اسے نمک نہ پسند تھا۔۔۔
اس نے فیدو کو چھوڑ کر زور سے زمین پر تھوکا۔۔۔ہنہ۔۔۔ نمکین کیچوے۔۔۔ اور فیدو روٹی کا وہی باسی ٹکڑا ٹکنے لگا۔۔۔
____________________________________
"اتنے موٹے ہونٹ ہیں اس کلموہی کے اوپر سے ناک دیکھ کتنے رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔۔۔با لکل اپنی بوا پر گئی ہے۔۔۔”
مینا اپنا پھولا ہوا پیٹ لیئے پڑوسن صفوراں کے ساتھ اسکی غیبتیں کر رہی تھی۔۔۔۔ پھر دونوں آپس میں من من کرنے لگیں اور دو بے شرم قہقہے سنائی دیئے۔۔۔ اور کافی دیر پوشیدہ گفتگو جاری رہی۔۔۔
نہ جانے صدو جوان ہو چکی تھی یہ سبھی ہونا تھا۔۔۔عجیب بے ہنگم انداز میں بڑھتا ہوا جسم اس مقولے کی نفی کرتا تھا کہ ” جوانی تو گدھی پر بھی آتی ہے”
وہ ایک گدھی سے بھی بدتر تھی۔۔۔ کالا رنگ، موٹے ہونٹ اور چہرے پر جا بجا چھائیاں۔۔۔ جیسے خدا جانے اس نے کتنے بچے جن دیئے ہوں۔۔۔
آئینہ بھی اس سے کراہتا تھا۔۔۔
غریب کبھی خوبصورت نہیں ہو سکتا۔۔۔
اور پھر چند دن بعد اس کی ماں نے ساتواں بچہ بھی جن دیا۔۔۔ گوشت کے اس لوتھڑے کو گود میں لیئے اسے گھن آ رہی تھی۔۔۔ ویسا ہی کالا سیاہ اور پوپلا بدن۔۔۔جیسے چوہے کا نومولود بچہ جس کا جسم گوشت کا ایک لوتھڑا ہوتا ہے۔۔۔ ایک اور کیچوا۔۔۔
___________________________
"حرام کا لاتا ہے تو اس گھر میں جب ہی ان سب کے چہرے بگڑتے جا رہے ہیں۔۔۔”
دڑبے سی جھگی میں اسکے ماں باپ کا دنگل جاری تھا۔۔۔ ماجے کا ہاتھ مسلسل مینا کے بدن کے مختلف حصوں کو پیٹ رہا تھا اور مینا مسلسل چلا رہی تھی۔۔۔
"نہ کھلا ان کو حرام۔۔۔ نہ کھلا۔۔۔ چہرے دیکھ ان کے۔۔۔”
جیسے جیسے ابے کے ہاتھ کی رفتار تیز ہوتی ویسے ویسے ما ں کی چیخ و پکار بڑھ جاتی۔۔۔ اب ابا لاتوں اور ٹھڈوں سے بھی اماں کی تواضع کر رہا تھا۔۔۔
جھونپڑی کے کچے صحن میں بیٹھی وہ ماں کی آہ و بکاہ سن رہی تھی اور انتظار کر رہی تھی کب یہ دنگل ختم ہو اور وہ باورچی خانے میں جائے۔ جب ابا ماں کو مار مار کرتھک گیا تو جاتے جاتے اس نے صدو کے پیٹ میں بھی ایک زور دار لات رسید کی۔۔۔ وہ درد سے کراہ اٹھی اور گود میں پڑا نومولود کیچوا اسکی گود سے گر کر رونے لگا۔۔۔
مگر اس سمے نہ اس کو درد کی پرواہ تھی نہ اس کیچوے کی۔۔۔
اسے پرواہ تھی تو گوشت کی ان بوٹیوں کی جو اس کا باپ ابھی ابھی لایا تھا۔۔۔ جو حرام کی کمائی سے آئی تھیں۔۔۔ مگر اسے حرام سے کچھ لینا دینا نہ تھا۔۔۔ دو عیدوں پہلے اس نے بکرا عید پر کل 4 بوٹیاں کھائیں تھیں۔۔۔ دو سال پہلے۔۔۔
وہ کراہتی ہوئی پھرتی سے باورچی خانےکی جانب دوڑی اور فرش پر پڑے گوشت کے وہ ٹکڑے اٹھانے لگی جو ماں اور ابے کی لڑائی میں زمین پر گر گئے تھے۔۔۔ مٹی سے بھرے ان گوشت کے ٹکڑوں کو وہ صاف کر کر کے اپنے پیلے نوکیلے دانتوں سے بھبھوڑنے لگی۔۔۔
___________________________
سات بچوں کی پیدائش کے بعد پچھلے ایک سال سے مینا کا پیٹ خالی تھا۔۔۔ محلے کے کونے میں رہنے والی ڈائن شکل کی ماسی کا کہنا تھا کہ اس کی ماں پر جیدے مصلی نے جادو کر دیا ہے۔۔۔
جیدا مصلی۔۔۔ وہ ہی جیدا مصلی جس سے جادو کروا کر اسکی ماں نے اپنا بانجھ پن دور کروایا تھا۔۔۔
پنڈ سے شہر جانے والی کچی سڑک کے آخر میں شمال کی طرف جیدے مصلی کی کوٹھری تھی۔۔۔ پنڈ سے بلکل الگ تھلگ۔۔۔ کوٹھری کے ارد گرد کی زمینیں سیم آلود تھیں۔۔۔ بوڑھی ڈائن یہ بھی کہتی تھی کہ جیدے نے خود جادو ٹونہ کر کے یہ زمینیں سیم آلود کی ہیں تاکہ ارد گرد کو ئی آباد نہ ہو سکے اور وہ آرام سے اپنے ٹونے کرتا رہے۔۔۔
جیدہ مصلی بھی ان زمینوں کی طرح سیم آلود تھا۔۔۔ دبلا پتلا اور جسم پر اکثر کپڑوں کے نام پر بھدے رنگ کی دھوتی ہوتی تھی۔۔۔ چہرے اور جسم پر چیچک کے داغ تھے اور دو لمبے لمبے دانت جو اسکو اور ہیبت ناک بناتے تھے۔۔۔
وہ کئی بار فیدے اور ابے کے ساتھ جیدے مصلی کی کوٹھری کی سامنے سے گزری تھی۔۔۔ لکڑی کا ٹوٹا ہوا دروازہ اکثر خون آلود ہوتا تھا۔۔۔ سنا تھا وہ الو کا خون تھا۔۔۔اور کبھی کبھی کوئی انسانی کھوپڑی بھی دروازے پر لٹکتی نظر آتی تھی۔۔۔ وہاں پنڈ کا کوئی مرد بھی اکیلے نہ جاتا تھا۔۔۔
کبھی کبھی جب ‘صدو’ کو اپنے گھر میں رہنے والے کیچو وں سے زیادہ گھن آتی تو اسکا دل کرتا وہ ان سب کو جیدے مصلی کی کوٹھری پر چھوڑ آئے۔۔۔ اور وہ ان لیس دار کیچو وں کا خون کسی جادو ٹونے میں استعمال کر لے۔۔۔
پنڈ میں ہونے والی ہر طلاق ، موت اور بچہ ضائع ہونے کا کارن بھی یہی تھا مگر صدو بڑی خوش تھی کہ جیدے مصلی نے اس کی اماں پر اب بانجھ پن کا ٹونا کر دیا ہے اور اب اس کے گھر کوئی نیا کیچوا نہیں آئے گا۔۔۔
_______________________________
جاڑے کا موسم غریب کے لیئے خدا کی نعمت ہے۔ جب سات گوشت کے لوتھڑے ساتھ میں سوتے ہیں تو کچھ گرمائش تو پیدا ہوتی ہے اور جاڑے میں فیکے کو نمکین پسینہ بھی نہیں آتا۔
جاڑے کی ہی ایک رات تھی جب کھڑ پڑ سے صدو کی آنکھ کھلی۔ وہاں سب موجود تھے مگر اماں نہ تھی۔۔۔ کہیں ایک اور بچہ تو نہیں۔۔۔۔ ؟؟؟
نہیں نہیں۔۔۔ ابا سال بعد پنڈ سے باہر گیا ہوا ہے۔۔۔ گھر نہیں ہے ابا۔۔۔ یہ سوچ کر وہ پر سکون ہو گئی۔۔۔۔
کھڑ پڑ کی آ واز دوبارہ آئی تو وہ میلی اور پھٹی رضائی پھینک کر گوشت کے ان لوتھڑوں کو پھلانگتی پلنگ سے اتری۔۔۔
جھونپڑی کا دروازہ کھڑاک سے بند ہوا۔۔۔
اماں۔۔۔ اماں۔۔۔
اس نے دروازے سے اماں کی پھٹی ہو ئی چادر دیکھ لی تھی ۔۔۔ وہ اس جاڑے میں ننگے پیر اماں کے پیچھے چل دی مگر اماں کے قدم تیز تیز شہر جانے والی سڑک کی جانب بڑھ رھے تھے اور سردی کے مارے ‘صدو’ کی آواز نہیں نکل رہی تھی۔۔۔ وہ دبی دبی آواز میں اماں کو آوازیں دے رہی تھی اور چھوٹے چھوٹے قدم اماں کی طرف بڑھ رہی تھے۔۔۔
ہائے اماں تو جیدے مصلی کی کوٹھری کی جانب جا رہی ہے۔ جیدے نے واقعی اماں پر کوئی ٹونہ کر دیا ہے۔ سورج اگنے میں ابھی پورے دو گھنٹے باقی ہیں۔۔۔ ہائے میری اماں۔۔۔ اب وہ رونے لگی مگر سردی کی شدت سے آواز گلے میں پھنس رہی تھی۔۔۔
اس نے دور سے دیکھا کہ اماں جیدے کی کوٹھری میں احتیاط سے اندر چلی گئی ہے۔ اب وہ ڈری ڈری جیدے کی کوٹھری کے سامنے آ کھڑی ہوئی۔ کوٹھری کے دروازے پر لگا خون آج تازہ تھا اور انسانی کھوپڑی صدو کو منہ چڑھا رہی تھی۔ وہ ڈری سہمی وہیں سیم زدہ اینٹوں کی آڑ میں بکل مار کر بیٹھ گئی۔۔۔
اور منہ ہی منہ میں اماں کو بلاتی رہی۔۔۔ پھر دور کہیں سے اس کو اذان کی آواز آئی۔۔۔ سورج اگنے ہی والا تھا۔۔۔۔ اتنے میں جھگی کا دروازہ کھلا اور اماں نکلی۔۔۔
اوئے مینا۔۔۔ جیدا مصلی نے عقب سے آواز دی۔۔۔ "تیری چوڑیاں میں کل تجھے لا دوں گا۔۔۔کل بھی آئے گی نہ۔۔۔؟؟؟”
مینا اثبات میں سر ہلا کر تیز قدموں مگر احتیاط سے پند کی طرف چل دی۔۔۔
اس نے ڈرتے ڈرتے جیدے کی جھونپڑی میں جھانکا تو وہاں گڑیوں کی پتلیوں میں چبی سوئیاں، بکرے کی سریاں اور الو کا خون تھا ۔ ہلکی ہلکی روشنی میں جیدے کے دانت ایسے چمک رہے تھے جیسے وہ ابھی ابھی شکار کھا کر سویا ہو پھر اچانک جیدے کی شکل میں اس کو اپنی شکل نظر آئی اور پھر فیدے کی اور پھر کالے کی۔۔۔ اور آہستہ آہستہ اس نے ان سب کیچو وں کی شکل جیدے مصلی کے چہرے پر دیکھی جو اس کے گھر میں تھے۔۔۔ وہ سب کے سب جیدے کی شکل پر تھے۔۔۔ نہ اپنی دادی پر اور نہ بوا پر۔۔۔۔
کھوپڑی اب صدو پر قہقہے لگا رہی تھی۔۔۔
اور پھر اس کی نظر اماں کی ٹوٹی ہو ئی چوڑیوں میں اٹک گئی۔۔۔۔ اماں کی چوڑیاں اس کے ارد گرد ناچ ناچ کر شور مچا رہیں تھیں۔۔۔۔۔حرام۔۔۔ حرام۔۔۔ حرام۔۔۔
وہ مردہ قدموں سے اپنی جھگی کی طرف جا رہی تھی کیونکہ اسے معلوم تھا کہ اب 9 مہینے بعد ایک اور کیچوا آنے والا ہے۔۔۔۔
اماں کی آواز بھی کہیں دور سے آئی۔۔۔
"مت کھلا ان کو حرام۔۔۔۔ ان کے چہرے بگڑ رہے ہیں۔۔۔”

حالیہ بلاگ پوسٹس

کنفیشن باکس

سرد ہوا جیسے رگوں میں خون جمانے پر تلی تھی ۔ رات بھر پہاڑوں پہ برف باری کے بعد اب وادی میں یخ بستہ ہوائیں تھیں ۔ خزاں گزیدہ درختوں

مزید پڑھیں »

کتبہ (افسانہ) غلام عباس

شہر سے کوئی ڈیڑھ دو میل کے فاصلے پر پُر فضا باغوں اور پھلواریوں میں گھر ی ہوئی قریب قریب ایک ہی وضع کی بنی ہوئی عمارتوں کا ایک سلسلہ

مزید پڑھیں »

داعی (افسانچہ) – ابوعلیحہ

مولانا کمال کے آدمی تھے۔ ستر برس کے پیٹے میں بھی ان کے ضخیم بدن کا ہر ایک رونگٹا، ان کی مطمئن صحت کی چغلی کھاتا تھا۔ ملیح چہرے پر

مزید پڑھیں »