Qalamkar Website Header Image
ثناء بتول، سوشل موضوعات پر لکھنے والی مصنفہ

فاصلے – سائبر ٹیکنالوجی کے اثرات اور سماجی تبدیلیاں

آج کا دور ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ اس کے بغیر بقا کا تصور محال ہے۔ بنیادی ضروریات زندگی سے لے کر تعیشات تک سب اسی کی مرہون منت ہیں۔ انسانی زندگی کے تمام پہلو، خواه وه طبعی وجود رکھتے ہوں یا نفسیاتی و جذباتی حوالے، کہیں نہ کہیں ٹیکنالوجی کے زیر اثر ہیں۔ اس کی جو شکل پوری طرح سے انسانی زندگی کا احاطہ کیے ہوئے ہے، وه سائبر ٹیکنالوجی ہے۔ یہ سماجی، نفسیاتی اور اخلاقی قدروں پر شدت سے اثر انداز ہو رہی ہے۔

سائبر ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے والے دو مختلف نسلوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایک وه جو ٹیکنالوجی کے دور میں پیدا نہیں ہوئے لیکن اس کو اپنانے کے لیے کوشاں ہیں، اور دوسری وه پود جو پیدا ہی اس دور میں ہوئی ہے، جس کے لیے یہ زندگی کا ویسا ہی حصہ ہے جیسے سانس لینا۔

وه پود جو ٹیکنالوجی کی طرف ہجرت کر کے آئی ہے، اسے ایک ایسی ابتری کا سامنا ہے جہاں نہ کچھ سجھائی دیتا ہے نہ ہی کوئی بات واضح معنی رکھتی ہے۔ اسے یہ سب کچھ اتنی تیزی اور وافر مقدار میں ملا ہے کہ اسے سماجی ڈھانچے میں اس کی جگہ بنانے کے لیے نہ مناسب وقت ملا نہ جگہ۔

یہ بھی پڑھئے:  مردہ پرست قوم اور کیا کرے؟

نتیجتاً، ٹیکنالوجی کے طوفان نے انسان کو اس طرح سے لپیٹ میں لیا ہے کہ وه اپنی بنیادی سماجی اکائی، خاندان، سے لے کر معاشرے تک کہیں بھی مناسب انداز سے اس کا استعمال نہیں کر سکتا۔

سوشل میڈیا ہی کی مثال لیں۔ کام کرنے کے اوقات ہوں یا گھر میں وقت گزارنے کے، اس سے فرار ممکن نہیں۔ اس کے ضرورت سے زیادہ استعمال نے انسان کو اس کے حقیقی رشتوں سے دور اور ورچوئل رشتوں سے قریب کر دیا ہے۔ وه وقت جو اپنے والدین، بچوں یا دوستوں کے ساتھ گزارنے یا ان کے مسائل سننے اور حل کرنے میں گزرنا چاہیے، وه اب نیٹ سرفنگ، اسکائپ، وٹس ایپ اور فیس بک پر صرف ہوتا ہے۔

اسی وجہ سے بنیادی رشتوں میں بھی اتنی دوریاں پیدا ہو چکی ہیں کہ ایک چھت کے نیچے رہنے والے ایک دوسرے کے مسائل سے آگاه نہیں ہوتے۔ ایک ایسی تنہائی کی صورتحال بھی وجود میں آ چکی ہے کہ جهاں اپنوں کی موجودگی میں بھی کسی ایسے کی تلاش جاری رہتی ہے جو اور کچھ نہیں تو کم از کم بات ہی سن لے۔

اس صورتحال کو مناسب حد تک بہتر کیا جا سکتا ہے اگر لوگوں میں سائبر ٹیکنالوجی کے درست استعمال کا شعور پیدا کیا جائے۔ اس بات کا احساس پیدا کیا جائے کہ وه حقیقی اور مجازی رشتوں میں فرق کر سکیں، اور ایسے سائبر قوانین کو بھی لاگو کرنے کی ضرورت ہے جس میں عمر اور ذہنی استعداد کے مطابق ہی انٹرنیٹ کا استعمال ہو سکے۔

یہ بھی پڑھئے:  منو بھائی کی یاد میں

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اس سونامی کو روکا نہیں جا سکتا، لیکن مناسب تربیت اور مثبت انداز فکر سے اس کے استعمال کو بامعنی اور معاشرے کے لیے مفید بنایا جا سکتا ہے۔

Views All Time
Views All Time
312
Views Today
Views Today
1

حالیہ پوسٹس

سعادت حسن منٹو کی بلیک اینڈ وائٹ تصویر

منٹو بنام طارق جمیل

از عالم بالا ڈئیر مولانا! امید ہے خیریت سے ہو ں گے۔ کافی دنوں سے سوچ رہا تھا خط لکھوں۔ خط لکھنے کی ایک وجہ تو حوروں کا اصرار تھا۔

مزید پڑھیں »
مصلوب واسطی کی فائل فوٹو

کرونا اور جہالت کا مشترکہ حملہ

پاکستان اس وقت تاریخ کے نازک دور سے گذر رہا ہے۔ یہ جملہ ہم کئی دہائیوں سے سنتے آئے تھے لیکن ایسا واقعی ہوتا دیکھ پہلی بار رہے ہیں۔ کرونا

مزید پڑھیں »