Qalamkar Website Header Image

قبرستان سے براہ راست-تیمور احمد

جسامت میں ایک دبلا پتلا انسان ہوں مگر عمر بڑھنے کے ساتھ تن سازی کا خیال آیا تاکہ دنیا کے ساتھ قدم ملا کر چل سکوں۔ اس مقصد کے لئے ڈیڑھ سال پہلے ایک جم جوائن کیا۔ اب روز شام کو شوق سے جم جاتا اور ورزش کرتا ہوں۔

ایک دن جم جا رہا تھا تو سڑک پر بارش کا پانی کھڑا ہونے کے باعث چاروں طبق روشن کر کے موٹر سائیکل چلا رہا تھا، تبھی نظر سڑک کے عین اوپر موجود قبرستان کے گیٹ پر پڑی۔ قبرستان کا گیٹ دیکھ کر عجیب سی گھبراہٹ ہوئی اور دل میں ڈر پیدا ہوا اور ذہن کو ناگوار گزرا مگر بعد میں میں نے کچھ خاص اہمیت نہ دی۔ بس اسی طرح دن گزرتے رہے۔ دن پہلے ہفتوں اور پھر مہینوں میں تبدیل ہوئے۔ اسی دوران کافی عرصہ متبادل شاٹ کٹ راستہ بھی اختیار کئے رکھا۔

پھر جانے کیوں آہستہ آہستہ قبرستان کا ڈر دل سے نکلتا رہا۔ شائد روز سامنے سے گزرنے کی وجہ سے قبرستان کا ڈر اور گھبراہٹ دل سے نکل گئی تھی اور اب یہ خیال آنے لگا تھا کہ مجھے بھی اس کے اندر جانا چاہئے۔ مگر اس خیال کو عملی جامہ پہنانے میں بھی ایک سال لگ گیا کیونکہ جو کام ترجیح نہ ہو اس کا مکمل ہونا بہت مشکل ہوتا ہے۔ شائد مجھے یہ احساس نہیں تھا کہ جس تن کی سازی کے لئے میں ڈیڑھ سال سے ایک راستے سے گزر رہا ہوں اس تن کا مستقل ٹھکانہ راستے میں ہی واقع قبرستان ہے جس کو میں بلکہ ہم سب نظر انداز کئے بیٹھے ہیں۔

آج میں گھر سے نکلا ہی صرف قبرستان جانے کے لئے تھا۔ گیٹ کے اندر جاتے ہی خاموشیوں نے ڈیرے ڈال لئے۔ جیسے جیسے قبرستان کی طرف بڑھتا گیا، خاموشی بڑھتی گئی۔ سب سے پہلے پارکنگ ایریا نظر آیا۔ پارکنگ ایریا دیکھ کر پہلے تو خوشی ہوئی مگر پھر انتہائی دکھ ہوا۔ خوشی اس لئے کہ تمام پارکنگ ایریا میں صرف ایک گاڑی کھڑی تھی اور دکھ بھی اسی لئے کہ تمام پارکنگ ایریا میں صرف ایک گاڑی کھڑی تھی اور اگر آج جمعرات نہ ہوتی تو شائد وہ بھی نہ ہوتی۔ اسی خوشی اور دکھ کے عالم میں میں نے موٹر سائیکل پارک کی اور تالہ لگانے لگا۔ اب مجھے اپنے لاہور شہر کے وہ پارکنگ ایریاز یاد آ رہے تھے جہاں آسانی سے پارکنگ مل جانا آپکی اچھی قسمت تصور کیا جاتا ہے اور باقاعدہ ٹکٹ جاری کی جاتی ہے بلکہ پارکنگ تو اس شہر میں باقاعدہ کاروبار کی حثیت اختیار کر گئی ہے مگر قبرستان کی پارکنگ میں محض ایک گاڑی وہ بھی جمعرات کی بدولت! اور میں آپ کو آدھی رات یا دن دھاڑے کا قصہ نہیں سنا رہا۔ یہ بات ہے گرمیوں کی شام ساڑھے چھ بجے کی۔ جب سڑکوں پر سیلاب کی طرح ٹریفک رواں دواں ہوتی ہے مگر یہاں قبرستان میں ہو کا عالم تھا۔ جیسے جیسے میں قبرستان کی طرف قدم بڑھا رہا تھا، ویسے ویسے خاموشی بڑھتی جا رہی تھی۔ ویسے ذاتی طور پر میں خاموشی پسند کرنے والا انسان ہوں مگر یہ خاموشی گھبراہٹ میں تبدیل ہو رہی تھی۔ اتنا سناٹا تھا کہ جوتے کے نیچے سوکھے پتے کے مسلے جانے کی چیخیں کانوں کو تکلیف دے رہی تھیں۔

یہ بھی پڑھئے:  بابا رحمتا بولے ہی کیوں؟

اب میں قبرستان کے عین وسط میں موجود تھا اور میرے چاروں طرف قبریں۔ ان میں سے نوے فیصد قبریں پکی تھیں اور دس فیصد کچی۔ ان تمام قبروں پر نام، والد یا شوہر کا نام، عہدہ، تاریخ پیدائش اور تاریخ وفات درج تھیں اور مجھے یہ جان کر حیرانی ہوئی کہ کوئی قبر بھی 2012ء سے زیادہ پرانی نہیں تھی۔ اس کا مطلب یہ کہ یہ سارا قبرستان محض پانچ سال کے عرصے میں آباد ہوا تھا اور ان میں تمام عمر کے افراد کی قبریں موجود تھیں۔ مگر زیادہ تر پچاس سے اسی سال کے افراد کی قبریں تھیں۔ اسی دوران میری نظر ایک ننھی سی قبر پر پڑی جس پر نام عبدالحنان خرم اور عمر محض 20 دن (8 جنوری 2016ء تا 28 جنوری 2016ء) درج تھی۔ بچے کی ننھی قبر اس کی ماں کی تکلیف کو چیخ چیخ کر بیان کر رہی تھی۔ تھوڑا اور آگے بڑھا تو ایک شخص قبر کے سرہانے بیٹھ کر دھیمی آواز میں تلاوت کر رہا تھا۔ یہ واحد انسانی آواز تھی جو مجھے وہاں سنائی دی اور خاموشی کیوجہ سے اس قدر واضح سنائی دے رہی تھی کہ اگر وہ اردو کے الفاظ ہوتے تو باقاعدہ ذہن نشین ہو جاتے۔ مزید آگے بڑھا تو دیکھا کہ کسی قبر پر پھولوں کی چادر چڑھی ہوئی تھی اور کسی قبر پر پرندوں کے پینے کے لئے پانی کا پیالہ رکھا ہوا تھا۔ وہاں ایک بلی بھی دکھائی دی جو انہی قبروں کے اوپر اپنی خوراک ڈھونڈ رہی تھی۔ بلی کو بلاتے بلاتے میری نظر قبر پر لگی تختی کی پچھلی طرف پڑی تو معلوم ہوا کی یہاں قبر کا نمبر بھی درج تھا۔ اس کے بعد میں نے تمام قبروں کی تختیوں کی پچھلی جانب نظر دوڑائی تو معلوم ہوا کہ ہر قبر کو ایک نمبر الاٹ کیا جاتا ہے۔ ان نمبروں کو دیکھ کر مجھے اپنی زندگی سے جڑے نمبر یاد آنے لگے۔ مثلاً اے ٹی ایم کوڈ، شناختی کارڈ نمبر یا پاسپورٹ نمبر۔ مگر ہم میں سے کیا یہ کسی نے سوچا ہو گا کہ ہمارا ایک قبر نمبر بھی ہو گا جس سے ہم کسی طور پر بچ نہیں سکتے۔ انہی قبروں کو دیکھتے دیکھتے دل میں اپنی قبر کا خیال آنے لگا کہ یہاں جتنی قبریں ہیں ان میں میری قبر کس طرح کی ہونی چاہئے؟ حالانکہ وہاں کچی قبریں بہت کم تھی مگر میں اپنی قبر کچی رکھنا چاہوں گا۔ قد لمبا ہے گویا لمبی کچی قبر اور تختی بھی سیمنٹ سے نہ بنی ہو۔ پلاسٹک بورڈ لوہے کے راڈز کے ساتھ زمین میں دھنسایا گیا ہو جس پر تاریخ پیدائش اور تاریخ وفات درج ہو گا۔

یہ بھی پڑھئے:  پتھر کیوں برس پڑے؟

حضرت علی ؓ کا فرمان یاد آیا کہ “مجھے جنت سے زیادہ مسجد میں بیٹھنا پسند ہے کیونکہ جنت میں میرا نفس خوش ہوتا ہے جبکہ مسجد میں میرا رب خوش ہوتا ہے”۔

اگر کوئی مجھ ناچیز سے پوچھے تو میں کہوں گا کہ مجھے مسجد سے زیادہ قبرستان جانا پسند ہے کیونکہ قبرستان جا کر میرا مردہ ضمیر زندہ ہوتا ہے۔ میری انا مرتی ہے اور مجھ میں عاجزی جنم لیتی ہے۔ قبرستان بہترین عبرت حاصل کرنے کا مقام ہے۔

ایسا نہیں ہے کہ قبر سے یہ میرا پہلا سامنا ہوا ہے۔ ہمارے خاندان میں جب بھی کسی کی وفات ہوئی تو اسے گاؤں میں محدود جگہ پر دفنایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ جب بھی ہماری کوئی بلی یا بلی کا بچہ مرا کرتا تھا تو میں اسے اپنے ہاتھوں سے دفناتا تھا۔ مگر ایک مستقل قبرستان کی اہمیت ہی الگ ہے، جو عبرت اور جلال قبرستان میں ہے، وہ مزاروں اور چند قبروں میں نہیں۔

کسی عزیز کی وفات وہ بہترین موقع ہوتا ہے کہ جب انا ختم کر کے دل میں خدا خوفی پیدا کی جائے اور عبرت حاصل ہو سکے کیونکہ یہ وہ وقت ہوتا ہے کہ جب زخم تازہ ہوتا ہے اور دل و دماغ حساسیت کی بلندیوں کو چھو رہا ہوتا ہے مگر ہمارے معاشرے نے اپنے بے تکے رسم و رواج کی وجہ سے اس عبرت کے موقعہ کو تحلیل کر کے رکھ دیا ہے۔ اب صرف اس امر پر زور ہوتا ہے کہ کس نے کیا پہنا ہے؟ کون کتنا رویا ہے اور کونسی رسم انجام دینی ہے؟

میری آپ سب سے گزارش ہے کہ قبرستان ضرور جائیے، اس سے پہلے کہ آپکو لے جایا جائے کیونکہ جو رات قبر میں لکھ دی گئی ہے، اسے کوئی نہیں بدل سکتا۔

dunyanews

حالیہ بلاگ پوسٹس