Qalamkar Website Header Image

ڈھینگلے

waqar hashmiکرہء ارض پر ڈھینگلے کے نام سے ایک سر زمین ہے. سنا ہے سیالکوٹ کے نواحی علاقوں میں کہیں واقع ہے. لیکن حیرت کی بات ہے کہ سیالکوٹ میں کوئی نہیں جانتا یہ کہاں ہے.ایک مجلس میں شرکت کی غرض سے لاہور سے ڈھینگلے رختِ سفر باندھا .
سیالکوٹ پہنچ کر بیسیوں لوگوں سے پوچھا بھائی ڈھینگلے کہاں ہے؟ لیکن کچھ پتا نہ چل سکا.
ایک صاحب سے پوچھا بھائی ڈھینگلے کہاں ہے؟ اس نے پہلے تو بڑے ناگوار انداز سے دیکھا جیسے کوئی غلط بات کہ دی ہو. اور جواب دینا بھی مناسب نہ سمجھا . صرف نفی میں سر ہلا دیا.ان کا رویہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ ایسا کیا کہہ دیا میں نے.
ایک بزرگ کو دیکھا وہ سڑک کے کنارے بیٹھے گنڈیریاں چوس رہے تھے. ان کے حلیے سے لگتا تھا جیسے انہوں نے پیدل پاکستان کا چکر لگایا ہو یا کم از کم سیالکوٹ کی گلیاں تو خوب ناپی ہوں گی اور ان کو تو یہاں کا نقشہ زبانی یاد ہو گا.جب ان سے پوچھا تو معرفت کی کمی کی وجہ سے میں ان کا جواب سمجھ نہ پایا . میری ہی کم عقلی .موصوف سے پوچھا کہ ‘ ڈھینگلے کہاں ہے؟’ انہوں نے جواب دیا ‘ اوہ کم کی کردا ؟ ‘ یہ سن کر میں ششدر سا رہ گیا. اور کہا ‘ ایہی تے پتا کرن آئے ہاں . کہ اس نے کیتا کی اے .’
میرے خیال میں ڈھینگلے تو ایسی جگہ ہے کہ اسکے اپنے رہائشی بھی اکثر بھول جاتے ہیں ہے کہ وہ ڈھینگلے میں رہتے ہیں . اور اگر کسی کو کوئی ڈاک یا پارسل موصول کرنا ہو تو قریبی علاقے میں کسی رشتے دار کے گھر کا پتہ دیتے ہیں. یہی وجہ ہے کہ یہاں کے طالبعلموں کے امتحانوں کے اصل نمبر سب رشتے داروں کو پتاہوتے ہیں. کیوں کے امتحانی رزلٹ کارڈ انہیں رشتے داروں کے گھر پہنچتے ہیں جن کا پتہ دیا جاتا ہے۔
قسمت کی ستم ضریفی دیکھیے کسی طرح دھکے کھاتے ہم ڈھینگلے پہنچے اور سر زمینِ ڈھینگلے پر کھڑے ایک شخص سے پوچھا کہ بھائی کہاں ہے ڈھینگلے ؟ انہوں نے ایسا راستہ سمجھایا کہ بیچ سمندر بھی کہیں کھو جاتے تو ان کی راہنمائی سے ساحل ڈھونڈ نکالتے.فرمایا ‘ پائین بالکل سیدھا جاؤ . اگلے چوک سے دائیں ہاتھ ہو کہ کسی سے بھی پوچھ لیں . مینوں نہیں پتا’ ‘ نہیں پتا ‘ تک تو ٹھیک ہے . اگلے چوک بھیجنے کی کوئی وجہ سمجھ نہیں آئی. یقینا میری کم علمی. .
ایک دوست نے تو مایوس ہو کر مشورہ دیا واپس لاہور چلتے ہیں . ایک کہنے لگا اب گھر سے نکلے ہیں تو مری کا چکر لکا آتے ہیں.
خیر مختلف رکشے والوں سے پوچھا بے سود رہا. بالاخر ایک نوجوان رکشہ ڈرایور نے ہمیں ایک سڑک پار بیٹھے ایک ادھیڑ عمر رکشہ ڈرایور کی طرف اشارہ کر کے کہا اس سے پوچھ لیں وہ جانتاہو گا.
ہم ٹریفک کی رفتار سے بے خبر اس پر نظریں جمائے سڑک پار کر کے اس مسیحا کے پاس پہنچے . وہ ایک بینچ پر چوکڑی جمائے شان بے نیازی کے ساتھ تشریف فرما تھے . ان کے قدموں میں بیٹھا ایک پالش کرنے والا حضور کی نعلین مبارک پالش کر رہا تھا. کاٹن کی شلوار قمیض میں ملبوس . جسکی کہ کلف ٹوٹےہوئے شائد صدیاں بیت گئی ہوں. ایک سفید رمال انہوں نے دوھرا کر کے سرِ اقدس پر رکھاہوا تھا جسکا ایک پلو منہ میں دبائے نظریں اخبار پر جمائے بیٹھے تھے .
ہم نے مؤدبانہ سلام پیش کیا جس کا جواب انہوں نے پان کی پیک تقریبا ہمارے جوتوں پر تھوک کر دیا . ہم نے حاجت عرض کی اور وہ جواب سننے کو ملا جس کو سننے کو کان ترس گئے تھے.
‘ لے جاواں گا. روپیہ ڈیڑھ سو لگے گا’
ہم نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور جھٹ سے رکشے میں سوارہو گئے.بالاخر خدا خدا کر کے ڈھینگلے پہنچے .
مجلس میں ہزاروں کا مجمع دیکھ کر میں تو اسی شش و پنج میں رہا کہ یہ ڈھینگلے ہی ہے نہ کہیں کسی اور مجلس میں تو نہیں بیٹھا .
لیکن الحمداللہ مجلس میں بیٹھتے ہی سب کچھ بھول گئے اور شام تک مجلس سنی . اور بہت سی یادیں لے کر گھر لوٹے.

Views All Time
Views All Time
264
Views Today
Views Today
1

حالیہ پوسٹس

زاہد شجاع بٹ کی تصویر، جو قلم کار کے اردو بلاگ کے لیے بطور لکھاری استعمال ہوتی ہے، پس منظر میں قلم کار کا لوگو موجود ہے۔

نسوار

خدا کا خوف کریں! نسوار رکھتے ہیں منہ میں؟ … جی! بھینس کے بوسے نہیں لیتا جو گھِن آئے۔ نسوار، پان، سگریٹ اور ماچس علامہ کی جاندار بحث۔

<div class="sharedaddy
مزید پڑھیں »

دکھی آتما، عشق و عاشقی

کچھ لوگوں کو شعر و شاعری سے انتہا کا عشق ہوتا ہے کہنا تو شغف چاہیے لیکن ہم یہاں بات کریں گے ان دکھی آتماؤں کی جو ہر وقت عشق

مزید پڑھیں »