Qalamkar Website Header Image

کاش کوئی مظلوم کی آہ کو سنے۔

انتہائی دکھ، کرب اور احساس ندامت کا سامنا ہے سر پہ اشرف المخلوقات کا تاج سجائے احسن التقویم کا روشن لقب پیشانی کا جھومر بنائے میرا ہم جنس حضرت انسان اپنے ہی ہم نفس کو خدا کے مجبور اور کمزور بندوں کو عقیدے، سوچ اور نظریے کے اختلاف کی بنیاد پہ قتل کیے جا رہا ہے۔ اور پیچھے بچ جانے والوں کی زندگیوں کو ہاویہ کے عذابوں سے بھی بدتر بنائے جا رہا ہے۔ ایک محشر ہے جو بپا ہے ایک قیامت ہے جو جاری ہے۔ اہل تشیع کی مقتل گاہ ڈیرہ اسماعیل خان کے نوحہ خواں شاعر مخمور قلندری لکھتے ہیں
توں قیامت دا سنڑدا ہوسیں
ساڈے پاسے آئی ودی رہی اے

ڈیرے کی مقتل گاہ میں ایک اور جوان افتخار حسین شہید کر دیا گیا ہے حالیہ واقعات میں یہ تیسری شہادت ہے۔ دو معصوم بچوں کا جواں سالہ باپ اپنے بچوں کے حسین مستقبل کے خواب آنکھوں میں سجائے، اپنی دودھ دہی کی دکان پہ رزق حلال کمانے میں مصروف تھا کہ مذہب کے ٹھیکداروں کے ایمان کو اس غریب دودھ فروش سے خطرہ ہوا اور انہوں نے معصوم بچوں سے باپ کی شفقت چھین لی۔

افتخارحسین کے نیم وا ہونٹوں کے الفاظ تو نہ جانے کہاں کھو گئے مگر مردہ دل زندہ معاشرے کے لئے چند سوال ضرور موجود ہیں۔ یہ کون ہے جو جسموں کے اندر سے لہو نچوڑ رہا ہے؟ یہ کون ہے جو جیتی جاگتی زندگی کو خاموشی کے بستر پر بے حس و حرکت کر دیتا ہے؟ وہ کون ہیں جنہوں نے پھولوں کے سہرے دیرے کو مقتل گاہ بنا دیا ہے؟ کون ہیں جو بچوں سے باپ، بہنوں سے بھائی اور ماوں سے بیٹے چھین رہے ہیں؟ ہر تیسرے چوتھے ایک افتخار حسین قتل کر دیا جاتا ہے اس کی ذمہ داری کس پر عائد ہوگی؟ یہ سوال اتنے مشکل تو نہیں مگر ان کا جواب کون دے گا؟

یہ بھی پڑھئے:  ہدایتِ کامل، ابدی ضابطہ حیات اور اسلامی انقلاب

ڈیرہ شہر کی تقریبا” آبادی سرائیکی اور پختون ہے، مگر انتہائی افسوس کہ سرائیکی دانشور تخت لہور اور بھنبور میں الجھے ہوئے ہیں انہیں فرصت ہو تو ڈیرہ کے مظلوم نظر آئیں۔ دوسری طرف المیہ یہ ہے کہ نقیب محسود کے قتل کے خلاف دھرنہ دینے والے پختون ڈیرہ میں ہونے والی شعیہ کلنگ پہ چپ سادھ لیتے ہیں۔ چیف جسٹس صاحب انصاف کی بھرپور فراہمی کے لئے سو موٹو لیتے رہتے ہیں مگر انہیں بھی ڈیرہ کی مقتل گاہ نظر نہیں آتی۔

شہداء فاؤنڈیشن کی رپورٹ کے مطابق ڈیرہ اسماعیل خان میں 1988ء سے 2013ء تک 195 افراد فرقہ واریت کی بھینٹ چڑھے جب کہ 2013ء سے اب تک یہ تعداد 300 کے قریب ہے مگر پختونخواہ کے حکمران سوشل میڈیائی انقلاب سے فرصت پائیں تو ڈیرہ کے مظلوموں کی طرف نظر کرم فرمائیں۔ مذہبی سیاسی جماعتوں کے لوگ بھی اس سارے ظلم میں خاموش تماشائی ہیں یا پھر اپنی سیاست چمکانے کی حد تک انہیں دلچسپی ہے۔ آتے ہیں اور مقتولوں کی لاشوں کا سودا کر کے یہ جا وہ جا۔ ایک خواہش ہے ایک آرزو ہے کوئی ہو جو مظلوموں کے دکھ کا مداوا کرے اے  کاش کوئی ہوے۔

حالیہ بلاگ پوسٹس