Qalamkar Website Header Image

دلی دل والوں کی

دِلی دل والوں کی غلام عباس سیال کا سفر نامہ ہے۔ غلام عباس کا تعلق ڈیرہ اسماعیل خان سے ہے۔ اس سے پہلے وہ سفرناموں کی تین کتابیں اور ڈیرہ اسماعیل گزیٹیئر کے نام سے تحقیقی کتاب لکھ چکے ہیں۔ اس وقت سڈنی آسٹریلیا میں رہتے ہیں۔ دِلی دل والوں کی ایک سفرنامہ ہے۔ جو غلام عباس سیال کے سڈنی سے دلی تک کے سفر اور وہاں گزرے دنوں کی روداد بیان کرتا ہے۔ سفرنامہ پڑھنے کا شوق ہمیں تارڑ صاحب کے دلچسپ اور چٹ پٹے سفرناموں سے لگا۔ ہمارے ہاں تارڑ کے علاوہ بھی کئی لوگوں نے سفر نامے لکھے۔ ان سفرناموں میں جو چیز بہت زیادہ دیکھنے کو ملی وہ لکھنے والے کا کسی دوسرے دیس میں جا کر ایڈونچرز ہیں۔ جنہیں سفر نامہ لکھتے وقت خاص طور پر بھرپور اہتمام کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے۔ بہت سارے لکھنے والوں پر یہ بھی الزام لگتا رہا ہے کہ انہوں نے گھر بیٹھ کر یا کسی ملک کی کسی ایک جگہ پر جا کر پورے ملک کی تاریخ بیان کی ہے جس میں کسی ناری سے ٹکرا جانے کا واقعہ ڈالنا لزم و ملزوم تھا۔ یہ سفرنامہ اس سارے چٹ پٹے اور ماورائی باتوں سے پاک سفر نامہ ہے۔ جس میں کسی قسم کی ناری کے ساتھ کسی خاص ملاقات کا بالکل بھی تذکرہ نہیں ملتا۔

آٹھ دنوں پر مشتمل یہ سفر نامہ ہمیں دلی جیسے عظیم شہر کی سیر کرواتا ہے۔ کئی ادبی کتابوں میں دلی کا نام سن کر ہمارے ذہنوں میں دلی کی جو تصویر ابھرتی ہے یہ سفرنامہ اس سے ہٹ کر ایک نئی تصویر دکھانے کی کوشش میں کامیاب نظر آتا ہے۔ نظام الدین اولیا کا مزار ہو، اسد اللہ خاں غالب کی اکیڈمی ہو یا گیٹ آف انڈیا، لال قلعہ ہو جہاں غزوہ ہند والوں نے اپنا جھنڈا لہرانا ہے۔ یہ سب دلی کی پہچان مانا جاتا ہے۔ جس کے بارے میں ہم نے کہیں نا کہیں سن یا پڑھ رکھا ہے۔ لیکن یہ سفر نامہ ہمیں ان مشہور مقامات کے علاوہ گورنمنٹ ہائی سکول ڈیرہ اسماعیل خان راجندر نگر، میانوالی نگر اور بوہڑاں والا تھلہ، اندر پوری جیسے علاقوں میں رہنے والے لوگوں کی زندگیوں کے رنگ ڈھنگ دکھاتا ہے۔ بوہڑاں والا کا نام ڈیرہ اسماعیل خان سے لائے گئے بوہڑ کے پودے کی وجہ سے رکھا گیا ہے جبکہ میانوالی نگر میں میانوالی سے ہجرت کر کے گئے ہندو رہتے ہیں۔ کتاب پڑھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے کہ سیر سپاٹے کے ساتھ ساتھ دلی کے علاقوں میں موجود سرائیکی لوگوں سے ملاقات غلام عباس سیال کا اہم مقصد تھا۔ یہ علاقے سرائیکی بیلٹ سے ہجرت کر کے آنے والے ہندووں اور سکھوں پر مشتمل ہیں۔

تقسیم کی دو دھاری تلوار کا شکار ہونے والے سرائیکی بیلٹ کے یہ ہندو اب بھی اپنے پرانے گھروں کو یاد کرتے ہوئے اداس ہو جاتے ہیں اور ان کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگتے ہیں۔ ٹانک، ڈیرہ اسماعیل خان ، بہاولپور اور دیگر سرائیکی علاقوں سے ہجرت کرنے والے لوگ اب بھی دل والوں کی دلی میں اپنی سرائیکی زبان کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر راجکمار، پروفیسر جگدیش بترا، گوپال تنیجا اور منوہر اسیجا جیسے اب بھی اپنی زبان کی خدمت کرتے نظر آتے ہیں۔ بترا صاحب کے پاس سرائیکی ادب و ثقافت پر دوہزار سے زیادہ کتابیں ہیں اور انہوں نے اپنی زندگی سرائیکی زبان کے لیے وقف کر رکھی ہے۔ وہ سرائیکی کو انڈیا کی قومی زبانوں میں شامل کروانے کی تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں۔ پروفیسر بترا کہتے ہیں کہ ” اپنے حق کے لیے لڑنا پڑتا ہے کوئی حق ہتھیلی پر رکھ کر نہیں دیتا بلکہ اس کے لیے جانیں دینا پڑتی ہیں۔ جس طرح ہندوستان میں تیلگو زبان بولنے والوں کو آندھرا پردیش سے الگ کر کے تلنگا صوبہ بنایا گیا، تامل ناڈو اس وقت تامل بولنے والوں کی سرزمین بنا جب انہوں نے اس کے لیے قربانیاں دیں۔ چھتیس گڑھ مدھیا پردیش سے زبان کی بنیاد ہر علیحدہ ہو کر الگ ریاست بنی۔ گجرات جو مہاراشٹر کا حصہ تھا ممبئی سے الگ ہو کر ریاست بنا، پنجاب ہریانہ سے الگ ہوا، اترا کھنڈ اور ہماچل پردیش الگ ریاستیں بنیں۔ اپنی ثقافت اور زبان کے لیے جانیں دے کر ان سب نے اپنی الگ پہچان حاصل کی اور عوامی خواہشات اور لسانی بنیادوں پر تقسیم ہوا یہ ہندوستان کمزور ہونے کی بجائے مضبوط ہوا۔ جدودجہد کے بغیر سرائیکی اپنا علیحدہ صوبہ بھول جائیں اور جدوجہد کے لیے میں بندوق پکڑنے کی نہیں بلکہ بندوق کے سامنے کھڑا ہونے کی ترغیب دوں گا“۔

یہ بھی پڑھئے:  عورت ۔ تبدیلی کا استعارہ

تقسیم کے وقت برداشت کی گئی تکلیفوں کو یاد کرتے یہ بزرگ اداس تو ہوتے ہیں لیکن اپنی اور اپنے پرکھوں کی زمین سے آئے کسی شخص کو دیکھ کر ان کی آنکھوں میں ایک نئی چمک آ جاتی ہے۔ یہ سب لوگ سرائیکی کے علاوہ کسی اور زبان میں نہ بولنے کا تہیہ کر کے محفل سجاتے ہیں۔ تقسیم کے نتیجے میں ہونے والے بٹوارے کو یہ بزرگ انگریز کا شاخسانہ کہتے ہیں جس کے ہاتھوں مقامی مسلمان، سکھ اور ہندو استعمال ہوئے۔ دیوی دیال جی نے اپنے شہر کلاچی میں ہونے والے فساد اور اپنی ہجرت پر بات کرتے ہوئے ایک دلچسپ بات کہی۔ بقول ان کے ”انگریز سرکار سرائیکی علاقوں سے ہندووں کو اس لیے نکال کر ہندوستان بھیجنا چاہتی تھی کیونکہ پشاور سے لے کر ڈیرہ تک کے ہندو نظریاتی طور پر سوشلسٹ تھے اور وہ اس علاقے میں انگریزوں کے کسی کام کے نہیں تھے۔ لہذا انہوں نے ہندووں کو نکال کر یہاں جنگجو قوموں کو بسایا۔ ہجرت کی حشر سامانیوں کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب ایک لمحے کو رک کر آہ بھرتے ہوئے دیوی دیال جی کہتے ہیں کہ ”بچڑا ہجرت بہوں اوکھی ہوندی اے“۔ ایک اور بزرگ منوہر اسیجا کے بقول انگریزوں نے مسلم اکثریتی علاقوں سے ہندووں کو نکالنے کا منصوبہ سنتالیس سے پہلے شروع کر دیا تھا۔ 1926 کو ڈیرہ میں ہندوؤں کے محلوں میں لگنے والی آگ کے پیچھے انگریز سپریٹنڈنٹ مسٹر اینڈرسن کی سازش تھی۔ وہ ہندووں کے محلوں میں منافرت بھرے پوسٹر لگاتا اور ان کی دکانوں میں دھمکیوں بھرے خط پھینکواتا۔ یہ ڈیرہ میں فسادات کی ابتدا تھی۔ دوسرا جھگڑا 1939 میں ہوا جو ایک گائے ذبح کرنے کی وجہ سے شروع ہوا۔ جس کے پیچھے بھی انگریز سرکار تھی۔ اس واقعے نے ہندووں اور مسلمانوں کے درمیان نفرت کو پروان چڑھایا تھا جو اپریل 1947 میں اس وقت سامنے آئی جب ہندوؤں کے گھروں کو آگ لگا کر بھگا دیا تھا۔ یہ لوگ سونی پت، پانی پت، متھرا،جے پور اور ہری دوار جا بسے۔ جھریوں بھرے چہروں، خم کھاتی کمروں اور پوپلے منہ والے بزرگوں کا اپنے آخری وقت میں اپنی جنم بھومی کو یاد کرنا اور دیکھنے کی آس لگانا اس بات کا ثبوت ہے کہ بندہ ایک جگہ سے دوسری جگہ ہجرت تو کر لیتا ہے لیکن اپنے اصل کی یادیں ہر وقت دستک دیتی رہتی ہیں۔

یہ بھی پڑھئے:  وقت اور حالات کا جبر - اکرم شیخ

آگرہ میں موجود تاج محل ایک خوبصورت جگہ ہے۔ تاج محل کی تعمیر بارے سب سے مشہور بات یہ ہے کہ شاہ جہاں نے اسے اپنی بیوی ممتاز بیگم کے لیے بنوایا ہے۔ بشیر الدین خان جو تاج محل کے گائیڈ ہیں انہوں نے بتایا کہ تاج محل بنانے والے استاد عیسیٰ آفندی کی موت پر سوال نما جملہ کسا۔ بقول ان کے عیسیٰ آفندی کا قتل تاج محل کے معمار ہونے کی وجہ سے نہیں ہوا تھا بلکہ اس کی ایک وجہ عیسیٰ آفندی کی جہاں آرا بیگم سے بیس سالہ خاموش محبت تھی۔ تاج محل کے بنانے میں جہاں شاہ جہاں کی محبت تھی وہاں عیسیٰ آفندی کی جنونیت اور زمین کی پرکھ تھی۔ یہ سفر نامہ جہاں ہمیں پرانی دلی کی سیر کراتا ہے وہاں ہمیں تاج محل کے درشن بمعہ مغل تاریخ کرواتا ہے۔

ظاہری طور پر ہمیں دیکھایا جاتا ہے کہ انڈو پاک کے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ نفرت کے رشتے میں بندھے ہوئے ہیں۔ لیکن یہ اصل حقیقت نہیں ہے۔ سرحد کے دونوں جانب اب بھی بے شمار لوگ ہیں جو امن، محبت اور بھائی چارے کی بات کرتے ہیں۔ یہ لوگ حکمرانوں کو کوستے ہیں کہ اگر دونوں ملکوں میں آنے جانے کی اجازت ہو تو لوگوں کی زندگیاں خوشحال ہو سکتی ہیں۔ کاش سرحد کے دونوں جانب نفرت کا بیچ بو کر اپنا رزق کشید کرنے والوں کو ہدایت آ جائے تا کہ یہ نفرت اور غربت کا خاتمہ ہو سکے۔ اس کے لیے ہم سب خواہش ہی کر سکتے ہیں۔ سرمایہ درانہ دنیا میں ایسے سب جزبات رکھنے والوں کو عقل سے عاری اور احمقوں کی دنیا کا باسی سمجھا جاتا ہے۔ سرحد کے دونوں پار جن کا پیٹ نفرت کی بھٹی سے پلتا ہے وہ کیسے امن ہونے دے سکتے ہیں۔

بغیر کسی سنسنی خیزی اور مصالحہ دار واقعات کے ایک سفر نامے کو دلچسپ بنائے رکھنا اس کتاب کی سب سے بڑی خوبصورتی ہے۔ یہ کتاب ہمیں رنگ بھرنگی دنیا ہی نہیں دکھاتی بلکہ ہنستے مسکراتے چہروں کے پیچھے غم سے آشنا کراتی ہے۔ وہ غم جو اپنی اصلیت اپنی شناخت کو کھو جانے پر انسانوں کے اندر در آتا ہے۔ جس سے چھٹکارا پانا مشکل ہوتا ہے بلکہ یہ غم آنے والی نسلوں میں بھی منتقل ہو جاتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے اس خطے کی تقسیم کے بعد والی نسلیں اداس ہیں۔

کتاب درج ذیل مقامات پر دستیاب ہے
۱۔ کاشف رحمان کاشف (قاف پبلی کیشنز، اسلام آباد)،03228330254
۲۔ سیماب گرافکس،مسلم بازار، ڈیرہ اسماعیل خان، 03339981988
۳۔ نیو خاور برادرز، ڈیرہ اسماعیل خان
۴۔ ندیم بک سنٹر، چھوٹا بازار، ڈیرہ اسماعیل خان

دلی دل والوں کی – غلام عباس سیال کے سفر نامے کا سرورق

حالیہ بلاگ پوسٹس