Qalamkar Website Header Image
Syed Badar Saeed

روایتی میڈیا کا زوال اور ڈیجیٹل عہد کی تلخ حقیقتیں

صحافتی دنیا میں گزشتہ روز یہ خبر تیزی سے پھیلی کہ جنگ گروپ نے اچانک اپنا روزنامہ آواز بند کر دیا ہے اور تمام ملازمین کو ملازمت سے نکال دیا ہے۔ یہ نئی خبر نہیں ہے۔ چند سال سے روایتی میڈیا تیزی سے ختم ہو رہا ہے۔ ایک درویش نے نعرہ مستانہ لگایا تھا، گھر سب کے جلیں گے چراغ سب کے بجھیں گے۔ اخبارات تو پہلے ہی ختم ہونے لگے تھے، دس سال پہلے نوائے وقت کا زوال شروع ہو گیا تھا۔ اخبارات میں تیزی سے ملازمتیں ختم ہونے لگیں، ڈاؤن سائزنگ شروع ہوئی، نوائے وقت جیسے ادارے ڈمی ہو گئے، ڈان جیسے اداروں نے سیلری کے لگا دیے۔ اپنے آپ کو تسلی دینی ہو تو الگ بات ہے لیکن سب یہی ہے کہ روایتی میڈیا تیزی سے اپنے اختتام کی جانب گامزن ہے۔

اخبارات کے بعد ٹی وی چینلز بھی ختم ہو رہے ہیں۔ اگلے دو سال میں بہت سے ٹی وی چینلز برائے نام رہ جائیں گے۔ ابھی بھی اکثر ٹی وی چینلز میں آدھے سے بھی کم اسٹاف باقی رہ گیا ہے۔ تمام بڑے پریس کلبز کے ممبران میں سے لگ بھگ آدھے بےروز گار ہو چکے ہیں۔ اداروں میں سینیئر صحافیوں کو نکال کر انٹرنیز سے کام چلایا جا رہا ہے۔ جس نیوز روم میں بیس سے زیادہ صحافی ہوتے تھے وہاں اب دو چار سے کام چل رہا ہے۔ اسی لیے ایڈیٹوریل غلطیاں زیادہ ہونے لگی ہیں۔ ٹیکرز سے لے کر پروڈکشن تک غلطیاں بڑھنے لگی ہیں۔

یہ بھی پڑھئے:  ٹوٹتی امیدیں(۱)-شاہد عباس کاظمی

ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے شعبے کو دنیا بھر کی خبر ہوتی ہے لیکن اپنے ہی اداروں میں ہونے والی وارداتوں کا علم نہیں ہوتا۔ جب اخبارات کا ڈاؤن فال شروع ہوا تب بھی یہ سمجھا جاتا تھا کہ ابھی بہت وقت ہے، ٹی وی جرنلزم معتبر ہو جائے تو پھر جائیں گے۔ اخبارات میں ایک کے بعد ایک صحافی کا گھر جلنے لگا تو دوسرے اس امید پر بیٹھے رہے کہ ہماری باری نہیں آئے گی۔

جنگ گروپ نے بھی پہلی بار ملازمین کو نہیں نکالا، اس سے پہلے بھی ملازمتیں ختم ہوئیں تو حاضر سروس خاموش رہے۔ سچ یہ ہے کہ ان کے بولنے پر بھی کچھ نہیں ہونا تھا۔ صحافتی لیڈرز بھی بند نعرے اور دو چار احتجاج کے سوا کچھ نہیں کر پاتے۔ اس احتجاج سے ملازمین بحال نہیں ہوتے اور ادارے دوبارہ کام نہیں کرتے۔

اب میڈیا ورکرز یہ بات تو کرنے لگے ہیں کہ متبادل روزگار کے طور پر یوٹیوب (YouTube) یا ڈیجیٹل میڈیا (Digital Media) پر آنا چاہیے۔ اکثر کا کہنا ہے کہ روزانہ وہ وی لاگ (Vlog) ہی کر لیں تو کچھ نہ کچھ ہو جائے گا۔ یہ ہماری ایک اور غلط فہمی ہے۔ یوٹیوب (YouTube) پر آنے یا وی لاگ (Vlog) کرنے کا 80 فیصد وقت بھی گزر چکا ہے۔ پہلے سپیس موجود تھی۔ اب سپیس نہ ہونے کے برابر ہے، ستم ظریفی یہ ہوئی کہ ویوز کے چکر میں ہمارے اپنے معتبر صحافیوں نے ڈیجیٹل میڈیا (Digital Media) پر صحافت کو باوقار بنانے کی بجائے بے وقار بنا دیا۔ جھوٹے تجزیے کے بہاؤ میں بہنے اور سیاسی ایجنڈے کی وجہ سے خود تو شاید پیسے کما لیے ہوں لیکن نئے لوگوں کے لیے دروازے بند کر دیے۔ لوگوں کو جو اعتبار تھا وہ بھی ختم ہونے لگا ہے۔

یہ بھی پڑھئے:  اسد حنیف پاکستان کا ابھرتا ستارہ

اب پہلے سے زیادہ محنت کرنی ہو گی۔ خبر کو سنجیدہ خبر کے انداز میں پیش کرنا ہو گا، تجزیہ ذاتی خواہش یا ایجنڈے کی بجائے حقیقی ریسرچ اور سورس کی بنیاد پر پیش کرنا ہو گا۔ انفرادی یوٹیوب (YouTube) کی بجائے گروپ بنا کر چینلز چلانے ہوں گے۔ پانچ سال کی نسبت اب کام زیادہ مشکل ہو گیا ہے لیکن اب بھی قدم نہ اٹھایا تو بالکل ہی آؤٹ ہو جائیں گے۔ اب آرٹیفیشل انٹیلیجنس (Artificial Intelligence) اور یوٹیوب آٹو میشن (YouTube Automation) کا دور شروع ہو چکا ہے۔ یہ کام سیکھنا پڑے گا۔ کمیونیکیشن کے نئے میڈیم اور طریقہ کار کو سمجھنا پڑے گا۔ پہلے یوٹیوب (YouTube) پر میڈیا مالکان یا سیٹھ کی نظر نہیں تھی، اب ان کے سرمایہ کے مقابلے میں اپنی خبریت اور کریایٹیویٹی کے ساتھ مقابلہ کرنا ہو گا۔

آپ یوٹیوب (YouTube) پر وی لاگ (Vlog) ضرور کریں لیکن گھر چلانے کے لیے اس سے اگلی منزل یعنی آرٹیفیشل انٹیلیجنس برائے کمیونیکیشن (Artificial Intelligence for Communication) پر بھی توجہ دیں۔ سب سے اہم یہ ہے کہ موجودہ حالات میں صحافت کے ساتھ ساتھ متبادل روزگار پر کام کرنا بہت ضروری ہے۔ صحافی کی خودکشی سے کہیں بہتر ہے کہ وہ متبادل روزگار کما لے۔

Views All Time
Views All Time
75
Views Today
Views Today
2

حالیہ بلاگ پوسٹس