آجکل وباء کا دور دورہ ہے۔ ہر دانگ خاموشی اور ویرانی کا عفریت منہ کھولے رونقوں اور خوشیوں کو نگلنے پر تیار ہے۔ گھروں میں قید افراد جہاں اپنی روز مرہ کی مصروفیت کی موقوفیت کے باعث چڑچڑے اور بدمزاج ہو رہے ہیں وہیں ملک بھر میں قائم درجنوں قرنطینہ سینٹروں میں موجود ہزاروں لوگ حبس، گھٹن اور خوف کے سایوں میں سانسیں اور گھڑیاں گن رہے ہیں۔ کرونا کی وباء سے بڑا اس کا خوف ہے اور اس خوف کے زیر اثر ہزاروں افراد سسک رہے ہیں۔ ایسے میں کیا کیا جائے کہ یہ گھٹن اور جمود کی کیفیت ٹوٹے؟
دنیا کے مختلف خطوں میں رہنے والے لوگوں نے اس خوف کو پچھاڑنے کا ایک اجتماعی طریقہ دریافت کیا ہے جو رقص ہے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ
فکر دنیا سے منقطع ہو کر
آؤ بارش میں رقص کرتے ہیں
یہاں بارش میں تو نہیں ہاں البتہ وباء کے اس عالم میں کہیں کچھ پولیس والے لاک ڈاؤن میں پیٹرولنگ کے دوران گلیوں میں ناچتے گاتے دکھائی دیتے ہی تو کہیں بچے چوراہوں پر نغمے گاتے سنائی دیتے ہیں۔ ایسے میں وسیبی ڈاکٹروں نے بھی "اپنی” جھمر اور ڈھول سے کرونا کو للکارا ہے۔ گزشتہ کچھ دنوں سے مظفر گڑھ کے ڈی ایچ کیو ہسپتال کی کچھ ویڈیوز گردش میں ہیں کہ جن میں وہاں کے ڈاکٹرز حفاظتی کٹوں میں ملبوس کرونا کے مریضوں کے ساتھ ناچتے جھومتے دیکھائی دیتے ہیں۔
میں نے گزشتہ دنوں ایک انگریزی فلم دیکھی تھی جس میں عالمی جنگ کے دوران ایک ایسی جرمن خاتون کو دیکھایا گیا ہے کہ جو ہٹلر کے نازی سپاہیوں کی خونریزی سے یہودی شہریوں کو بچانے کے عوض سرعام قتل کر دی جاتی ہے۔ وہ عورت مرنے سے قبل اپنے کم عمر بیٹے کو کہتی ہے کہ اگر جنگ کے اختتام پر وہ زندہ رہی اور جنگ کے خوف سے آزاد فضاء میں سانس لے سکی تو وہ سب سے پہلے رقص کرے گی کیوں کہ رقص آزاد لوگ کیا کرتے ہیں۔۔ پھر جب جنگ ختم ہوتی ہے تو وہ لڑکا گلیوں میں رقص کرتا ہے۔
مجھے اوشو کا کہا بھی یاد آ رہا ہے کہ جس نے کہا تھا کہ جب تم کہیں چند لوگوں کو رقص کرتے ہوئے دیکھتے ہو تو دفعتاً تمہارے پاؤں بھی رقص پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ ممکن ہے کہ تم ان پر ضبط کرنے کی کوشش کرو کیونکہ ضبط کرنا، قابو کرنا، تمہیں سکھایا گیا ہے، لیکن تمہارا جسم رقص میں شامل ہونے کا ضرور خواہاں ہوگا۔ تو ایسے میں تم اپنے جسم کو آزاد چھوڑ دینا۔۔ جب کبھی تمہیں ہنسنے کا موقع ملے تو ہنسنا، جب کبھی تمہیں رقص کرنے کا موقع ملے تو رقص کرنا اور جب کبھی تمہیں گانے کا موقع ملے تو ضرور گانا اور اگر تم ایسا کرو گے تو ایک دن تم پاؤ گے کہ تم اپنی جنت خود تخلیق کر چکے گے۔
ڈی ایچ کیو کے ان ڈاکٹروں اور مریضوں کو رقص کرتا دیکھ میں بھی رقص کر رہا ہوں کیوں کہ ان کا رقص کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اس وباء کے خوف سے آزاد ہو چکے ہیں۔ اب وہ وقت دور نہیں کہ جب یہ وباء بھی ماضی کا حصہ بن جائے گی اور ہم اپنی آنے والی نسلوں کو رقص کرتے ہوئے بتائیں گے کہ کسی بھی دوا سے قبل ہم نے اس مہلک وباء کو رقص سے شکست دی۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn