سوشل میڈیا پر کورونا وائرس کو لے کر طنز و مزاح بھی چل رہا ہے اور اس درمیان بہت سی سنجیدہ باتیں بھی لکھی جا رہی ہیں۔ ہمارہ معاشرہ حد سے زیادہ جذباتی ہے۔ کوئی بات لکھی نہیں یا کوئی تجویز آئی نہیں کہ ایک طبقے کے جذبات ابل پڑتے ہیں۔ ہمیں چین سے طالب علموں کی واپسی کے معاملے پر بھی دو طرفہ جذباتی باتیں دیکھنے کو ملیں ۔ ایک طرف احباب تھے جو اس خدشے کے پیشِ نظر کہ چین میں موجود طالب علم خدانخواستہ وائرس کا شکار ہوں اور واپس آ کر دوسرے لوگوں میں وائرس پھیلانے کا سبب نہ بن جائیں انہیں وہیں رکھا جائے۔ دوسری طرف وہ احباب تھے جن کا اسرار تھا کہ ہمارے بچے ہیں ہم انہیں وہاں مرنے کے لیے کیوں چھوڑ دیں۔ انہیں ہر حال میں واپس لانا چاہیے اور حکومت کو چاہیے کہ مناسب سکریننگ کرے اور انہیں اگر علاج کی ضرورت ہو تو مناسب علاج کرے اور گھروں میں بھیجے۔
چین کے بعد جب ایران اس وبائی مرض کا شکار ہوا تو خدشات بڑھ گئے کہ اب کورونا وائرس پاکستان بھر میں پھیل سکتا ہے اگر حکومت نے اقدامات نہ کیے۔ اہل تشیع مقاماتِ مقدسہ کی زیارات کے لیے پورا سال ایران ، عراق اور شام جاتے رہتے ہیں۔ ایران سے آنے والے زائرین میں اس وائرس کا پایا جانا ناممکنات میں سے نہ تھا۔ حکومت نے زائرین کو تفتان بارڈر پر قرنطینہ میں روکا لیکن جس طریقے سے روکا وہ کورونا وائرس کی روک کی بجائے وائرس کو مزید پھیلانے کا سبب بنا۔ نہ صرف وائرس پھیلا بلکہ ایک طبقے کو مسلکی منافرت پھیلانے کا بھی خوب موقع ملا۔ سوشل میڈیا پر جابجا ایران کی آڑ میں اہل تشیع کو طنز و تضحیک کا نشانہ بنایا گیا۔ حکومت نے نہ صرف زائرین کے معاملے میں سستی دیکھائی بلکہ ائیرپورٹ کے ذریعے زائرین سے کہیں زیادہ تعداد میں داخل ہونے والے لوگوں کی طرف بھی خاص توجہ نہ دی۔ پچھلے دو ماہ میں تقریباََ پچاس ہزار کے قریب لوگ ہوائی سفر کے ذریعے پاکستان پہنچے۔ ان میں 7 ہزار سے زائد لوگ غیر ملکی تھے۔ ان تمام مسافروں کی مکمل سکریننگ نہ کی گئی۔ بہت سے ایسے بھی تھے جن کو بعد میں حکومتی اداروں نے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو ان سے رابطہ ہی نہ ہوسکا۔
پی ایس ایل کے جاری میچز کو کورونا کے خطرے کے پیشِ نظر بند دروازوں کے پیچھے خالی اسٹیڈیم میں منعقد کرنے کا فیصلہ سندھ حکومت نے لیا۔ کورونا کے خلاف سب سے پہلے عملی اقدامات سندھ حکومت کی طرف سے دیکھنے میں آئے۔ جب تک پی ایس ایل کو ملتوی نہ کیا گیا کورونا کے کیسز میڈیا میں اس قدر رپورٹ ہی نہ ہوئے جس قدر ہسپتالوں میں مریض موجود تھے۔ جس وقت لاہور میں ایک مریض کی نشاندہی میڈیا پر ہو رہی تھی اس وقت فقط لاہور کے دو ہسپتالوں میں جب میں نے اپنے ڈاکٹر دوستوں کے ذریعے معلوم کیا تو سات مریضوں کی اطلاع ملی۔ پی ایس ایل کی منسوخی کے بعد تعداد میں اچانک اضافہ رپورٹ ہونا شروع ہوگیا۔
کیونکہ ابھی تک کورونا کی ویکسین تیار نہیں ہو سکی تو مختلف احتیاطی تدابیر عوام کے لیے نشر کی جارہی ہیں۔ سندھ حکومت نے سکولوں میں چھٹیاں دے دیں اور اگلے مرحلے میں وفاقی حکومت بھی ہوش میں آئی اور انہوں نے بھی سکول بند کردیے۔ صورتحال کی سنگینی روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔ لیکن اس پوری صورتحال میں پاکستانی عوام سنجیدہ ہونے کے لیے تیار نہیں۔ بار بار کہا جارہا ہے کہ میل جول سے پرہیز کیجیے۔ دوسروں سے ایک مناسب فاصلہ رکھیں ، ہاتھ نہ ملائیں اور گلے بھی نہ ملیں۔ اجتماعات سے منع کیا جارہا ہے۔ یہاں تک کے شادی ہالز بند کر دیے گئے۔ لیکن لوگ ہیں کہ بات ماننے کو تیار ہی نہیں۔ سکولوں میں چھٹیاں کیا ہوئیں لوگوں نے سیروتفریح پر زور دے دیا۔ فیس بک پر ہی کسی نیوز ویب سائٹ کی رپورٹ پڑھی جس میں سی ویو کی تصویر تھی جہاں لوگوں کا جمِ غفیر تھا۔ شاپنگ مالز میں رش میں کوئی زیادہ فرق نہیں پڑا۔
سب سے زیادہ جذباتی ہمارا مذہبی طبقہ ہوا پڑا ہے۔ دنیا بھر کے مسلم ممالک میں جہاں کورونا وائرس موجود ہے نمازوں کو گھروں میں پڑھنے کی تلقین کی جارہی ہے اور جمعہ کے اجتماعات بھی کینسل کیے گئے ہیں۔ لیکن پاکستانی مسلمان کچھ اس قدر اللہ پر توکل کے قائل ہیں کہ شور ڈال دیا کہ مسجدیں آباد کریں اور جمعہ بھی زور و شور سے پڑھیں۔ موت تو جب آنی ہے آ کر رہنی ہے والا بیانیہ دہرا دیا جاتا ہے۔اللہ پر توکل ٹھیک ہے لیکن احتیاطی تدابیر کرنا پہلے لازم ہے۔ آج جمعہ ہے۔ نماز جمعہ ادا ہو چکی۔آپ نے مشاہدہ کر ہی لیا ہوگا کہ کس طرح جمعہ کے لیے حکومتی اپیلوں کو مسترد کرتے ہوئے لوگ شریک ہوئے۔ کل شام مغرب کی نماز کے وقت ایک مسجد کے قریب تھا تو مسجد نمازیوں سے بھری ہوئی تھی۔
ہسپتالوں میں کام کرنے والے ڈاکٹرز نے بنا حفاظتی کٹس کام کرنے سے انکار کر دیا۔ اس پر بھی ہمارا ایک جذباتی طبقہ طعنوں کے تیر لیے میدان میں اتر آیا ہے۔ شاید اس میں کچھ عمل دخل ینگ ڈاکٹرز کی وقتاََ فوقتاََ ہڑتالوں کو بھی ہے ۔ لوگ سمجھ رہے ہیں ہر اہم موقعے پر ڈاکٹر ہڑتال کر کے جان چھڑاتے ہیں۔ لیکن اس مرحلے پر ڈاکٹرز درست احتجاج کر رہے ہیں۔ کورونا وائرس جو فقط چھو لینے سے ایک سے دوسرے بنے کو منتقل ہو جاتا ہے ایسے میں ڈاکٹرز کوئی انسانوں سے الگ مخلوق ہیں کہ انہیں یہ وائرس منتقل نہیں ہوگا؟ ڈاکٹرز کا تحفظ یقینی بنانا حکومت کی اولین ذمہ داری ہے۔ انہیں کورونا کے مریضوں کے ٹریٹمنٹ کرنے کے لیے مناسب سازو سامان جنگی بنیادوں پر مہیا کرنا ہوگا۔ جذباتی بریگیڈ سے بھی گزارش ہے کہ ہاتھ ہولا رکھیں۔ ڈاکٹرز بھی انسان ہیں۔ اس وبائی مرض میں اگر انہوں نے بنا حفاظتی کٹس کے کام کرنے سے انکار کیا ہے تو دانشمندی کا فیصلہ ہے۔ ایک کورونا ٹیسٹ پازیٹو آنے والے مریض کو دیکھنے کے بعد کیا گارنٹی ہے کہ ڈاکٹر اس وائرس سے متاثر نہیں ہوگا؟ اور یہی وائرس اگلے کسی مریض کو منتقل کر کے وائرس کے پھیلاؤ کا سبب نہیں بنے گا؟ کسی نیوز چینل کے سکرین شاٹس نظر سے گزرے جہاں لکھا تھا ڈاکٹرز نے علاج کرنے سے انکار کر دیا ایسے میں آرمی کے ڈاکٹرز میدان میں قوم کی خدمت کے لیے آگئے۔ اس کو بنیاد بنا کر ایک طبقے نے بندوقیں کس لیں کہ دیکھا مشکل میں آرمی ہی کام آتی ہے۔ بھئی پاکستان کی آرمی کیا مریخ کی خدمت کے لیے ہے؟ ملک میں آفت آئی ہو تو کیا آرمی کو بلایا نہیں جاسکتا؟ دوسرا اگر آرمی کے ڈاکٹرز کو بھی بنا حفاظتی کٹس فراہم کیے علاج پر لگا دیا جاتا ہے تو یہ کوئی دانشمندی نہیں ۔ وہ بھی انسان ہیں اور انہیں بھی حفاظت کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر چاہے آرمی کا ہو یا سویلین، قوم کا سرمایہ ہیں۔ بلاشبہ انہوں نے ہی اس آفت کے دوران آپ کی خدمت کرنی ہے۔ جذبات کو قابو میں رکھیے اور کام کو پروفیشنل انداز میں چلنے دیجیے۔
سوشل میڈیا پر ہمارے دوست عبدالقادر غوری نے ایک اہم نکتہ اٹھایا ہے۔ ہنگامی صورت حال ہے اور ایسے میں کہیں بھی زیادہ بندوں کا جمع ہونا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ لوگوں نے شادیاں تک کینسل کی ہیں۔ ایسے میں وزراء اور سیاسی رہنماؤں نے پریس کانفرنس کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ حکومت و اپوزیشن کے اراکان کو ملا کر کل چھ پریس کانفرنس ہوئیں ۔ حکومت کی طرف سے 4 سے زائد افراد کے مجمع پر پابندی ہے۔ لیکن پریس کانفرنس کرنے کے لیے مجمع اکٹھا کیا جارہا ہے۔ میڈیا ورکرز تو مالکان کے ہاتھوں مجبور ہیں کہ روزی روٹی کمانی ہے لازماََ جانا پڑتا ہے۔ ایسے میں ہمارے سیاسی رہنماؤں کو ہوش کے ناخن لینے ہوں گے اور پریس کانفرنسز کا شوق ہنگامی حالات کے بعد تک ملتوی کرنا ہوگا۔ اگر بہت ہی زیادہ شوق ہو رہا ہو تو جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے بنا مجمع لگائے پریس کانفرنس کر لیں۔ سرکاری ٹی وی کے ذریعے بھی پریس کانفرنس کی جاسکتی ہے۔
عوام کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ بھیڑ لگانے سے گریز کریں۔ غیر ضروری سفر بھی نہ کریں۔ کوشش کریں گھر میں ہی رہیں۔ دفاتر جانے والے حضرات بھی احتیاطی تدابیر لازمی اپنائیں۔ بچوں کی چھٹیوں کو نانی دادی کے گھر گزارنے کی بجائے گھر میں گزاریں۔ صفائی کا خاص خیال رکھیں۔ سوشل میڈیا پر مزاح بے شک جاری رکھیں کہ زندہ دلی کو ثبوت دیا جا رہا ہے لیکن سوشل میڈیا سے باہر اس وبا کے حوالے سے سنجیدہ ہو جائیے۔ مزاح کے ساتھ ساتھ اگر آگاہی پھیلانے میں بھی اپنا حصہ ڈالیں گے تو یہ انسانیت کی خدمت ہو گی۔ یہ وبا دنیا بھر میں جتنی تباہی پھیلا رہی ہے اسے دیکھ کر ہی عبرت پکڑ لیجیے۔ حکومت اور ڈاکٹرز کی طرف سے دی گی آگاہی پر عمل پیرا ہوں۔ اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی محفوظ رکھنے کی کوشش کریں۔ اس معاملے میں جذباتی ہونے کی قطعاََ ضرورت نہیں ہے۔ یہ وبا سوشل میڈیا مذاق کے برعکس انتہائی بھیانک ہے اس کا ادراک کیجیے۔
پیشے کے لحاظ سے اکاؤنٹنٹ ہیں۔ لکھنے کا شوق ہے ۔ دوستی کرنا ان کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ سوشل ویب سائٹس سے کافی اچھے دوست بنائے جنہیں اپنی زندگی کا سرمایہ کہتے ہیں۔ قلم کار ان کا خواب ہے اور اس خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لیے انہوں نےبہت محنت کی ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn