Qalamkar Website Header Image

ضمیر فروش!

muhammad ramzanکراچی کے سابق ناظم مصطفی کمال نے کمال کر کے کہا ہے کہ ضمیر کی آواز پر پاکستان واپس آیا ہوں کبھی ہم نے اپنے ضمیرکی آواز سنی ہے کیا ہمارا ضمیر زندہ ہے کبھی جنجھورا ہے ہیں ؟ ہمارا ضمیر مردہ ہو چکا ہے ہم لوگ علاقہ کے پٹواری یا تھانیدار کا گھوڑا مر جائے تو افسوس کرنے جاتے ہیں لیکن ہمسایہ کئی دن بستر مرگ پر رہا اس کے لیے وقت نہیں تھا۔ ہر سال لاکھوں روپے خرچ کر کے عمرہ ،حج کرنے جاتے ہیں ایک قریبی عزیز کی بیٹی کے لیے جہیز کی رقم نہیں دیتے۔ رمضان شریف میں ہزاروں روپے خرچ کرتے ہوئے افطاری کراتے ہیں اپنے پاس کام کرنے والے مزدور کو 300 روپے روزانہ سے 50 روپے اضافہ نہیں کرتے رمضان شریف میں زکوٰۃ کے لیے جو کچھ کرتے ہیں بس وہ رہنے دو۔ موبائل فون سے ایڈونس کی صورت میں سود لیتے بھی ہیں دیتے بھی۔ مٹھائی کے طور پر رشوت بھی لیتے ہیں پھر بھی مسلم ہیں ۔
علاقہ کا یونین چیرمین یا MPA آجائے تو تین تین کھانے بنا دیتے ہیں کسی یتیم بچے کے لیے ایک روٹی نہیں دیتے۔ سکول کالج میں موجود معلم سرکاری وقت میں اخبار لازمی پڑھتا ہے جب کہ اسی ادارے کے طالب علم کو اپنی اکیڈمی میں پوری ایمانداری سے سبق دیتا ہے۔ ہمارا معالج جو کہ مسیحاکہلاتا ہیں ہسپتال میں اللہ کی عبادت نماز ضرور پڑھتا ہے جبکہ ایک مریض اس عبادت کی وجہ سے اللہ کو پیارا ہو جاتا ہے کلینک کی بات رہنے دو۔ شوگر ملوں ٹیکسٹائل یونٹوں میں مالکان کڑوروں روپے خرچ کر کے اللہ کا گھر مسجد ضرور بناتے ہیں لیکن اسی مل میں کام کرنے والے اللہ کی مخلوق کی مزدوری(تنخواۃ) 2000 روپے کم دیتے ہیں۔ 20,25کلو میٹر کا سفر کر کے MNA,MPA کے کسی عزیز کی وفات پر اظہار افسوس کرنے ضرور جاتے ہیں لیکن محلہ دار کے جنازہ میں جانے کا وقت نہیں ہے۔ دینی استاد ہمارئے بچوں کو سارا دن اللہ پاک رازق ہے کا درس دیتے ہیں ہے شام کو ان طالب علموں کو محلہ سے کھانہ مانگنے بھجتے ہیں ۔ ہم مسلمان اکثرغیر مسلم ممالک کو اسلام کا دشمن کہتے ہی جبکہ ہمارئے حکمران انہیں ملکوں سے ملنے والی بھیک(قرض) سے نظام حکومت چلاتے ہیں ۔امریکہ دشمن ہے جبکہ چین ہمار ا دوست دونوں غیر مسلم ملک ہیں۔کب تک ہم ضمیر فروش رہیں گے ؟جب تک یہ غلامی کی سوچ نہیں بدلے گی تبدیلی کا خواب صرف خواب ہی رہے گا۔

حالیہ بلاگ پوسٹس