Qalamkar Website Header Image

سندھ دھرتی کا مردِ آزاد کامریڈ جام ساقی

کامریڈ جام ساقی کا سفر حیات تمام ہوا۔زندگی بھر زمین زادوں کے حقوق، شرف انسانی کے بڑھاوے اور سیکولر نظام حکومت کے لئے جدوجہد کرنے والے سندھ واسی نے جو درست سمجھا اس پر ثابت قدمی کے ساتھ ڈٹے رہے اور جو غلط جانا اس کی کھل کر مخالفت کی،31اکتوبر 1944ء کو چھاچھرو ضلع تھرپارکر کے گاؤں جنجی سیف اللّہ میں جنم لینے والے جام ساقی 77سال سے کچھ اوپر جئے۔ ان کے زمانہ طالب علمی کا مشہور واقعہ یہ ہے کہ ’’فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور میں کمیونسٹوں پر ریاستی عذاب ٹوٹا تو وہ رسول بخش پلیجو کے ہمراہ حیدرآباد کی ایک کھولی نما کمرے میں روپوش ہوگئے۔ دوستوں سے رابطے اور سامان ضروریات پلیجو سائیں کی ذمہ داری تھی ایک دن پولیس نے چند مفرور کمیونسٹوں کی گرفتاری کے لئے سلاوٹ پاڑہ حیدرآباد میں گھر گھر تلاشی مہم شروع کردی اس تلاشی کی زد میں یہ کھولی بھی آئی جس میں دونوں چھپے ہوئے تھے پولیس اندر داخل ہوئی۔ دونوں نوجوانوں کو غور سے دیکھا بستروں کے سرہانے کی طرف رکھی کتابوں اور رسائل کا ’’بغور‘‘ جائزہ لیا۔ پھر ایک سب انسپکٹر نے پوچھا۔ ارے تم کمیونسٹ تو نہیں ہو؟ جام ساقی جواب دینے ہی والے تھے کہ رسول بخش پلیجو بولے نہیں سائیں ہم اینٹی کمیونسٹ ہیں۔ سب انسپکٹر نے سپاہی سے کہا بابا لگاؤ ہتھکڑیاں ان لونڈوں کو کیمونسٹ تو ہیں چاہے اینٹی کیمونسٹ ہوں‘‘۔

بعد کے برسوں میں یہ واقعہ بہت مشہور ہوا نوجوان سندھی کامریڈ ایک دوسرے سے پوچھتے ۔ارے تم کمیونسٹ ہو؟ جواب آتا نہیں میں اینٹی کمیونسٹ ہوں ۔پھر مشترکہ قہقہ بلند ہوتا ۔کامریڈ جام ساقی کو طالب علم رہنما کے طور پر پہلے پہل شہرت ون یونٹ کے خلاف چلی تحریک کے دوران حاصل ہوئی اس تحریک میں مغربی پاکستان (موجودہ پاکستان) کے سندھ والے حصے کے نوجوانوں ، طلباء اور سیاسی کارکنوں نے سب سے زیادہ قربانیاں دیں۔ جوانی کے چند ماہ وسال جام ساقی۔ مرشد جی ایم سید کے افکار سے متاثر ہوئے مگر جلد ہی کیمونسٹ پارٹی میں چلے گئے۔ کیمونسٹ پارٹی نے انہیں سندھی طلباء کی تنظیم بنانے کی ذمہ داری سونپی 1967ء کے آخری تین ماہ کے دوران انہوں نے سندھ بھر کا طوفانی دورہ کیا پھر 1968ء میں سندھ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن (ایس این ایس ایف)کا قیام عمل میں آیا۔ ڈاکٹر نذیر ، نوازبٹ، نذیر عباسی عباسی کامریڈ کے ہونہار شاگردوں میں شمار ہوتے تھے۔آج کی سندھی صحافت کے بڑے نام جبار خٹک بھی ان خوش نصیبوں میں سے ہیں جنہیں ان کی شفقت حاصل رہی۔ جام ساقی پاکستانی ترقی پسندوں کے چندے مہتاب تھے ایوب، یحییٰ، ضیاء الحق اور پرویز مشرف چار فوجی آمر یتوں کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔ جنرل یحییٰ خان کے دور میں ان کی غیر حاضری میں خصوصی فوجی عدالت میں بغاوت کامقدمہ چلایا گیا۔جنرل ضیاء الحق کے دور میں خصوصی عدالت میں چلنے والے بغاوت و غداری کے مقدمے میں انہوں نے صفائی کے گواہان کے طور پر عدالت میں جو فہرست جمع کروائی اس میں محترمہ بے نظیر بھٹو بھی شامل تھیں۔ بینظیر بھٹو کو غالباً سکھر جیل سے حیدر آباد کی فوجی عدالت میں پیش ہونے کے لئے لایا گیا انہوں نے اس موقع پر ایک تاریخی بیان بھی دیا۔

یہ بھی پڑھئے:  غالب ثنائے خواجہؐ بہ یزداں گذاشتیم

سندھ کے عام کاشتکار گھرانے میں جنم لینے والے جام ساقی وسیع المطالعہ اور نڈر شخص کی شہرت رکھتے تھے ایوبی آمریت کے دنوں میں ڈی سی حیدر آباد کی عدالت میں پیشی کے دوران انہوں نے ڈپٹی کمشنر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا’’کیا ہی اچھا ہوتا کہ تم سندھ کے چہرے پر کالک ملنے کی بجائے ہمارے ساتھ ہتھکڑیاں پہن کر کھڑے ہوتے‘‘۔ کیمونسٹ پارٹی سندھ کے مختلف عہدوں سے ہوتے ہوئے وہ پاکستان کیمونسٹ پارٹی کے سیکرٹری جنرل کے عہدے تک پہنچے۔ جنرل یحییٰ خان کی فوجی حکومت نے انہیں غدار مفرور اور بھارتی ایجنٹ قرار دیا تو انہوں نے بی بی سی کو خفیہ مقام پر دیئے گئے انٹرویومیں کہا۔’’کیا زمانہ آگیا ہے کہ حملہ آوروں کی اولاد ہزاروں برس سے نسل در نسل اپنی دھرتی پر مقیم ایک سندھ واسی کو غدار اور بھارت کا ایجنٹ کہہ رہی ہے۔ جام ساقی سندھو وادی کا فرزند ہے مجھے کسی سے حب الوطنی کی سند لینے کی ضرورت نہیں‘‘۔زندگی کا طویل حصہ قید و بند میں بسر کرنے والے جام ساقی کو ان کی پر عزم جدوجہد اور طویل قید کی بدولت پاکستانی نیلسن منڈیلہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ 1990ء کی دہائی میں وہ بے نظیر بھٹو دعوت پر پیپلزپارٹی میں شامل ہوئے بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت (1993-96 ء)کے دوران انہیں وزیراعلیٰ سندھ کا مشیر بھی بنایا گیا وزیراعلیٰ کے مشیر کے طور پر وہ دوران سفر اپنی سرکاری گاڑی میں اکثر پیدل چلنے والوں کو سوار کرالیتے ان کا عملہ انہیں کہتا کہ سر یہ پروٹوکول کے منافی ہے تو وہ کہتے۔’’بابا کل جب گاڑی نہیں ہوگی تو مجھے ان لوگوں کے ساتھ پیدل چلتے ہوئے شرم نہیں آئے گی کیونکہ آج انہیں اپنے ساتھ بیٹھاتے ہوئے بھی شرم نہیں آرہی‘‘۔ سندھ دھرتی کے اس با کمال فرزند نے دھرتی واسیوں کے حقوق کی جدوجہد میں کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا فوجی حکومتیں ہوں یا لولی لنگڑی سول حکومتیں وہ ثابت قدم رہے یہاں تک کہ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کی بعض پالیسیوں کے خلاف بھی انہوں نے مضبوط موقف کا اظہار کیا ان برسوں میں بھی انہوں نے قید و بند کو خوش دلی سے قبول کیا۔ 1960۔1970اور پھر 1980ء تین دہائیوں تک سندھ وادی کے طلباء محنت کشوں اور ہاریوں کا محبوب ترین نعرہ ’’ تنجھو ساتھی منجھو ساتھی جام ساقی جام ساقی‘‘ رہا۔ وہ قیام پاکستان کے بعد کے سندھیوں کی دوسری اور تیسری نسل کے نوجوانوں کے ہیرو تھے۔

یہ بھی پڑھئے:  بجلی کے بھاری بل: خدایا یہ تیرے بندے کدھر جائیں

بلاشبہ وہ ہیرو ہی تھے ان دہائیوں کا سندھ دائیں بائیں اور قوم پرستوں کی تقسیم سے بالا تر ہو کر ان سے محبت کرتا تھا انہوں نے بھی سندھ کی محبت کا قرض اتار نے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔زمین زادہ ہونے کا حق ادا کرتے ہوئے جو رنج و الم اور عذاب ان کا مقدر ہوئے ان پر انہوں نے کبھی شکوہ نہیں کیا۔ یاد پڑتا ہے ایک بار انہوں نے کہا تھا’’ایک ترقی پسند وہ ہو سکتا ہے جو ذات کے تعصب سے باہر نکل کر انسانیت کی فلاح و بہبود اور نچلے طبقات کو سماج میں مساوی حقوق دلوانے کے لئے جدوجہد کرئے‘‘۔ کامریڈ جام ساقی اب ہمارے درمیان نہیں رہے دنیائے سرائے میں 77سال سے کچھ اوپر جی کر وہ اپنی دھرتی ماں کی گود میں لمبی نیند سونے کے مرحلے (آخری رسومات)انہوں نے طے کرنے ہیں۔ ان کا سانحہ ارتحال اس ملک کے ان طبقات کے لئے ناقابل تلافی نقصان ہے جو اس ملک کو ایک حقیقی فلاحی اور ترقی پسند ریاست بنانے کی سوچ رکھتے ہیں۔ جام ساقی تعصبات و تنگ نظری اور تکیفریت کے شدید ناقد رہے۔ انہوں نے 1990ء کی دہائی میں سندھ کے لوگوں کو خبر دار کرتے ہوئے کہا تھا ’’اپنے بچوں کو بھیکاری اور مذہبی ہتھیار بنانے کی بجائے اچھا سندھی اور اچھا انسان بناؤ تا کہ سندھ کا چہرہ مسخ نہ ہونے پائے‘‘۔ وہ ہمیشہ اس بات پر شاکی رہے کہ سندھ کے جن طبقات کے پاس وسائل کی فراوانی ہے وہ اپنے ہی دھرتی زادوں کو بہتر مستقبل دینے کے لئے حصہ ڈالنے سے گریز پا ہیں۔ سندھ دھرتی کا مرد آزاد کامریڈ جام ساقی رخصت ہوا۔ اب ان کی یادیں ہیں اور جدوجہد کی داستان جو آئندہ نسلوں کا لہو گرمائے گی۔

یہ بھی پڑھئے:  اڑانوں کے موسم
 یو این این
Views All Time
Views All Time
353
Views Today
Views Today
1

حالیہ پوسٹس