Qalamkar Website Header Image

پورا مرد

mukamal mardاسے پورا مرد درکار تھا اور مجھے پوری عورت اور ہم دونوں یہ تلاش ایسے ماحول میں کررہے تھے جہاں پورے انسان ملنے کی بات تو عنقا ہو گئی تھی ،اب کسی مرد کو پوری عورت نہیں ملتی تھی اور کسی عورت کو پورا مرد نہیں ملتا تھا-
تم نے اسے کیوں چھوڑ دیا ؟ کیا بستر پہ تجھے سرشار نہیں کرپاتا تھا ؟
میں نے اس سے پوچھا تو کہنے لگی
He was compatible fully in bed but his incompatibility returns outside room and in our social life.
میں اس کی بات پہ تھوڑا حیران ہوا- کیونکہ میں نے تو عمومی ایسی ہی عورتیں دیکھی تھیں جن کو اپنے مردوں سے بستر پہ پرجوش نہ ہونے کی شکایت ہوتی تھی اور اس بنیاد پہ جو عورتیں ذرا جرآت والی ہوتیں وہ ایسے سست مردوں کو خدا حافظ کہہ ڈالتی تھیں اور جن کو حالات اجازت نہ دیتے وہ اس سستی کا ازالہ دوسرے مردوں کے ساتھ ملکر دور کرنے کی کوشش کرتی تھیں –
تم کیوں دوسری عورت کی تلاش میں ہو ؟ اس نے مجھے کسی سوچ میں گم دیکھا تو جھٹ سے سوال کربیٹھی
مرے نزدیک ساتھ اور تعلق الگ الگ مرحلوں میں بٹی ہوئی چيز نہیں بلکہ یہ آدمی کی پوری زندگی پہ محیط شئے کا نام ہے اور مجھے ایسے ساتھی کی تلاش ہے جو مری ذہنی سطح پہ ملے اور اس کا جسم اور روح الگ الگ کہیں اور نہ پھر رہے ہوں-
تو پہلی کو چھوڑ کیوں نہیں دیتے ؟ اس نے پوچھا
اس لئے کہ اب اس کے پیر میں اتنی زنجیریں ہیں کہ اگر میں چھوڑوں تو وہ کہیں کی نہیں رہے گی –ہاں یہ ہے کہ میں بہت سی زمہ داریوں سے فرار کا مرتکب ٹھہر جاؤں گا –
میں نے اسے رسانیت سے بتایا –
وہ مجھے کہاں ملی تھی – یہ بھی ایک دلچسپ کہانی ہے- میں میر پور کشمیر سے کھڑی شریف حضرت میاں محمد بخش کے مزار کی سیڑھیاں چڑھ رہا تھا جب کہ مری خالہ بھی مرے ساتھ تھیں تو ایک دم سے کالے رنگ کی قمیص اور سفید شلوار پہنے ایک لڑکی مرے سامنے سے گزری اور اس کی دو بڑی بڑی ، روشن ہرنوں جیسی آنکھیں دیکھ کر جیسے میں سانس لینا بھول گیااور مری آنکھ جیسے اس پہ ٹھہرگئی تھی-میں ایک معمول کی طرح اس کے پیچھے چل پڑا-مری خالہ نے مری کیفیت پہچان لی تھی- کہنے لگی
بیٹا شرم کرو یہاں لوگ اپنی مرادیں لیکر آتے ہیں اور تم ۔۔۔۔۔۔
میں نے کہا میں بھی مراد لینے ہی آيا تھا اور میاں صاحب نے مرے کہنے سے پہلے ہی مجھے ملادیا- اور مجھے لگتا ہے مرا سفر ختم ہوگیا ہے-
مری خالہ مری طرف دیکھنے لگی ایسے جیسے اسے مری زہنی کیفیت پہ شک ہوگیا ہو- میں نے ان کے دیکھنے کی پرواہ نہ کی اور اس لڑکی کے پيچھے جانے لگا جہاں وہ جارہی تھی-اس نے بھی شاید مجھے دیکھ لیا تھا اور مری آنکھوں کو پڑھ لیا تھا – اس کی ہرنی آنکھوں میں جہاں جھیل جیسی گہرائی تھی ،وہیں ایک عجب سی ویرانی اور اداسی بھی تھی- مجھے اس عمر میں وہ عام لڑکیوں جیسی نظر نہیں آرہی تھی- نہ اس کی آنکھیں مسکراتی تھیں نہ ہی خود کو ایسے دیکھے جانے پہ وہ مسکرارہی تھی –اس کے ساتھ جو لوگ تھے وہ ان سے بھی ذرا الگ تھلگ سی نظر رہی تھی –میں اس کی اس سوگوار جمالیات میں گم سا ہوگیا تھا – پھر اس نے میاں محمد بخش کے مزار پہ حاضری دی اور اس وقت مجھ پہ ایک وجدانی سی کیفیت طاری تھی اور میں بھی اس دوران اپنی نگاہوں میں اس کو بٹھاکر پلکیں موندے بیٹھ گیا-تھوڑی دیر بعد وہ لڑکی وہاں سے ہٹی ، اس کے ساتھ آنے والے سیپارے پڑھنے میں مصروف ہو گئے. میں بھی چپکے سے اٹھا اور لڑکی کے پیچھے چل دیا میں نے دیکھا کہ وہ چلتے چلتے عقب میں کھڑے ستونوں میں سے ایک ستون سے لگ کر کھڑی ہوگئی اور اس کی آنکھوں میں ایک دریائے اداسی جوش مارتےہوئے صاف نظر آرہا تھا حباب اس سے اوپر اٹھ آیا-میں نے دو قطروں کو اس کی آنکھوں سے لڑھک کر گالوں پہ بہتے دیکھا تو تڑپ اٹھا – میں نے خود کو ایک ستون کی آڑ میں چھپا رکھا تھا –نجانے اسے کیسے پتہ چلا کہ اس نے آواز دی – وہاں ستون کے پیچھے کیوں کھڑے ہو ؟ آجاؤ ادھر ہی –
میں ذرا کھسیانا سا ہوگیا- اور میں ستون سے نکل کر سامنے آگیا.
کیوں مرے تعاقب میں ہو ؟ وہاں سیڑھیوں سے مرے پیچھے لگے ہو ، دیکھو تم شکل سے کافی میچور لگتے ہو ، ایسی چھچھوری حرکتیں تمہیں زیب نہیں دیتیں –اور میں بھی یہاں کوئی فلرٹ کرنے نہیں آئی – یہاں لوگ اپنے من کا بوجھ ہلکا کرنے آتے ہیں – اور تم ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے ایک سانس میں سب کہہ ڈالا – میں سٹپٹاگیا – کچھ دیر تو مری آواز ہی نہ نکلی –اس دوران بھی میں اس کے چہرے کو تکے جاتا تھا –
وہ جھنجھلا سی گئی – اب پھوٹو بھی منہ سے کچھ ، ایسے ہی دیکھے جاؤگے ۔۔۔۔۔۔
وہ۔۔۔۔۔ وہ۔۔۔۔۔۔ دراصل مجھے آپ ۔۔۔۔۔ آپ بہت پیاری لگی ہیں اور مرے اندر سے آواز آئی ہے کہ یہی ہے وہ جس پہ مری تلاش ختم ہے – ۔۔۔۔۔۔۔ میں نے بڑی مشکل سے یہ الفاظ ادا کئے –
وہ یہ سنکر ہنس پڑی –ہاں کسی فلم کی لائنیں تم نے اچھی طرح یاد کی ہیں – ایک فارمولہ ،جہاں کوئی عورت دیکھی پھٹاک سے اپلائی کردیا –
دیکھیں ! آپ کو مری انسلٹ کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے – تم مجھے پسند آئی ضرور ہو لیکن میں 40 سال کی عمر میں بڑے تجربات سے گزرا ہوں ،
Mind your language, I am not filthy dirty teen ager.
میں نے ذرا غصّے سے کہا تو وہ ٹھنڈی پڑگئی –
” میں معافی چاہتی ہوں- دراصل میں اپنی ہی الجھنوں میں گرفتار ہوں- آپ کے کسی کام نہیں آسکتی –اور آپ سے درخواست کرتی ہوں کہ آپ چلے جائیں –”
اس نے یہ کہہ کر منہ پھیر لیا- اور میں انتہائی مایوسی کی حالت میں وہاں سے لوٹ آیا- واپس آنے کے بعد میں مسلسل سوچتا رہا کہ اتنے عرصے میں پہلی مرتبہ کسی کو دیکھ کراندرسے آواز ابھری تھی اور وہ تو بات سننے کو بھی تیار نہ ہوئی –
میں بڑی سکون کی زندگی گزار رہا تھا- مرا بس ایک خواب تھا کہ کسی طرح سے ڈگری حاصل کی جائے اور نکل لیا جائے –اور اچھی سی نوکری ڈھونڈ لی جائے یا یورپ نکل جایا جائے-جب یونیورسٹی میں مجھے ” مونا ” ملی – وہ دیکھتے ہی دیکھتے مجھ پہ حاوی ہوگئی اور میں بس اس کے حصارذات میں گم ہوگیا –اس نے مجھے ایک دن کلاس ختم ہوجانے کے بعد پکڑ لیا تھا – میں بڑا لاابالی سا ، اس کلاس میں
Little bit an outsider
تھا-کیونکہ ڈویلپمنٹ اکنامکس سے مجھے کوئی زیادہ دلچسپی نہیں تھی مگر مرے دادا کا مجھ پہ برابر دباؤ تھا جو مرے اخراجات اٹھارہے تھے –میں نے اپنے بابا اور مما کو کبھی دیکھا ہی نہیں تھا- ان کی کوئی یاد مرےذہن میں محفوظ نہ تھی-میں بہت چھوٹا سا تھا جب دونوں کراچی کی ایک سڑک پہ دو گینگز کی باہمی فائرنگ کی زد میں آگئے اور وہیں دم توڑ گئے تھے- دادا دادی کی دنیا اندھیر ہوگئی تھی –اب میں ہی ان کا مرکز نگاہ تھا- دادا سندھ حکومت کے فنانس ڈیپارٹمنٹ کے ریٹائرڈ پینشنر تھے جبکہ دادی پینٹنگز بیچ بیچ کر مرے لئے پیسہ جوڑ رہی تھیں – دونوں چاہتے تھے کہ ایم ایس سی کرنے کے بعد میں باہر چلاجاؤں اور وہاں پی ایچ ڈی کروں ، ساتھ جاب بھی اور اپنا مستقبل محفوظ کرلوں – دادا اور دادی کی مشترکہ لائبریری میں ہزاروں کتابیں تھیں – پینٹگز سے گھر بھرا ہوا تھا – کئی ایک مجسمے بھی جابجا رکھے ہوئے تھے –وہ مجھے زبردستی ریڈنگ روم میں بٹھاتے اور کتابوں ، تصویروں ، میوزک پہ بات کرنے کی کوشش کرتے اور میں اونگھنے لگ جاتا – مجھے انڈس ویلی لیکر جاتے مگر وہاں بس مجھے ” حسین چہروں ” کو دیکھنے میں مزا آتا اور بہت ہی لبھانے والے اجسام ، ان کے اعضاء کی حرکت سے مرا خون جوش مارنے لگتا تھا اور میں لی مارکیٹ جاکر اس جوش کو ٹھنڈا کیا کرتا تھا- یونیورسٹی کے اندر بھی بس مجھے نت نئی ڈیٹس پہ جانے کا چاؤ تھا –عورت کی چھاتی اور رانیں ہی مرا مبلغ علم تھیں –اور تعلیم کو جیسے تیسے میں گھسیٹ ہی رہا تھا- لیکن مونا یوں مری زندگی کو بدل ڈالے گی اس کا مجھے زرا اندازا نہیں تھا – کلاس سے باہر آکر اس نے مرا ہاتھ پکڑ لیا – اور کہنے لگی
Hey ! Give me some time.
اندھا کیا چاہے ، دو آنکھیں – تو میں نے جھٹ سے کہا کہ جتنا چاہو مل جائے گا –
اچھا جی ۔۔۔۔۔۔ اس نے تیکھی نظروں سے مجھے دیکھا – اور کہا کہ تمہیں مرے ساتھ گھر چلنا ہے – میں اس کے اس التفات پہ حیران بھی تھا لیکن اندر سے مرا دل بلیوں اچھل رہا تھا- مونا ہمارے کلاس کی نہ صرف سب سے ذہین لڑکی تھی بلکہ جمال میں بھی کسی سے کم نہیں تھی-میں اس کے ساتھ یونیورسٹی شٹل کی جانب جانے لگا تو کہنے لگی نہیں وہاں مری کار کھڑی ہے-یہ لمبی سی سرخ رنگ کی سپورٹس کار میں میں اس کے ساتھ فرنٹ سیٹ پہ بیٹھا خودکو بہت لکّی فیل کررہا تھا-اور چوری چوری اس کے حسن ہوش ربا کو دیکھ رہا تھا – اور مجھے اندازہ ہی نہ ہوا کہ کب اس کا گھر آگیا- کب اس نے گاڑی پورچ کے اندر کھڑی کی-سندھی مسلم سوسائٹی میں ان کا بنگلہ موجود تھا-
اے مسٹر ! اب اترو بھی ۔۔۔۔ اچانک اس نے کہا تو میں ہڑبڑا گیا-
مام اور ڈیڈ دونوں سٹیٹس رہتے ہیں – بس میں یہاں ٹکی ہوئی ہوں- ڈرائنگ روم میں اس نے مجھے بٹھاتے ہوئے کہا تو مرے دماغ میں پھر سے عجیب و غریب خیالات آنے لگے –
تمہین اس لئے بلایا ہے کہ میں سی آر کا الیکشن لڑنا چاہتی ہوں اور تمہارا ڈیپارٹمنٹ میں کافی اثر ہے لڑکوں اور لڑکیوں پہ-اس نے یک لخت مجھے کہا – اوہ! مرے ہونٹ سکڑ گئے – اس لئے یہ نوازش ہوئی ہے-میں نے اسے اپنی حمایت کا یقین دلایا –اور ایسے مونا اور مری ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا-اس دوران اس نے مجھے کراچی میں ہر ایک اچھے کیفے اور ہوٹل سے واقف کرایا ، کافی ، چائے ، سنیکس اتنے اس دور کے بعد بھی میں نہ تو لئے اور نہ کبھی دل چاہا -اسی دوران جب ایک مرتبہ وہ مرے گھر آئی تو مرے چھوٹے سے گھر میں اتنی شاندار کتابیں ، تصویریں اور مجسمے دیکھ کر وہ خوشی سے پاگل ہوگئی – مرے دادا ، دادی کی مجھ سے زیادہ دوست بن گئی –اور پھر دادا ، دادی نے نجانے اسے کیا پٹی پڑھائی کہ وہ ہاتھ دھوکر مرے پیچھے پڑ گئی –اور مجھے پتہ ہی نہ چلا کہ کب مری زندگی ایک بڑے انقلاب سے دوچار ہوگئی –پہلے مجھے میوزک سے عشق ہوا-پھر پینٹنگز سے اور پھر کتابوں سے –اور مرا کمرہ ان تینوں سے بھرنے لگا- مجھے اپنا سبجیکٹ زیادہ سمجھ آنے لگا اور دیکھتے ہی دیکھتے مجھے عینک لگ گئی اور میں چھاتی ، رانیں ، لی مارکیٹ کے پھیرے سب بھول گیا –اب تو اس کے ساتھ نئے سال پہ جانی واکر کی پوری بوتل پی کر بھی اس کے جسم کی طرف خیال نہ گیا – اس رات ہم صبح ہونے تک گبئریل گارشیا مارکیز کے ناول ” وبا کے دنوں میں محبت ” سے لیکر اس کے محبوب مصنف بورخیئس کو ڈسکس کرتے رہے اور اس دوران نجانے کب میں فنتاسی بننا سیکھ گیا مجھے معلوم ہی نہ پڑا –
” تمہیں پتہ ہے کہ بیسویں صدی میں یہ بورخسس تھا جس نے فکشن کی دنیا کو انقلابی تبدیلی سے دوچار کیا اور طلسمی حقیقت پسندی کی تکنیک ایسے اپنی کہانیوں میں استعمال کی کہ بعد میں آنے والے اس کے ہی احسان مند دکھائی دئے-یہ گابو اس کا ہی تتمہ تھا ”
مونا ساحل سمندر پہ ایک ٹیلے پہ بیٹھی ہوئی مجھے بتارہی تھی اور میں خیالوں میں اڑتا ہوا ارجنٹائن پہنچ گیا تھا اور مجھے ایسے لگ رہا تھا جیسے سمندر کے کنارے کھلے ایک نئے نئے ہوٹل میں لکڑی کی کرسی پہ بورخسس بیٹھا ہوا ہے اور
The Circular Ruins
سنارہا ہے اور اچانک مجھے یوں لگا کہ وہیں ایک کونے میں چھپ کر منٹو جی بورخس کو سنتے جاتے ہیں اور اس کے چہرے پہ طنزیہ مسکراہٹ آتی ہے جب بورخس کا ایک مداح "رئیلزم ” پہ مبنی کہانی کے ختم ہوجانے کا دعوی کرتا ہے-اور منٹو وہاں آکر اپنا افسانہ ” ٹوبہ ٹیک سنگھ ” سنانے لگتا ہے اور یہ سنکر بورخس کہتا ہے کہ تم اسے حقیقت پسندی کہتے ہو اور میں کہتا ہوں یہاں تم نے بھی میجکل ریلئیزم کی تکنیک کو استعمال کرڈالا ہے –منٹو یہ سنکر کہتا ہے ” ادب ودب سب بکواس –اٹھاؤ گلاس مارو جھک ” بورخسس اس زور سے ہنستا اور
Then both cried fully “Cheers “and they took their pegs.
مونا کے ساتھ میں کئی راتیں ساحل پہ گزاریں اور ہم نے کفر ، فنا اور اندر کی انسانی کشاکش پہ بہت غوروفکر کیا اور ہم نے خود کو بورخسس کی کہانی ” دی تھیالوجئین ” کے کردار پایا –مونا سے میں نے کبھی نہیں پوچھا تھا کہ مذھب بارے اس کا خیال ہے اور اخلاقیات پہ وہ کیا سوچتی ہے- ہم ادب پڑھتے اور اچھا میوزک سنتے – اسے کبھی کبھی بوہیمن ہونے میں مزا آتا تھا-میں سر سے پیر تک اور دماغ سے روح تک بدل چکا تھا –ایگزام ہوگئے – رزلٹ کا انتظار ہورہا تھا-میں مونا کے ہاں تھا کہ سعدیہ نقوی وہاں آگئی کہنے لگی کہ یار ! اسجد کے ہاں ” قاسم کی مہندی کا جلوس ” ہے سجاد علی پڑھنے آرہا ہے – اسے سننے چلیں – مونا راضی ہوگئی- میں نے جانے سے انکار کیا- اور گھر چلا آیا- اور سوگیا- رات کا نجانے کون سا پہر تھا میں گبھرا کر اٹھ گیا- گلا خشک ہورہا تھا میں پانی پینے ٹی وی لاؤنج میں آیا تو ٹی وی کھلا ہوا تھا اور سامنے کوئی اینکر کہہ رہا تھا کہ ” سوسائٹی میں قاسم کی مہندی کے جلوس میں دھماکہ 100 افراد ہلاک ، 400 زخمی ہوگئے” میں نے یہ سنا تو مرے پیروں سے زمین نکل گئی – فوری فون کی طرف بھاگا –مونا کے گھر کا نمبر ملایا تو گھنٹی جاتی رہی کسی نے فون نہ اٹھایا-میں نے موٹر سائکل نکالی اور مونا کے گھر کی طرف گیا تو دیکھا کافی ہجوم اکٹھا تھا- مونا کا خاندانی ملازم مجھے دیکھ کر آگے بڑھا اور روتے ہوئے سینے سے لگ گیا –
"صاحب ! مونا جی نہیں رہیں- ‘
اتنا سننے کے بعد مجھے کچھ نہیں سنا – اور تھوڑی دیر میں ایک ایمبولینس آئی جس میں سے ایک سٹریچر اتارا گیا- سفید چادر پہ جگہ جگہ خون کے دھبے تھے – جسم ٹوٹ پھوٹ سے محفوظ تھا مگر جگہ جگہ خراشیں تھیں- ایک لڑکے نے کہا کہ دھماکے کی شاک وویز سے مونا کا دل بند ہوگیا تھا-
مری دنیا اندھیر ہوگئی تھی-بس گھر بند ہوکر رہ گیا تھا-یا ساحل کے اس ٹیلے پہ جابیٹھتا تھا جہاں کبھی میں مونا کے ساتھ بیٹھا کرتا تھا-اور گھنٹوں یہاں بیٹھا کرتا تھا – شراب اور میں بس ڈوب جاتا تھا –دادا ،دادی دونوں بہت پریشان تھے – اسی دوران رزلٹ آگیا- مونا نے ٹاپ کیا- اور میں بھی اچھے نمبروں سے پاس ہوگیا-کانوویکشن کے دن مونا کا گولڈ میڈل اس کی والدہ اور والد کے کہنے پہ میں نے وصول کیا اور سٹیج پہ جاتے جاتے مری ہچکی بندھ گئی اور روتے روتے وہ میڈل وصول کیا اور اس کی قبر پہ جاکے اس میڈل کے ساتھ گھنٹوں روتا رہا-واپس آیا تو دادا نے بتایا کہ ویانا میں ان کے ایک دوست نے مرا داخلہ ایک یونیورسٹی میں کرادیا ہے- ہفتے بعد میری روانگی ہے- میں نے کچھ نہ کہا-اگلے ہفتے سامان سمیٹا اور ویانا چلا آیا-وہیں ایک دن پتہ چلا کہ ایک رات دادا ،دادی سوئے اور پھر نہ اٹھے – میں واپس نہ گیا- اور وہیں ٹک گیا-راتوں کو میں ہیرنگس میں واقع سنٹرل کیفے میں چلا جاتا – یہ وہ کیفے تھا جس میں بیٹھ کر وائن پینے کا خواب مونا نے مجھے دکھایا تھا-پہلی بار میں نے اس سے اس کا نام سنا تھا-یہاں پر سگمنڈ فرائڈ ، لینن ، اڈولف ہٹلر ، جوزف بروز ٹیٹو ، سارتر ، لوجیکل پوزیٹوسٹ نے ڈیرے جمائے تھے – اسے پہلے پہل "چیس اسکول ” بھی کہا جاتا تھا-لیون ٹراٹسکی بھی یہاں پہ آیا کرتا تھا-مونا کہتی تھی کہ تم اور میں اس کیفے میں ان کرسیوں پہ آمنے سامنے بیٹھیں گے جن پہ سارتر اور سیمون دی بوووار نے بیٹھ کر باہمی عشق بھی لڑائے اور عورتوں اور ورکنگ کلاس کی آزادی کے خواب بھی دیکھے-میں اسے مذاق میں کہتا ٹھیک ہے تم اور میں دونوں اپنا عشق بھی قائم دائم رکھیں گے جبکہ اس دوران خوبصورت لونڈوں اور لوںڈیوں سے بے پناہ افئیرز بھی کریں گے-مونا ہنس پڑتی تھی-میں دو گلاس وائن کے ساتھ طلب کرتا تو ویٹر مجھے عجیب سی نظروں سے دیکھتا تھا- میں مونا سے باتیں کرتا اور خود ہی دونوں کردار نبھاتا تھا-سارے کفر ، زندیقی اور ارتداد کے ساتھ مونا کو اپنے ساتھ حاضر پاتا تھا –جب وحشت عروج پہ تھی اور میں اپنے آپ کو ختم کرنے کے قریب تھا تو ایک شام یونیورسٹی کے ریڈنگ روم میں ایک دھان پان سی لڑکی نے مرے ہاتھ میں فرانز فینن کی وریچڈ آف دی ارتھ دیکھ کر مجھے روکا اور کہنے لگی کہ اس دور زوال میں بھی تم ” فرانز ” کو پڑھتے ہو ، میں نے کہا میں تو ان کو بھی پڑھتا ہوں جن کے نام پہ کئی ماتھوں پہ بل پڑجاتے ہیں –سمجھ نہیں آئی – اس نے مدھر سی آواز میں پوچھا- میں نے کہا کہ میں ” علی کا دیوان ” شیکسپئر کے ڈراموں کی طرح دلچسپی سے پڑھتا ہوں –کیونکہ ان اشعار سے عجب سی المیاتی اداسی ابھرتی ہے اور مجھے اس سے پیار ہے –یہ سنتے ہی اس نے کہا
” دوستی کرو گے مجھ سے ؟” میں زھرہ ہوں – فلسفہ تاريخ میں ڈاکٹریٹ کرنے آئی ہوں-
یہاں سے زندگی کے ایک نئے دور کا آغاز ہونا تھا-
زھرہ مجھے سنٹرل کیفے میں روز رات کو ملتی اور پہلے دن ملی تو واک مین سے اس نے مجھے نصرت فتح کی گائی ہوئی شاعری سنائی
مرے رشک قمر ،تونے پہلی نظر جب نظر سے ملائی مزا آگیا
برق سی گرگئی ،کام ہی کرگئی ، آگ ایسی لگائی مزا آگیا
جام میں گھول کر حسن کی مستیاں چاندنی مسکرائی مزا آگیا
چاند کے سائے اے مرے ساقیا تونے ایسی پلائی مزا آگیا
ویانا کی سڑکیں تھیں ، ہم تھے اور سخت سردیوں کے موسم میں اس کی آنکھوں کی گرمی میں وہ نشہ تھا کہ میں گھنٹوں سرور میں رہتا – وہ عجب لڑکی تھی-ویانا میں رہ کر جدید دور میں زندگی گزارنے والی وہ کبھی مجھے بغداد لیجاتی ، کبھی مجھے نجف اشرف کی سیر کراتی اور کبھی اجمیر لیجاتی اور کبھی بستی نظام الدین اولیا لیجاکر درگاہ میں بٹھا دیتی ، میں اپنے سارے کفر اور انحراف کے ساتھ ان سب کا اسیر ہوگیا-کبھی وہ نہج البلاغہ نامی کتاب کا کوئی صفحہ خیال میں پلٹتی اور کہتی
و ھات حدیثا ما حدیث الرواحل
مجھے اس کی ساری باتوں کے درمیان اس کی بے پناہ وارفتگی ، بے پناہ تلاطم خیز حسن اپنی اور کھینچتا رہتا تھا اور میں اس میں ڈوب گیا – یونہی وقت گزرتا چلاگیا –اور ایک دن اس کی پی ایچ ڈی مکمل ہوگئی اور پھر ملنے کا وعدہ کرکے وہ واپس انڈیا چلی گئی –میں ایک بار پھر وہیں کھڑا تھا جہاں سے چلا تھا – پی ایچ ڈی مری بھی مکمل ہوگئی اور میں پاکستان واپس چلاآیا-اور اس کے بعد سے میں ایسے زندگی گزار رہا تھا جیسے کسی سراب میں سے گزر رہا ہوں – مری خالہ ہی اب مرے قریبی رشتہ داروں میں سے حیات تھیں جو دادا ، دادی کے جانے کے بعد اس گھر میں مقیم تھی جس میں اب کوئی نہیں رہتا تھا-وہ مرے سر پہ سہرا سجا دیکھنا چاہتی تھیں –میں مان کے نہیں دیتا تھا-پھر جب خالہ نے مجھے کہا کہ وہ زہر کھالیں گی تو میں نے ان کی بات مان لی – اور ایک لڑکی جس سے میں ملا بھی نہیں تھا ایک دن مرے حجلہ عروسی میں آگئی –اور ہمارے درمیان ایک میکانکی رشتہ قائم ہوگیا- وہ عورت جو مجھ سے جڑی بڑی عجیب تھی-اسے ہر وقت مرے مذہب کو جاننے میں دلچسپی رہتی تھی-اور اسے ہر وقت مجھ سے اوٹ پٹانگ باتیں کرنے کا خبط سوار تھا- اسے موسیقی شیطان کا آلہ گمراہی لگتا تھا اور مری کتابیں اسے زھر لگا کرتی تھیں –وہ مجھے مولوی شریف الدین بنانے پہ تلی ہوئی تھیں – مونا کا ایک مجسمہ میں بنوایا تھا اسے سب سے زیادہ اس سے دشمنی تھی-مجھے لگتا تھا کہ میں مرجاؤں گا- اس دوران بچّے بھی ہوگئے- اور وہ ان بچوں میں اپنی پسماندگی گھولنے پہ تیار بیٹھی تھی- میں اس دوران بالکل فیڈ اپ ہوگیا تھا-میں نے خالہ کو آخری وارننگ دے ڈالی تھی-خالہ نے اس کا توڑ منتوں اور نذر سے نکالا- کشمیر کھڑی شریف تک بھی وہ مجھے اسی لئے لیکر آئی تھیں تاکہ یہآں وہ منت مان لے- میں ان کا دل نہیں توڑنا چاہتا تھا تو چلا آیا –اور اس حادثے سے دوچار ہوگیا- وہاں سے واپسی کے بعد ایک پل چین نہیں آرہا تھا –
میں کافی بے چین تھا اور اسی دوران مجھے یونیورسٹی میں نئے لیکچررز کی بھرتی کے لئے انٹرویو کرنے تھے جب انٹرویو کے لئے میں نے امیدواروں کو بلانا شروع کی. ایک گھنٹے بعد جو لڑکی داخل ہوئی تو اسے دیکھ کر میں اور وہ مجھے دیکھ کر حیران ہوگئی- میں نے ان سے انٹرویو لینے کیا اس کا جب سی وی دیکھا تو پتہ چلا کہ رباب ہے اس کا نام – انٹرویو مکمل ہوگیا اور میرٹ پہ وہ سلیکٹ ہوگئی اور مرے ڈیپارٹمنٹ میں ہی پڑھانے لگی –میں بہانے بہانے سے اس کے قریب ہونے کی کوشش کرتا مگر وہ فاصلہ برقرار رکھے ہوئے تھی-ایسے ہی دن گزرتے چلے جارہے تھے – اور پھر نجانے کب وہ اور میں بے تکلف ہوتے چلے گئے- مجھے پتہ چلتا گیا اس کے بارے میں-میں اس کی بے پناہ محبت میں مبتلاء ہوتا چلا گیا-اور ایک دن جب میں نے اس سے اظہار عشق کیا تو اس نے کافی عرصے تک جواب نہ دیا-اور ایک دن جب میں نے اس سے اصرار کیا تو کہنے لگی کہ اسے میں اس کا ایک ” الہام ” لگتا ہوں- اس دن اس مزار پہ وہ اپنی تنہائی کے عذاب کے خاتمے کے لئے گئی تھی-اور بعد میں جب گھر آئی تو میں اسے خواب میں نظر آتا رہا –جیسے وہ ایک ہی کار میں مرے ساتھ ہے اور اس کا سر مرے کندھے پہ دھرا ہے اور وہ بے پناہ محبت کے ساتھ مرے چل رہی ہے- یہ خواب بار بار اسے نظر آتا رہا – تو اسے اس خواب کی سچائی پہ اس وقت یقین آگیا جب وہ وہ اس یونیورسٹی میں لیکچرر کا انٹرویو دینے آئی اور سامنا مرے سے ہوگیا-لیکن ایک معاملہ ہے جو اسے چپ رہنے پہ مجبور کرتا ہے –میں نے اسے مجبور کیا تو کہنے لگی کہ ” وہ لڑکی نہیں ہے ” یہ سنکر بھی مرے اندر کوئی تبدیلی نہیں آئی – میں نے پوچھا کہ
"کیا ٹرانس جینڈر ہو ”
ہش ۔۔۔۔۔۔
مرا مطلب ہے کہ میں ورجن نہیں ہوں –
میں ہنس پڑا – اس کا مرے معاملے سے کیا تعلق ہے ؟
کہنے لگی کہ وہ ایک مطلقہ عورت ہے- اس نے یونیورسٹی کے ایک کلاس فیلو سے شادی کی تھی جو بری طرح سے ناکام ہوئی-اور اس کا سبب یہ تھا کہ اس کو اپنا محبوب لگنے والا شخص سوائے بیڈ روم کے کہیں اور اپنا لگتا ہی نہیں تھا –اور اسے لگتا کہ اس کے محبوب کو سوائے اس کے پوشیدہ اعضاء کو دریافت کرنے اور چند منٹ کی سیر کے اور کسی چیز میں دلچسپی نہیں ہے- اسے اپنا فیصلہ بڑی غلطی لگنے لگاتھا-اور اسی دوران وہ حاملہ ہوگئی –اس پہ وہ مرد جسے وہ اپنا محبوب خیال کربیٹھی تھی کہنے لگا
” مجھے تمہارے پیٹ میں پلنے والے کیڑے پہ شک ہے-اس کی پیدائش کے بعد ڈی این اے ٹیسٹ کراؤں گا ”
اس فقرے نے مجھے پاگل کرڈالا تھا- مجھے اپنے آپ پر بہت غصّہ تھا- میں سوچ رہی تھی کہ کتنی بڑی غلطی میں کرڈالی تھی-مجھے بابا ، مام ، برادر سب نے سمجھایا تھا کہ ایک تو لڑکا سنّی ہے ، دوسرا لڑکا غیر سید ہے اور تیسرا اس میں گرومنگ ذرا بھی نہیں ہے ”
میں نے اسے ٹوکا تو کیا محبت کے لئے مذہب ، برادری، گرومنگ ناگزیر ہیں –تو فوری بولی
نہیں ، آج بھی نہیں ہیں اور ميں نے ان اعتراضات کو یکسر رد کردیا تھا لیکن مجھے شادی کے بعد ایک ماہ میں ہی احساس ہوگیا تھا کہ یہ ایک ٹرانس تھی جس میں ، میں گرفتار ہوگئی تھی اور محبت تو وہاں موجود تھی ہی نہیں –میں اتنی پاگل ہوئی کہ میں نے کئی گولیاں کھائیں اور اتنی بے قابو ہوئی کہ میں پیٹ پہ مکّے برسائے- اور اس طرح اپنے پیٹ میں پلنے والی تخلیق کو اپنے ہاتھوں سے مارڈالا – اور ابارشن کرالیا-ابارشن پہ مجھے ایک مکروہ عورت قرار دے دیا گیا-اور میں نے خلع لے لیا-اور یوں تب سے ابتک میں پورے مرد کی تلاش میں ہوں لیکن ایسا پورا مرد مجھے مل کے نہیں دیتا –اب بھی ڈرتی ہوں کہ کہیں یہ مری ٹرانس کیفیت نہ ہو –
یہ کہہ کر وہ خاموش ہوگئی –میں کہنے لگا کہ مجھے پوری عورت کی تلاش ہے مگر مجھے ابھی تک یہ معلوم نہیں ہے کہ میں منٹو کے افسانے کے کردار گوپی ناتھ کی مثل مرد ہوں یا پھر موذیل کا ترلوچن —– اب پتہ نہیں تمہاری نظر میں پورا مرد کسے کہتے ہیں-
مری بات سنکر اچانک اس نے کہا کہ
کمپی ٹیبل بستر پہ نہ بھی ہو مگر اسے مرے وجود کی اپنے سے وابستگی پہ ذرا شک نہ ہو اور میں چاہتی ہوں اس کی محبت کی مری ٹانگوں کے درمیان ” وفا ” تلاشتی نہ پھرے….

حالیہ بلاگ پوسٹس

کنفیشن باکس

سرد ہوا جیسے رگوں میں خون جمانے پر تلی تھی ۔ رات بھر پہاڑوں پہ برف باری کے بعد اب وادی میں یخ بستہ ہوائیں تھیں ۔ خزاں گزیدہ درختوں

مزید پڑھیں »

کتبہ (افسانہ) غلام عباس

شہر سے کوئی ڈیڑھ دو میل کے فاصلے پر پُر فضا باغوں اور پھلواریوں میں گھر ی ہوئی قریب قریب ایک ہی وضع کی بنی ہوئی عمارتوں کا ایک سلسلہ

مزید پڑھیں »

داعی (افسانچہ) – ابوعلیحہ

مولانا کمال کے آدمی تھے۔ ستر برس کے پیٹے میں بھی ان کے ضخیم بدن کا ہر ایک رونگٹا، ان کی مطمئن صحت کی چغلی کھاتا تھا۔ ملیح چہرے پر

مزید پڑھیں »