Qalamkar Website Header Image
فائل فوٹو - حیدر جاوید سید

ہدایتِ کامل، ابدی ضابطہ حیات اور اسلامی انقلاب

ہمارے  یہاں کے سارے انقلابی ( سبزے و سرخے )  چند ایک کے سوا ایک جیسے ہی ہیں۔ اسلامی انقلاب والے ہمیں 14 سو برس پیچھے لے جاکر بسانے کے جنون میں مبتلا ہیں۔ وہ یہ سمجھنے کو تیار ہی نہیں کہ جب مذہب و عقیدے سے ریاست اور نظام سازی کا کام لیا جانے لگے تو قباحتیں پیدا ہوتی ہیں اور ان قباحتوں پر فتوؤں کی چاند ماری سے مزید مسائل جنم لیتے ہیں۔  اسلامی انقلاب والے ایک ہی بات جانتے ہیں وہ یہ کہ ان کے فہم والا اسلامی معاشرہ اطاعتِ امیر کا طوق گلے میں  ڈالے زندگی بسر کرے۔ آخر کیوں انسان اپنے عصری شعور کی شمع جلاکر راستہ تلاش نہ کرے؟ یہ کہتے ہیں عصری شعور کی شمع گمراہی کی دعوت ہے انسان کے لئے تو  بس وہ الٰہی نظام ابدی سچائی ہے جس کی دعوت یہ مختلف الخیال اسلامی انقلابیے  دیتے ہیں۔

عجیب بات ہے نا کہ جو خود ایک الٰہی نظام کے تصور پر متفق  نہیں وہ یہ پڑھانے کی کوشش کررہے ہیں کہ اللہ نے ہدایتِ کامل  اور ضابطہ حیات دونوں عطا کردیئے۔ اب لازم ہے کہ اسی سے استفادہ کیا جائے۔ اس ہدایتِ کامل  اور ضابطہ حیات میں ہدایت پر کتنا اور کب عمل ہوا اور ضابطہ حیات کیا محض حیات بعداز موت کے لئے ہے اس طرح کے سوالات پر یہ گردن مارنے سے نہیں چوکتے ۔مگر سوال بہرطور اپنی جگہ حقیقت ہے کہ ، وہ یہ کہ، ” یہ کیسی  ہدایت اور ضابطہ حیات ہیں کہ ہر دو پر ہمارے سامنے اور تاریخ میں عمل کرنے والوں کی وجہ سے لوگوں پر زندگی اور زمین تنگ ہوگئی؟ ”

بنیادی مسئلہ یہی ہے کہ مذہب اور عقیدے سے ریاست اور نظام سازی انسانی تہذیب و تمدن اور شعوری ارتقا پر قدغن ہے۔ محض یہ کہہ دینا کہ ہمارے مذہب نے انسانیت کو جو دیا اس پر عمل کرکے اخروی نجات کا سامان کیا جاسکتا ہے درحقیقت اپنے اپنے  عہد کی سماجی ذمہ داریوں اور عصری شعور کے مطابق نظام سازی سے فرار کہلائے گا۔  اسی طرح یہ بھی حقیقت ہے کہ تہذیب و تمدن کلچر تاریخ وغیرہ کا تعلق انسانی سماج سے ہوتا ہے مذاہب و عقیدے سے ہر گز نہیں۔ ہمارے ہاں یہ بدقسمتی بدرجہ  اتم موجود ہی نہیں بلکہ اسے تقدس بھی حاصل ہے کہ بلاد عرب کی تاریخ رسم و رواج وغیرہ یہ سب اسلامی ہیں۔ برسوں قبل اس موضوع پر دوستوں کی محفل میں ہونے والی جذباتی بحث کے  دوران صرف یہ سوال چند دوستوں کے درمیان مستقل ناراضگی کا باعث بن گیا کہ
’’عرب کا سب کچھ اسلامی ہے تو کیا ہمارے ہاں بہن بیٹی کو مرضی سے نکاح کرنے کا پیغام بھجوانے یا کم از کم اپنی مرضی بارے خاندان کو آگاہ کرنے کا حق حاصل ہے؟”
اس سوال کے جواب میں جو کڑوے کسیلے اور زہریلے جملے سننے کو ملے وہ سماعت پر بموں کی طرح برسے۔

خیر اب تک کے سفر حیات، مطالعے، مشاہدے، مکالمے نے یہ سمجھادیا ہے کہ مذاہب و عقائد ریاست اور نظام سازی کے لئے نہیں آتے یہ کسی حد تک اپنے پیغام کے حوالے سے تطہیرِ ذات کی دعوت ہیں اور اس دعوت کا  کہیں یہ مطلب اور مقصد ہرگز نہیں کہ انسان یا انسانی سماج اپنے عصری شعور سے محروم کردیا جائے۔ جو لوگ انسان یا انسانی سماج کو اس کے عصری شعور سے محروم کرنے کو ہدایتِ کامل اورضابطہ حیات کا نام دیتے ہیں وہ اصل میں  بالادست طبقات کو مذہب و عقیدے کی طاقت کا تعاون فراہم کرکے ریاست اور نظام سازی میں اپنا حصہ کھرا کرنا چاہتے ہیں۔اس سوچ، خواہش اور عمل مسلسل نے مسلمانوں کو لگ بھگ ڈیڑھ ہزاری ( ساڑھے چودہ سو برس )  کے دوران کیا دیا؟ اس سوال پر غور کرنے اور جواب جاننے سے قبل چار اور کی مسلم ریاستوں کے نظام ،ان کے معروضی حالات، ریاست اور پاپائیت کی ساجھے داری  وغیرہ کے  نتائج پر ضرور غور کرلیا جانا چاہیے۔

یہ بھی پڑھئے:  تین عشروں کی افغان پالیسی کی مختصر کہانی | حیدرجاویدسید 

کیا ہم یہ سوال کرنے کا حق نہیں رکھتے کہ اگر کوئی مذہب  کامل ہدایت اور ضابطہ حیات ہے اور اگر مگر کے بغیر سرتسلیم خم کرنا ہی ہدایت ارفع قرار پائے گا تو پھر کامل ہدایت اور ابدی ضابطہ حیات کی ایک ہی تفسیر اور تعبیر کیوں نہیں ۔اتنے فرقے کیوں اور پھر  ہر فرقے کی اپنی تعبیر و تفسیر ؟ مزید یہ کہ صرف اس بات پر زور کہ اصل زندگی تو موت کے بعد شروع ہوگی۔ یہ جو اصل زندگی موت کے بعد شروع ہوگی اسے اپنی اپنی فہم کے (عقیدوں سے کشید کردہ فہم) مطابق پانے کے لئے اسی عارضی حیات کے لئے سرائے بنی دنیا کو جہنم بنائے رکھنا  کس اصول ہدایت اور ضابطے کے مطابق درست ہوگا؟ مثال کے طور پر ہم اگر لمحہ بھر کے لئے یہ مان لیتے ہیں کہ پاکستان دو قومی (ہندو اور مسلمان) نظریہ کی اسلامی فہم پر معرض وجود میں آیا تھا تو پھر قرارداد مقاصد کی ضرورت کیوں آن پڑی؟ ہدایت کامل اور ابدی ضابطہ حیات تو موجود تھے؟ کیا یہ بات درست نہیں ہوگی  کہ قرارداد مقاصد اصل میں حاکمان ریاست اور پاپائیت کے نمائندوں کے درمیان میثاق حکمرانی ہے؟

یہ سوال بھی اہم ہے کہ ہدایتِ کامل اور ابدی ضابطہ حیات کے  ہوتے ہوئے مختلف الخیال عقائد نے کیسے جنم لیا اور کیوں ہر عقیدے نے اپنے تصورات کو ہی ہدایتِ کامل اور ابدی ضابطہ حیات کے طور پر پیش کیا؟  ہدایتِ  کامل اور ابدی ضابطہ حیات میں ا گر ریاست سازی اور نظام دونوں عطا کردیئے گئے تو پھر ریاست اور نظام کو جنہوں نے چلانا تھاان کے انتخاب کا طریقہ کیا ہوا؟ کیا اول اول کی  تقسیم ریاست اور نظام کو چلانے والوں کے انتخاب پر ہی نہیں ہوئی؟ عجیب بات یہ ہے کہ ہماری دین دار جماعتیں جو سیاسی عمل میں شریک ہیں ایک طرف اخروی زندگی کے لئے بہتر سازوسامان اکٹھا کرنے کی تبلیغ کرتی ہیں دوسری جانب ریاست اور نظام میں حصہ تو چاہتی ہیں مگر ریاست اور نظام کی لگام خوابوں کے گھوڑوں پر سوار مخلوق کے ہاتھوں میں رکھنا چاہتی ہیں۔

یہ بھی پڑھئے:  سود کا شکنجہ اور حکومت کی پراسرار خاموشی

تلخ حقیقت یہ ہے کہ دوسروں کو دنیاداری کا طعنہ مارتی دیندار مخلوق خود بھی دنیادار ہی ہے۔ان میں سے ایک بھی طمع اور جمع سے دامن بچاکر زندگی بسر کو آمادہ تھا نہ ہے ۔ہاں مذہب و عقیدے کے نام پر بنائے اپنے اپنے مراکز کو عملی  طور پر انہوں نے ایسے کارخانوں میں تبدیل کردیا ہے جن کی وراثت نسل در نسل منتقل ہورہی ہے۔ عرض کرنے کا مقصد یہی ہے کہ پاپائیت بذات خود ایک کاروبار حیات ہے۔ البتہ اس کاروبار حیات کے تاجر خود تو اپنے عصر کی ہر سہولت سے استفاہ کرنا چاہتے ہیں بس پیروکاروں کو کہتے ہیں آخرت پر توجہ دو۔ آخرت پر توجہ دینے والے دنیاوی ذمہ داریوں سے عہدہ برا نہیں ہوتے اس غیرذمہ دارانہ طرز عمل کے نتائج ہمارے چار اور ناچ رہے ہیں۔ مصیبت یہ ہے کہ اس پر بات کرنے کو مذاہب و عقائد سے انکار کا نام دیا جاتا ہے۔ ایک مذہب کئی فرقے پھر فرقوں کے اندر فرقے سب کا اپنا اپنا فہم دین اور دنیاوی ترجیحات کبھی اصلاح معاشرہ کے ذریعے ریاست اور نظام سازی کی سوچ کبھی ریاست اور نظام کے ذریعے اصلاح معاشرے کے فرائض بجا لانے کے کاروبار آخر ان سب پر بات کیوں نہیں ہوسکتی، سوال کیوں نہیں اٹھائے جاسکتے ؟

دیکھا جائے تو قدامت پسندی کے یہ رکھوالے بنام مذہب و عقیدہ انسانی سماج کے شعوری ارتقا کے کھلے دشمن ہیں ۔یہ جدید تحقیق اور تخلیق پر کھینچ کر فتویٰ مارنے والے پھر اس تحقیق اور تخلیق کے آسمانی انعام کے حق میں دلائل کی عمارت اٹھاتے ہوئے  دعویٰ کرتے ہیں یہ بات تو ساڑھے 14 سو برس قبل بتادی دی گئی تھی۔  بھلے لوگوں کو بتادی گئی تھی تو تم نے یا تمہارے پرکھوں نے اس کے حصول کے لئے کیا کیا اور کیا وجہ ہوئی دوسروں نے تحقیق کی ،پہلے تم نے فتویٰ دیا پھر استفادہ شروع کردیا اور آخر میں یہ کہا یہ سب تو ہدایت کامل اور ابدی ضابطہ حیات کی نشانیوں میں سے ہے جو ایک ایک کرکے پوری ہورہی ہیں۔ حرف آخر یہ ہے کہ اسلامی انقلاب پسندوں کو اپنے کجوں کے ساتھ ان سوالات پر ٹھنڈے دل سے غور کرنا ہوگا فقط یہی نہیں بلکہ اس سوال کا جواب بھی دینا ہوگا کہ ہدایت کامل اور ابدی ضابطہ حیات کے ہوتے ہوئے یہ دیندار ایک دوسرے کے خون کے پیاسے گروہوں میں کیوں بٹ گئے؟

حالیہ بلاگ پوسٹس