وطن عزیز میں ہر سال کی طرح اس سال بھی مون سون کی بارشوں نے بڑے پیمانے پر تباہی کی ہے۔ مختلف علاقوں سے اب بھی نقصانات کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔ ان تمام نقصانات میں سانحہ سوات کہ جس میں سیلابی ریلے میں اٹھارہ افراد جن میں ایک ہی خاندان کے نوافراد جو سیاحت کی غرض سے آئے تھےڈوب گئے ۔اس المناک سانحے کی انکوائری ابھی چل ہی رہی تھی کہ کیسے بروقت امداد نہ ملنے کی وجہ سے یہ لوگ حادثے کا شکارہوئے۔ کہ اسی دوران ایک اور المناک خبر آئی کہ جس میں بابو سر ٹاپ کا واقعہ رونما ہوگیا یہاں سیلابی ریلا آٹھ گاڑیوں کو اپنی زد میں لے آیا ۔ اس سانحہ میں پانچ افراد کی جانیں گئیں اور کئی افراد کے لاپتہ ہونے کی اطلاعات ہیں۔ دوسوسےزیادہ سیاح رات بھرپھنسےرہے۔
یہ دونوں واقعات انتہائی افسوس ناک ہیں جس میں ہر شخص متاثرہ خاندانوں کے غم میں سوگوار ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قدرتی آفات سے نمٹنا انسان کے بس میں نہیں کیونکہ باوجود ترقی کے انسان اپنے محدود وسائل سے ان آفات کا مقابلہ نہیں کرسکتا ۔ اس میں بہت ترقی یافتہ ممالک کی بے بسی بھی ہر ایک کے سامنے ہے۔ مگر انسان جس کو خالق کائنات نے شعور عطا کیا وہ اپنے ہاتھوں سے تباہی کومسلسل دعوت دے رہا ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ حقیقت پسندی سے اس تباہی اور اس کے وجوہات میں کمی کی جاسکتی ہے، خاص طور پر موسمیاتی تبدیلی اور جدید سائنس کے تناظر میں مؤثر حکمتِ عملی اپنائی جا سکتی ہے۔
ماحولیاتی تبدیلی آج کے دور میں انسان کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ ہے کیونکہ مسلسل عالمی حرارت میں اضافےاورگلیشیئرز کاتیزی سےپگھلنا اس طرح کی تباہی کا براہ راست نتیجہ ہے اس میں کچھ ترقی یافتہ ممالک جو اپنی انڈسٹریز کو منافع کے لیے زیادہ سے زیادہ استعمال کرتے ہیں وہ درجہ حرارت میں اضافے کا سبب بنتے ہیں اس کے برعکس پاکستان، اپنی محدود انڈسٹری کی وجہ سےعالمی گرین ہاؤس گیسوں میں ایک فیصدسے بھی کم حصہ ڈالتا ہے، مگر سب سے زیادہ نقصانات بھی اس کو اٹھانا پڑ رہے ہیں۔
سردست جو اقدام ضروری ہیں وہ متعلقہ اداروں کو فی الفور اٹھانے پڑیں گے۔ ورنہ اس طرح کے المیے روز بروز دہرائے جائیں گے۔ اس میں تمام سٹیک ہولڈرز پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے وہ صرف بیرونی امداد پر انحصار نہ کریں ۔بلکہ اس کام میں اپنا حصہ اپنا اور آنے والی نسلوں کو بچانے کے لیے کریں۔
حکومتی ادارے جو ماحولیاتی تبدیلی پر کام کررہے ہیں ،ان کو چاہیے کہ وہ جدید جغرافیائی انفارمیشن سسٹم (جی آئی ایس) اور ہائی ریزولوشن سیٹلائٹ امیجری کو اس میں بروئے کار لائیں ،تاکہ تھری ڈی ماڈلنگ سے پہاڑی ڈھلانوں، دریا کے بہاؤ اور برفانی تودوں کی ڈرون فوٹو گرام کے ذریعے راستے اور رفتار کو پہلے سے تخمینہ لگایا جا سکے۔ اس ضمن میں دوسرا اہم قدم (جی آئی ایس) کا استعمال کرتے ہوئے خطرے سے دوچار آبادی، سیاحتی ٹریفک اور انفراسٹرکچر کی وُلنرَیبِلٹی میپنگ ہے ۔ اس ذریعے سے ہم ٹوپوگرافی اور زمیں کی پرتوں کا احاطہ کرسکتے ہیں کہ جہاں صرف چند ملی میٹر کی اضافی بارش بھی تباہی لا سکتی ہے ۔ ایسے تمام علاقوں کی نشاندہی کی جاسکتی ہے تاکہ بالخصوص مون سون سیزن میں سیاحوں کو متنبہ کیا جاسکے کہ ان علاقوں میں سفر سے گریز کریں ۔
اگرچہ نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی موسم کی اپڈیٹ لوگوں کو دے رہی ہوتی ہے لیکن ان تمام باتوں پر جب تک سائنٹفک طریقوں کو بروئے کار لا کر ہم ایک پالیسی نہیں بنا لیتے، تب تک یہ لوگوں کا ٹرسٹ لیول نہیں حاصل کر سکتیں۔ تیسرا نظام جی آئی ایس سینسر، ریڈار اور موبائل ایپس کو ایک پلیٹ فارم سے جوڑ کر درجہ حرارت، بارش اور برفانی پگھلاؤ کی لمحہ بہ لمحہ معلومات حاصل کی جائے۔ جیسے ہی ڈیٹا خطرے کی حد پار کرے، خودکار الرٹ سسٹم متعلقہ ضلعی انتظامیہ، سیاحتی گائیڈز اور مقامی باشندوں کو ایس ایم ایس یا وائس کال سے خبردار کر دے۔ چوتھا قدم ایونٹ سیمولیشن، ایویکوایشن اور دیگر ہائیڈرالوجیکل ماڈلز سے بارش کے ہوتے ہی سیلابی لہروں کی رفتار اور راستہ پیشگی دیکھ کر محفوظ راستے اور عارضی پناہ گاہیں طے کی جا سکتی ہیں۔
موسمیاتی تبدیلی اور جدید سائنس کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے، ڈیزاسٹر ایجوکیشن کی تعلیم مقامی کمیونیٹیز اور تمام تعلیمی اداروں میں شروع کی جائے تاکہ عوام الناس اس بڑے خطرے سے آگاہ ہو کر اپنا حصہ ادا کریں۔ جنگلات کے بے دریغ کٹائی اور ایسے تمام عوامل جو ماحولیاتی تبدیلیوں کا سبب بن رہے ہیں ان کی بیخ کنی کی جائے۔ تاکہ آنے والی نسلیں اس بڑے خطرے سے بچ سکیں جو ہمارے سر پر منڈلا رہا ہے۔ اگر وفاقی، صوبائی اور ضلعی سطح پر یہ تمام اقدامات ہم آہنگی سے نافذ کیے جائیں تو نہ صرف سوات اور بابوسر جیسے المیے کم ہوں گے بلکہ پاکستان بطور پورا ملک موسمیاتی تبدیلی کے خلاف ایک مضبوط ملک کے طور پر ابھرے گا۔ اللہ تعالیٰ ان معصوم جانوں کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ہمیں عقل دے کہ ہم اپنے وطن پر رحم کرنا سیکھ جائیں۔


دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn