Qalamkar Website Header Image

چلی ہے رسم

amjad sabriبهر دو جهولی میری یا محمد ﷺ،طلوع سحر ہے شام قلندر یا صبح آخر جب وقت نزع آئے کے پڑهنے والے امجد فرید صابری کی بلند آہنگ،خوش گلو،گونج دار اور فلک شگاف آواز کا آج گلا گهونٹ دیا گیا-پچهلے دنوں ایک میچ میں مشکل ترین کیچ پکڑ کر سب کو چونکا دینے والا آج زندگی کی بازی ہار گیا-دن دہاڑے بیچ سڑک چهے گولیاں اس مسکراتی آنکهوں والے ثناء خواں اور مدحت رسولﷺ و اہل بیتؑ کرنے والے کے سینے میں اتار دی گئیں اور پندرہ منٹ تک کوئی اس کی مدد کو نہ آیا جو اس سر زمین کی محبت میں زندہ تها-ہر کسی سے بے پناه محبت کرنے والا آج نفرت کا نشانہ بن گیا-
فیض نے کہا تها کہ
میں نثار تیری گلیوں کے اے ارض وطن
کہ جہاں چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹها کے چلے
سو جس نے جنگل کے دستور کے باوجود یہاں جینے کی راہ نکالی اس کو کبهی سر عام قتل کر دیا جاتا ہے تو کبهی پس زندان ڈال جاتاہے تاکہ زندہ بچ جانے والوں کے لیے عبرت کی ایسی داستان رقم ہو جائے کہ کوئی بهی رائج اندهے نظام کے خلاف بغاوت کرنے کی جرات ہی نہ کر پائے-
ایک ہی دن میں جج کے بیٹے کا اغواء،امجد صابری کی المناک موت اور معروف نوحہ خواں فرحان علی وارث پر قاتلانہ حملہ لاقانونیت کی واضح نشاندہی کرتا ہے-اس روش پر نوحہ کناں ہو کر انور مقصود نے کہا تها کہ
منصفو! میرے ملک میں جنگوں کا ہی کوئی دستور لے آؤ
کیونکہ جنگل کا بهی کوئی قاعدہ،قانون اور دستور ہوتا ہے یہاں وہ بهی ندارد ہے تو پهر کون سے سیکورٹی ادارے اس ملک کو تحفظ دے رہے ہیں؟نیشنل ایکشن پلان کیا صرف کاغذی پلندے کا نام ہے؟قانون نافذ کرنے والے ادارے کسی واقعے کے رونما ہونے کے بعد ہی کیوں حرکت میں آتے ہیں اور حکومت وقت کیوں بهنگ پی کر سو رہی ہے؟کیا یہ سب روز محشر آخری عدالت میں جوابدہ نہیں ہوں گئے؟
امام علیؑ کا ارشاد ہے ،، معاشرہ کفر پر قائم رہ سکتا ہے ظلم پر نہیں ،
جن معاشروں میں مظلوم کو انصاف نہیں ملتا وہاں ایسے واقعات اکثر پیش آتے ہیں اور آتے رہیں گے اور پهر عجب روش دیکهیں کہ ان واقعات پر سوگوار ہونے والوں کا یہ کہہ کر مذاق اڑایا جاتا ہے کہ یہ پاکستان ہے یہاں تو روزانہ ہی ایسے واقعات ہوتے ہیں تو سوال یہ ہے بهئی انسان کی موت پر احتجاج بهی نہ کیا جائے کہ لوگ مرتے ہی رہتے ہیں ، زلزلوں سے سیلاب یا طوفان سے انسان مٹ جائیں اتنا دکھ نہیں ہوتا کیونکہ وہ رب کی طرف سے نازل کیے گئے ہوتے ہیں لیکن انسان پر انسان کا یہ ظلم آخر کب تلک؟فیض نے خاک میں لتهڑے ہوئے،خون میں نہائے ہوئے ایسے ہی معاشرے کی پیشن گوئی کی تهی جو کہ اب ظلم کی مجسم تصویر ہے-صد افسوس کہ یہ ایسا دیس ہے جہاں رائج ہے نفرت کا قاعدہ کہ ہو جس سے اختلاف اسے مار دیجئے-
امجد صابری جس کے چہرے کو ہمیشہ ایک خوشگوار مسکراہٹ گهیرے رکهتی تهی آج ظالموں نے اس کا خون آلود چہرہ دکھا دیا وہ منکسر المزاج انسان جس نے ہر آن شجر محبت کی آبیاری کی آج ہم سے جدا کر دیا گیا اور اس کے ساتھ ہی قوالی کا ایک باب بهی بند ہوگیا-آج ہر آنکھ اشکبار ہےکہ یا تو انصاف کیا جائے یا پهر نیشنل ایکشن پلان کی کامیابی کا جهوٹا راگ نہ الاپا جائے-
نہ جانے انسانیت سوزی، وحشت و بربریت اور درندگی کی اس رسم کا اختتام کب ہوگا؟ کوچہ و بازار میں ظلم کب تک راج کرے گا؟
اللہ کریم شہید کے درجات بلند کرے،سوگوار خاندان جس میں پانچ بچے اور دو بیوہ شامل ہیں کو صبر جمیل عطا فرمائے اور پورے پاکستان کو اپنی امان میں رکهے-
رب سے ایک منفرد سوال ہے کہ
مٹ جاۓ گی مخلوق تو انصاف کرو گے؟
منصف ہو تو اب حشراٹھا کیوں نہیں دیتے؟
اور ظالمو کو یہ جواب ہے کہ
لہو لہو ھے حساب ہو گا
خدا کا تجھ پہ عذاب ہو گا
یہ خوں ناحق بھانے والے
امن کی بستی جلانے والے
ضمیر تیرا کیوں سو رہا ہے
مزار قائد بھی رو رہا ہے
یقین کر انقلاب ہو گا
خدا کا تجھ پہ عذاب ہو گا
پھٹے کا سینہ اسی زمیں کا
لہو پکارے گا آدمی کا
پھر کیا کریں گے ہوس کے اندھے
کھاں چھپیں گے خدا کے بندے
پھر کیا تیرا جواب ہو گا
خدا کا تجھ پہ عذاب ہو گا
لہو لہو ھے حساب ہوگا

حالیہ بلاگ پوسٹس