تغیر و تبدل کائنات کا وہ عنصر ہے جسے ہم کسی طور بدل نہیں سکتے، انسان تغیر سے خا ئف ہوتا ہے تبدیلی سے گھبراتا ہے۔
گذشتہ دنوں ہم نے ایک لفظ تواتر سے استعمال ہوتے دیکھا اور وہ لفظ تھا تبدیلی، مگر ہمارے ہاں اس تبدیلی کے معنی صرف سیاسی تبدیلی ہی لیے اور سمجھے جاتے ہیں۔دنیا بھر میں سیاسی تبدیلیاں تو سوشل میڈیا کے ذریعے بھی رونما ہوئی ہیں،کچھ ممالک میں تو سوشل میڈیا کے ذریعے انقلابات بھی برپا ہوئے،مگر کہنا یہ ہے کہ انقلابات سوشل میڈیا پر ہر وقت اپ ڈیٹ رہنے سے نہیں آتے یا ہر خبر پر نظر رکھنے اور ہر واقعہ پر تازہ ترین اسٹیٹس اپ ڈیٹ کرنے سے بھی تبدیلیاں اور انقلاب برپا نہیں ہوتے۔
تبدیلی سے مراد ہم ہمیشہ دوسروں میں تبدیلی کی خواہش سے لیتے ہیں جب کہ تبدیلی خود کو بدلنے سے آتی ہے،تبدیلی باعمل ہونے سے آتی ہے یعنی پہلے خود کو تبدیل کریں کچھ با عمل بنیں۔ا نسانی فطرت ہے کہ لوگ اپنے روزمرہ یکساں معمولات پر ہی چلنے کو ترجیح دیتے ہیں ، اپنے گوشہ عافیت یعنی اپنے کمفرٹ زون سے باہر نکلنا ہی نہیں چاہتے۔انسانی ذہن تبدیلی کو فوری طور پر قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا۔
زندگی کا ہر لمحہ نیا ہوتا ہے یعنی صرف وقت ہی نہیں بدلتا ہماری زندگی بھی لمحہ بہ لمحہ بدل رہی ہوتی ہے۔ہر دن ایک نیا دن ہوتا ہے اور ہر لمحہ ایک نیا لمحہ ہوتا ہے جبھی تو کہتے ہیں کہ وقت کبھی ایک سا نہیں رہتا۔جس طرح موسم بدلتے ہیں دن رات بدلتے ہیں اسی طرح انسان کی زندگی میں اتار چڑھاؤ،عروج و زوال آنا بھی تبدیلی کی ہی ایک قسم ہے۔
کیوں نہ دوسروں میں تبدیلی کی خواہش کو پس پشت ڈال کر خود کو تبدیل کرنے کا سوچیں مثلااپنے روزمرہ معمولات پر نظر ڈالئے، کیوں نہ ہر روز کچھ نیا بدل کر دیکھیں۔ چلئے آج اپنے دفتر رستہ بدل کے جاتے ہیں،،کیوں نہ اپنے پسندیدہ ریسٹورنٹ کے بجائے کسی اور جگہ کھانا کھا کے دیکھا جائے،کوئی نئی زبان سیکھنے کی کوشش کیوں نہ کی جائے۔اکثر ہم چھوٹی چھوٹی اشیاء مثلاً ٹشو پیپر یا اسی نوع کی کوئی معمولی سی چیز بڑے اسٹور سے خریدنا پسند کرتے کیوں نہ ایک چھوٹی سی چیز سڑک کنارے بیٹھے ایک چھوٹی سی چھابڑی والے سے لیں،کیوں نہ آج اپنے کمرے کی سیٹنگ بدل دی جائے یعنی ہماری زندگی میں کتنی متنوع چیزیں ہیں اگر روز مرہ زندگی کے معمولات میں ذرا سی بھی تبدیلی لے آئیں تو اپنی زندگی پہ طاری جمود سے چھٹکارا پایا جا سکتا ہے۔اور بطاہر معمولی نظر آنے والی تبدیلی بھی آپ کے مزاج پر خاصا خوش گوار اثر ڈال سکتی ہے۔ یوں بھی زندگی پر جمود طاری ہو تو انسان مایوسی اور ڈپریشن کا شکار ہو جاتا ہے۔
تبدیلی سے فرار تخلیق سے انکار ہے،تبدیلی کا رک جانا موت ہے،تبدیلی سے انکار زندگی سے انکار ہے۔

ایک محنت کش خاتون ہیں۔ قسمت پر یقین رکھتی ہیں۔کتابیں پڑھنے کا شوق ہے مگر کہتی ہیں کہ انسانوں کو پڑھنا زیادہ معلوماتی، دل چسپ، سبق آموز اور باعمل ہے۔لکھنے کا آغاز قلم کار کے آغاز کے ساتھ ہوا۔ اپنی بات سادہ اور عام فہم انداز میں لکھتی ہیں۔ قلم کار ٹیم کا اہم حصہ ہیں۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn