’’وی سی آر دیکھو گے تو گناہ ملے گا دوزخ میں ڈالے جاؤ گے۔جس نے ڈش انٹینا لگوایا وہ کافر ہو جائے گا‘‘۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے اسی کی دھائی کے آخر میں اور نوے کے اوائل میں امی ابو سے چوری وی سی آر پہ فلمیں دیکھنا ،کرائے پہ وی سی آر لانا اور ایک رات میں 4 یا پانچ فلمیں دیکھ کے واپس کرنا ۔پھر ڈش انٹینا آئے تو پہلے تو لگوانا ہی حرام ٹھہرا اور جب لگوا لیا تو امی جی نے ایک ہفتہ ہم سب سے بات نہیں کی تھی اور ساتھ ہی یہ فرمان جاری کر دیا کہ ہم تقریبا بد دین ہو جائیں گے نماز روزہ بھول جائیں گے اور شائد سکول کالج جانا بھی بند کردیں ۔یہی سنتے سنتے کیبل کا دور دورہ آجاتا ہے تو شجر ممنوعہ ٹھہری کہ اگر کیبل لگوائی تو میں گھر سے چلی جاؤں گی۔ اس دھمکی نے ہمیں خاصا ڈرا دیا تھا ۔پر پھر آخر کار کافی منت سماجت کے بعد کیبل نہ صرف لگی بلکہ اب تو چوبیس گھنٹے چلتی ہے۔۔۔ یہ تو تھی پرانی کہانی اب آتے ہیں موجودہ حالات کی جانب کہ جب چوبیس گھنٹے چینل چلیں گے تو کیا دکھائیں اور کیا نہ دکھائیں یہ ان کہ مرضی ہے کیونکہ الیکٹرانک میڈیا ہمارے ہاں ایک پورا مافیا بن چکا ہے جسے چاہیں آسمان پہ چڑھا دیں جسے چاہیں زمیں بوس کر دیں۔چاہیں تو مرنے والے سب شہید اور نہ چاہیں تو خبر تک نہ چلے ۔۔ خیر جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے ۔۔آج کل ایک کارٹون ڈورے مون کو بند کروانے کے لیے کافی شور مچ رہا ہے ۔۔ تو جناب کیا ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ یہی کارٹون ہیں؟ نہیں ہر گز نہیں ہمارے بچے کیا سلیبس پڑھ رہے ہیں یہ آج تک کسی عقلمند نے نہیں سوچا ۔استاد کیا پڑھا رہے ہیں ۔پچھلے 20 سال میں بچوں کے لیے کتنا ادب لکھا گیا کتنی کہانیاں لکھی گئی ہیں ۔اس کا جواب کسی کے پاس نہیں۔ہمارے ملک میں بچوں کے لیے ڈرامے، فلم یا کارٹون بنائے ہی نہیں جارہے تو پھر ہم کون ہوتے ہیں اعتراض کرنےوالے کہ یہ چیز بچوں کے لیے نقصان دہ ہے ۔ بچوں کے لیے نہ کھیل کے میدان محفوظ ہیں اور نہ پارک تو پھر کاہے کا اعتراض لگاتے ہو بھائی کہ کارٹون بند کرو ۔۔ یہ بات سچ ہے اور میں مانتی ہوں کہ جو بھی ڈبنگ کی جاتی ہے ان کارٹونز پر وہ زبان اور الفاظ انتہائی قابل اعتراض ہیں ۔جس طرح کی ڈریسنگ ہے آج کل کے کارٹونز کی وہ بھی نامناسب ہے پر ہم تو اعتراض تب کریں جب ہم بچوں کےلیے بہت اچھی تخلیقات کر رہے ہوں۔ اور وہ جو ایک تربیت کا مرکز اور محور ماں کی گود ہوا کرتی تھی وہ بھی اب خواب و خیال ہو چکی ہے مان باپ بھی اپنی ذمہ داریوں سے بھاگتے ہیں اور بچوں کو ٹی وی کے آگے بٹھا دیتے ہیں کہ آرام سے کارٹون دیکھو ہمیں تنگ نہ کرو۔ماں باپ کے پاس وقت ہی نہیں ہے کہ وہ خود بچے کو پڑھا سکیں اس سے باتیں کریں کہ بچہ کیا سوچتا ہے کیا چاہتا ہے بس ہر وقت کارٹون پہ لگائے رکھیں گے تو پھر اس بچے کی مرضی وہ جیسے مرضی کرے۔ آج اپ اس بچے کو ٹائم نہیں دے رہے کل وہ آپ کی بات نہیں سنے گا اور یہ سلسلہ چلتا رہے گا ۔۔۔ اب کرنا کیا ہے ؟ بچے کو کتابوں کی طرف مائل کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے جب ماں اور باپ وقت دیں اور کبھی کبھار کسی بک فیر میں لے جائیں ۔خود بھی اگر کتابیں پڑھیں تو زیادہ اچھا اثر پڑے گا۔ جتنا زیادہ ہو سکے اپنا ٹائم بچے کے ساتھ گزاریں اس پر تنقید کم اور تعریف زیادہ کریں۔ کسی کے سامنے بچوں کو بلاوجہ مت ڈانٹیں۔ بچے کو تمام رشتوں کی اہمیت بتائیں ضرور پر بچوں سے رشتے داروں کی جاسوسی مت کروائیں ورنہ بچے اپنے تعلیمی مقاصد بھول کر خاندانی سیاست میں زیادہ دلچسپی لیں گے اور آپ اپنے بچے کا بچپن اس سے چھین لیں گے ۔۔۔ اسے ہر رشتے کو خود دیکھنے اور آزمانے دینا چاہیے۔ اگر آپ خود اپنے بچے کی تربیت اچھی کر رہے ہیں اسے وقت دے رہےہیں تو کوئی کارٹون کوئی فلم س کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ آخر کار بچہ اپنے اصل کی طرف ہی پلٹتا ہے ۔بدلتے وقت اور حالات کے مطابق ہم سب خود کو ڈھالیں گے تو ہی آنے والی نسلوں کے لیے بہترین نمونہ بن سکیں گے ۔ورنہ تو یہی کہتے رہیں گے کہ آؤ بچو سیر کرائیں تم کو پاکستان کی۔
ڈاکٹر زری اشرف ایک ڈاکٹر ہونے کے ساتھ ساتھ سوشل ورکر بھی ہیں۔ اور اس کے علاوہ مطالعہ کی بیحد شوقین۔ قلم کار کے شروع ہونے پر مطالعہ کے ساتھ ساتھ لکھنا بھی شروع کر دیا ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn