عام طور پر کہا جاتا ہے کہ رپورٹرز بے حس ہوتے ہیں۔ روز سینکڑوں کی تعداد میں ایسی رپورٹس منظرِ عام پر لاتے ہیں جس سے روح تک کانپ جائے لیکن مگر ایسے اعتماد سے کرخت آواز میں بیپر دیتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے انہیں کچھ محسوس ہی نہیں ہوتا۔مگر حقیقت یہ نہیں ہے۔عام شہریوں کی طرح ہم بھی جذبات رکھتے ہیں بس سکرین پر اُن کا اظہار نہیں کر سکتے
ایک خاتون ہونے کے ناطے جب کبھی کسی مرد سے بحث ہوتی ہے تو اکثر یہی سننے کو ملتا ہے کہ عورتیں اتنی بھی مظلوم نہیں۔میں مانتی ہوں کہ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔مگر کیا واقعی یہ حقیقت ہے کہ دونوں ہاتھوں میں سے ایک عورت کا ہی ہوتا ہے ہمیشہ؟؟؟؟؟؟؟؟
مری میں ایک 19 سالہ ٹیچر کو جلایا گیا کیونکہ رشتے سے انکار کیا گیا تھا۔کونسا اسلام پڑھا ہے آپ نے جس میں ہمیں انکار کا حق نہیں ہے؟؟؟؟؟
کلاس میں جب کبھی بحث ہوئی ریپ پر تو سننے میں آیا کہ لڑکیاں ایسے کپڑے ہی نہ پہنیں یا ایسی حرکتیں ہی نہ کریں جن سے لڑکے ریپ کریں اُن کا۔میرا تب بھی یہی سوال ہوتا تھا اور اب بھی یہی ہے کہ آخر ایک چار پانچ سال کی لڑکی نی ایسا کونسا لباس پہنا ہوگا کہ وہ ایک مرد کو اپنی اداؤں سے لُبھا سکے اور وہ اُس کا ریپ کرے؟؟؟؟
ایبٹ آباد ہو یا مری کیا فرق پڑتا ہے۔سندھ ہو یا بلوچستان کس کو فکر ہے۔۔۔۔۔پنجاب میں کوئی مرے یا گلگت بلتستان میں کیا کرنا ہے سوچ کر۔۔۔۔یقیناً لڑکی کا ہی کوئی قصور ہوگا۔۔۔۔۔تو بس اتنی سی گزارش ہے کہ ہر دوسرے دن اتنی محنت نہ کروائیں ہماری کہ ہمیں رپورٹ کرنا پڑے
ہمت کر کے ایک ہی دفعہ سب عورتوں کو اکٹھا کرو
اور
جلا دو


دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn