اکثر مشاہدے میں آیا ہے کہ ہم لوگ بنیادی طور پر شخصیت پرست واقع ہوئے ہیں اور شخصیت پرستی بھی ایسی کہ خدا کی پناہ ،ایک بار ہم کسی کی زلف کے اسیر ہوگئے تو مجال ہے کہ اس سے اختلاف کریں چاہے وہ شخص ،لیڈر، مبلغ ،عالم دین، سیاسی وسماجی ورکر کتنا بھی غلط اور بے معنی موقف ہی کیوں نہ رکھتا ہو۔ چونکہ ہم بذات خود اس کے حمایتی ہیں اس لیے اس لیڈر، مبلغ، عالم دین یا سیاسی و سماجی ورکر کی ہر غلط یا درست بات کی حمایت کرنا ہمارا فرض ہی تو بن جاتا ہے ۔ایک جگہ پڑھا تھا کہ شخصیت پرستی بت پرستی سے بھی بد تر ہے کیونکہ بت بے جان ہے اور کسی بھی مصلحت کا شکار نہیں ہوتا جبکہ شخصیت مصلحت کا شکار ہو کر اپنا مؤقف تبدیل کر سکتی ہے۔
نام نہاد جمہوری دور ہونے کے ساتھ ساتھ اب تو سیاسی پارٹیز میں بھی جمہوریت کی باتیں چل نکلی ہیں۔ انٹراپارٹی الیکشنز اس ہی کی ایک کڑی ہے۔ لیکن ہم جتنے مرضی جمہوری ہو جائیں ہمارے لیڈرز کا رویہ ہمیشہ وہی ڈکٹیٹرز والا ہی رہا ہے۔ اپنی مرضی مسلط کرنا، ورکرز کی رائے کو اہمیت نہ دینا اور ون مین شو ان کے رویے کی عکاسی کرتا ہے۔
پاکستانی قوم تبدیلی اور انقلاب کیلئے ترسی ہوئی قوم ہے۔ کیونکہ یہ قوم بارہا لٹ چکی ہے، یہ قوم تنگ آ چکی ہے اس سسٹم سے۔ یہی وجہ ہے کہ جب اور جہاں جس کا جی چاہا اس نے تبدیلی اور انقلاب کے نام پر اس قوم کا خوب مزاق اڑایا اور اپنے ذاتی مفادات کو عملی جامہ پہنایا۔ ایک بار جب کسی نے انقلاب یا تبدیلی کا نعرہ لگایا یہ قوم اسے ہاتھوں پر ہی تو اٹھا لیتی ہے۔ لیکن اس قوم سے اک شکوہ بھی ہے کہ اس قوم کے لوگ آنکھیں بند کرکے کسی بھی شخص کے پیچھے ایسے چل دیتے ہیں کہ جیسے یہی ان کی آخری امید ہو لیکن آخر میں ہوتا وہی ہے جو انہتر سالوں سے ہوتا آیا ہے۔ دھوکہ۔۔۔
اپنے آس پاس دیکھئے اندھے مقلدین کی ایسی ایسی مثالیں ملیں گی کہ ہوش اڑ جائیں گے۔ مثلاََ
آپ نے کئی عالم دین حضرات کو دیکھا اور سنا ہوگا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر پر بیٹھ کر ایسی ایسی باتیں کر جاتے ہیں کہ ان کا دین سے دور دور تک کوئی تعلق نظر بھی نہیں آتا۔لیکن چونکہ جس فرقے کا عالم ہوگا اس فرقے کے لوگ کہاں اس کو غلط کہیں گے باجود اس کے کہ وہ غلط ہے۔ بلکہ جو اس عالم صاحب کی اصلاح کی نیت سے بات کرنا چاہے گا اسے بھی گستاخ ،مرتد اور واجب القتل کے اعزازات سے نوازا جائے گا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اگر عالم صاحب اگر بھول گئے ہوں تو ان کی اصلاح کرتے لیکن چونکہ وہ میرے فرقے کا عالم ہے وہ تو غلط ہو ہی نہیں سکتا۔
بالکل اسی طرح سیاسی لیڈرز بھی کرتے آئے ہیں ۔مثلاََ ایم کیو ایم کے وڈے اور سابق بھائی الطاف حسین نے جب پاکستان کا پرچم جلایا تھا اور حال ہی میں جب پاکستان مردہ باد کے نعرے لگوائے تو رونا آیا اس قوم کی حالت پر جو سابق بھائی کے ڈر کے ہاتھوں اتنے مجبور تھے کہ انہوں نے یہ بھی نہ سوچا کہ وہ جس ملک کا ستر برس سے کھا رہے ہیں اسی کے خلاف نعرے بھی لگا رہے ہیں۔ کسی ایک شخص میں بھی ایسی ہمت نہ ہوئی کہ وہ کھڑا ہو کر کہہ دیتا کہ میں نہیں لگاؤں گا پاکستان کے خلاف نعرے، میں نہیں کہوں گا پاکستان کو جہنم۔ لیکن نہیں شراب کے نشے میں دھت اپنے لیڈر کے یہ اندھے مقلد گلے پھاڑ پھاڑ کر پاکستان کے خلاف نعرے لگا کر پوری دنیا کو تماشا دیکھا رہے تھے۔ حد ہوتی ہے اندھے پن کی۔
آئیں ذرا قادری صاحب کے مقلدین کی بات بھی ہو جائے۔دھرنے کے دنوں کو بھلا کون بھول سکتا ہےجب قادری صاحب نے زندہ لوگوں کیلئے قبریں کھودوا کر انہیں زندہ دفن کروایا اور پارلیمنٹ پر حملے بھی کروائے۔ لیکن مجال ہے کسی نے اپنے لیڈر سے عرض کی ہو کہ حضور مانا ہمیں انصاف نہیں مل رہا لیکن زندہ دفن ہونا اور اپنے وطن کے اثاثوں کو نقصان پہنچانا غلط ہے۔ لیکن نہیں ان اندھے مقلدین نے آؤ دیکھا نہ تاؤ ٹوٹ پڑے پارلیمنٹ پر اور لگے زندہ لوگوں کے لیے قبریں کھودنے ۔اور پھر آخر میں وہی ہوا، قادری صاحب لندن سدھار گئے اور انقلاب انڈوں سے باہر نہ آسکا۔
ادھر میاں سرکار نے اندھا دھند فائرنگ کروا کے ماڈل ٹاؤن میں چودہ لوگوں کی جان لی اور سوسے زیادہ زخمی کروائے۔ پانامہ والا پاجامہ بھی سب کے سامنے ہے لیکن مجال ہے کہ کسی ن لیگ کے مقلد نے بڑے پن کا مظاہرہ کرکے تسلیم کیا ہو کہ ماڈل ٹاون میں لوگوں کا قتل غلط تھا۔ کسی نے ہمت کی کہ پانامہ لیکس پر حکومت اپنا مؤقف واضح کرے؟ نہیں جی کسی میں بھی اتنی اخلاقی جرات نہیں۔ بس اپنے مؤقف کو درست ترین ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگانا ہے اور بس۔
کبھی انہوں نے اس بات پر غور کرنے کی زحمت ہی نہیں کی کہ آیا ہمارا یہ مؤقف یا کام ہمارے ملک اور اس قوم کے حق میں، مفاد میں ہے بھی کہ نہیں۔ کاش بڑے میاں صاحب بڑے پن کا مظاہرہ کرتے اور پانامہ لیکس پر قوم سے معافی مانگ کر اپنے سارے اثاثے پاکستان لانے کا اعلان کرتے، آئندہ ایسی غلطی نہ کرنے کا عہد کرتے اور ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے ٹھوس اقدامات کرتے، لیکن نہیں۔ وہی ہٹ دھرمی۔
چلیے آگے بڑھتے ہیں اینگری برڈ عمران خان صاحب کی طرف، اگرچہ خان صاحب نے پی پی پی اور پی ایم ایل این کو یہ کر کے دکھایا ہے کہ حضور فرینڈلی اپوزیشن کے علاوہ بھی کوئی اپوزیشن ہوتی ہے۔ لیکن خان صاحب کے مقلدین بھی باقیوں کی طرح اندھے نکلے، دھرنے کے دنوں میں جب خان صاحب کے ٹائیگرز پی ٹی وی سنٹر کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے لیے نکلے تو کسی ایک بھی ورکر یا لیڈر کو اس بات کا خیال نہیں آیا کہ اگرچہ انصاف نہیں مل رہا اور ہمارے قائد کی ڈیمانڈ کے مطابق چار حلقے نہیں کھولے جا رہے لیکن پھر بھی قومی اثاثوں کی توڑ پھوڑ اور ان پر قبصہ کہاں کی عقلمندی ہے؟ لیکن نہیں کسی نے بھی یہ سوچنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔
ادھر جماعت اسلامی والے ہیں۔ یقین کیجئے جب سراج الحق صاحب کو پہلی بار امیرجماعت اسلامی کے طور پر سنا تھا تو تسلی ہوئی تھی کہ کوئی تو ہے جو اس وطن کا مخلص اور ہمدرد ہے۔ کوئی تو اس کی نظریاتی سرحدوں کا محافظ بھی ہے۔ لیکن وقت گزرتا گیا اور سیاسی مفادات کی خاطر ان کے رویے میں مصلحت اور لچک واضح دکھائی دینے لگی۔ ایک طرف آپ ن لیگ کے خلاف کرپش فری ٹرین مارچ کرتے ہیں اور دوسری طرف جہلم کے ضمنی الیکشن میں ن لیگ کے اتحادی بھی ہیں۔ کیا اس کو وکٹ کے دونوں طرف کھیلنا نہیں کہتے؟ کسی ایک ورکر نے ہمت کی کہ امیر صاحب یہ دوہرا معیار کیوں؟ لیکن نہیں، کیونکہ ہم نے تو آنکھیں بند کر رکھی ہیں، سانوں کی(ہمیں کیا)۔
کالم کے آخری حصے میں اس قوم سے اک بات عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آپ بے شک ٹائیگر ہیں، جیالے ہیں یا متوالے ہیں لیکن ان سب سے پہلے آپ پاکستانی ہیں۔ آپ کا لیڈر جو مرضی مؤقف اپنائے، کوئی کام کرے یا کرنے کا حکم دے تو ایک بار ڈھنڈے دماغ سے غور ضرور کر لیا کریں کہ یہ مؤقف یا کام میرے وطن اور اس قوم کے حق میں ہے بھی کی نہیں؟ آپ دل کھول کر سیاست کریں لیکن جب بات پاکستان کی، سرکاری املاک کی اور اس ملک کی عزت کی ہو تو آپ نے نیوٹرل ہو کر خود فیصلہ کرنا ہے کہ یہ فیصلہ میرے ملک اور میری قوم کے مفاد میں ہے بھی کہ نہیں؟ آپ نے اپنے قائد کے ہر غلط فیصلے اور حکم کے سامنے وطن عزیز کی ناموس کی خاطر ڈٹ جانا ہے کیونکہ پاکستان ہے تو سب کچھ ہے، اگر پاکستان نہیں تو کچھ بھی نہیں۔۔۔۔
پاکستان پائندہ باد
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn