فلسفے کی بنیاد بھی سوال پر ہے۔ یہ سوال ہے جس نے بے شمار علوم کو جنم دیا۔ یہ سوال ہی ہے جس نے تحقیق اور جستجو کے دروازے کھولے اور ارتقائی عمل کے راستے پر سفر شروع کیا جو بتدریج ہنوز جاری ہے۔
ارتقائی عمل کے اس تسلسل میں یہ نتیجہ بھی اخذ ہوتا ہے کہ آنے والی نسل پہلے سے بہتر ہوتی ہے۔ اس کے پاس ماضی ایک تجربے اور مشاہدے کی صورت موجود ہوتا ہے اور وہ ا س سے مستقبل کی راہیں ہموار کرتی ہے اور یوں انسانی شعور وقت اور حالات کی ہنگامہ خیزی میں آگے بڑھتا ہے۔ اور پھر یہ ہنگامہ خیزی جتنی بھی ہمہ جہت ہو گی شعوری سفر بھی اتنا ہی ہمہ جہت ہو گا۔ جو فطری رفتار سے بھی تیز ہو کر نئے امکانات کو پیدا کرتا اور انسان کو اپنے پیچھے دوڑنے پر مجبور کر دیتا ہے اور پھر اسی طرح نئی نسل نئے سوالات کو جنم دیتی اور جوابات تلاش کرتی ہے شاید یہی وہ پس منظر ہے اور اس کی شعوری سفر میں جھانکنے کی کوشش ہے کہ ہر نئی نسل ماضی کو مسترد کرتی اپنے لیے نئے راستے تلاش کرتی….. اور ارتقائی عمل کو جاری رکھتی ہے۔ یہ الگ بات کہ ماضی کے محافظ اور ’اسیران گم گشتہ‘….. جو خود بھی قیدی ہوتے ہیں اور انھوں نے اپنوں میں سے منتخب چیدہ ماضی پرستوں کو اپنا محافظ بنایا ہوتا ہے۔ دونوں مل کر نئی نسل کا راستہ روکتے اور اسے گمراہ کرنے میں اپنے تجربے اور مشاہدے کے زیادہ بہتر ہونے کا زعم استعمال کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے….. لیکن نئی نسل اس پر صاد نہیں کرتی اور اپنا سفر جاری رکھتی ہے۔ لیکن وہ جو ماضی پرست ہوتے ہیں خود ساختہ حصاروں سے باہر نہیں آتے یہی ارتقائی عمل ہے جو صدیوں کے سفر سے گذرتا آج تک پہنچا ہے۔ کل بھی جاری رہے گا اور اس سے بھی آگے بڑھے گا۔ نئی نسل نئے راستوں پر گامزن رہے گی۔ حکمران طبقے کے گماشتہ ماضی پرست انھیں گمراہ رکھنے کو ہر حربہ، ہر وسیلہ، ہر اختیار استعمال کرتے تاریخ، تہذیب اور ثقافت کو بھی اپنے مفادات میں ڈھالتے اور اس کی تدریس کرتے ہیں تا کہ گمراہی مزید گہری ہو۔
لیکن ….. وقت اور حالات کا جبر جب نئے امکانات پیدا کرتا ہے تو خواہشیں اور جستجو ماضی میں جھانکنے اور اس پر نظر ثانی کو مجبور کر دیتی ہیں وہ ماضی جس کو شاندار اور قابل فخر بنا کر پیش کیا جاتا ہے حقائق کا آئینہ روبرو ہوتا ہے تو اس میں چہرے اپنے خد و خال اور جھریوں کے ساتھ نمایاں ہو تے ہیں نقاب سرکتا ہے تو معلوم ہوتا ہے وہ جسے خوش نما اور دیدہ زیب بنا کر پیش کیا جاتا تھا اس میں کتنی کراہت چھپی ہوئی ہے۔ نئی نسل کی جستجو اور تلاش شرمندگی کے احساس میں ڈوب کر، ماضی کے اس جوہڑ سے جب کچھ ڈھونڈتی ہے تو اسے کیچڑ اور گندگی کے کیڑوں کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔
دنیا میں شاید ہی کوئی ہم ایسی بدقسمت قوم ہو کہ جس کو تاریخ کے نام پر جھوٹ پڑھایا گیا ہو یا پھر حملہ آوروں کے ظلم و زیادتی اور لوٹ مار کو ’جہاد‘ بنا کر پیش کیا گیا ہو۔ بادشاہت اور ملوکیت کی راجدھانیوں کو مذہبی تحفظ فراہم کیا گیا ہو۔ غیر نمایندہ اور غیر منتخب حکومتوں کو اسلامی حکومتیں قرار دیا گیا ہو۔ حالانکہ تاریخ کے تجزیہ میں واضح ہے کہ حملہ آور صرف حملہ آور ہوتے ہیں اور ان کے مقاصد میں کچھ فرق نہیں ہوتا۔ کسی نظریے کی تبلیغ اور تدریس نہیں ہوتی نظریہ محض ایک ہتھیار کے طور پر استعمال ہوتا ہے لیکن ….. ہمیں بتایا گیا ہے کہ یہ ملک ایک نظریاتی ملک ہے اور یہ ایک مخصوص نطریے کی ترویج اور ترقی کے لیے وجود میں آیا تھا۔ یہی نظریہ اس ملک کا محافظ ہے اور اس نظریے کی حفاظت کے کچھ دعویدار بھی ہیں۔
ورنہ سچائی تو یہ ہے کہ ….. تحریک پاکستان میں ان نظریاتی محافظوں کی عملی شرکت نہیں تھی بلکہ یہ اپنے عمل اور کردار سے مخالف کیمپ کی حمایت کر رہے تھے۔ دینی سیاسی جماعتیں عملی جدوجہد سے دور ہونے کے باعث عوام کو بھی متحرک کرنے میں کوئی کردار ادا نہیں کر رہی تھیں….. آج یہ سارے سونے کی تاروں کے سہرے اپنے چہروں پر سجاکر دولہا بنے ہوئے اقتدار کی دلہن کے اردگرد چکر لگاتے دکھائی دیتے ہیں….. ان کی محبت اور خواہش، عمل اور گرم جوشی دیدنی ہے۔ آوازوں میں گیتوں کا گمان ہے اور پاؤں میں رقص کی حالت۔
کوئی یہ نہیں بتاتا کہ آخر….. تحریک پاکستان میں یہ لوگ کہاں تھے۔ عوام کی خواہشوں کا احترام کرتے ہوئے ان کے ساتھ کیوں نہیں کھڑے تھے؟ اور آج یہ عوام کی حفاظت کے خود ساختہ ذمہ دار کیوں بنے ہوئے ہیں اور وہ کون ہے جو انھیں تحفظ اور سرپرستی فراہم کر کے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ اور یہ کٹھ پتلیاں بنے ہوئے ہیں۔ نئی نسل کو وقت اور حالات کے جبر نے ماضی میں جھانکنے اور سچائی کو کھوجنے پر مجبور کر دیا ہے اور وہ یہ دیکھ کر حیران ہوتی ہے کہ ….. کیمونسٹ پارٹی آف انڈیا میں شامل مسلمان سیاسی ورکرز فکری سطح پر کام کر رہے تھے۔ وہ مسلمانوں اور پاکستان کے حق میں لٹریچر بھی شائع کرتے اور جلسے جلوسوں میں تقریریں کرتے تھے۔ یہ انہی کی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ کیمونسٹ پارٹی کے پلیٹ فارم سے ہی سب سے پہلے پاکستان کے حق میں قرارداد منظور ہوئی تھی اور مسلم لیگ کو ترقی پسند قومی جماعت قرار دیا گیا تھا اس قرارداد کی منظوری میں سید سجاد ظہیر اور سید سبط حسن نے اہم کردار ادا کیا تھا….. یہ الگ بات کہ قیام پاکستان کے بعد سید سجاد ظہیر کو پاکستان نہیں آنے دیا گیا۔ وہ ہندوستان میں ہی مقیم رہے۔ ایک اور تلخ سچائی تو اس تناظر میں اور بھی ہے ….. آج ہر طرف پاکستان اور چین کی دوستی کو دونوں طرف کے حکمران، ہمالیہ سے بلند اور پوری دنیا کے لیے مثالی قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ تلخ سچائی تو یہ ہے کہ ملکوں کے درمیان کوئی دوستی ہوتی ہے اور نہ ہی استحکام کو دیرپا قرار دیا جاتا ہے۔ یہ مفادات کا تبادلہ ہوتا ہے اور اس میں زیر و بم آتے رہتے ہیں۔ جیسا کہ آج کل امریکا اور پاکستان کے تعلقات میں واضح تضادات کا چرچا ہے۔ امریکا کے ساتھ ہمارے حکمران طبقے ان تعلقات کو مثالی بھی کہتے تھے اور انھوں نے اس کے لیے ہر قربانی بھی پیش کی تھی۔ امریکا نے اپنے مفادات کے لیے پاکستان کو قربانی کا بکرا بھی بنایا تھا۔ لیکن چین کے ساتھ دوستی اور سی پیک منصوبہ نے امریکی مفادات کو زک پہنچائی ہے تو سارا ماضی فراموش کر دیا گیا ہے۔ کل کیا ہو گا یہ کہنا قبل از وقت ہے لیکن ماضی کی بازگشت میں ایک سچائی سید جعفر احمد نے اپنی کتاب میں بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ1948 میں ایک سولہ صفحے کا پمفلٹ ’انقلاب چین‘ کے عنوان سے شائع ہوا تھا جس پر پاکستان کی حکومت نے پابندی عائد کر دی تھی …. کیا پاکستان کے حکمران طبقے اور ان کے مؤرخین اس صداقت کو تاریخ کا حصہ بنانے کو تیار ہیں؟؟ وقت، حالات و حوادث میں آگے بڑھتا رہتا ہے، فیصلے تاریخ کا حصہ بن کر محفوظ ہو جاتے اور بوقت ضرورت کام آتے ہیں، تا کہ ان سے سبق حاصل کیا جائے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn