پنگ شن، گزشتہ صدی کے چین کے اول درجے کے ادیبوں میں شمار ہوتی ہیں۔ ان کا اصل نام شیئے وانگ اینگ تھا۔ قلمی نام انھوں نے پنگ شن اختیار کیا۔ اپنی طویل عمر میں پنگ شن نے بے شمار ناول، افسانے اور کہانیاں لکھیں۔ ’’ نوجوان قارئین کے نام خطوط‘‘ ان کی ہلکی پھلکی تحریروں کا مقبول سلسلہ ہے جس کی بدولت انھیں چین اور بیرونی دنیا میں بچوں کی ادیبہ کے طور پر شہرت ملی۔ ان کی تحریریں چین، تائیوان اور ہانگ کانگ کے سکولوں کے نصاب میں شامل ہیں۔ پنگ شن اپنی ابتدائی رومانوی تحریروں میں برِصغیر کے نوبل انعام یافتہ ادیب ٹیگور سے بھی متاثر نظر آتی ہیں۔ ان کی تحریریں ندرتِ خیال، حسین تخیل اور رومانوی اسلوب کا شاہکار مانی جاتی ہیں۔ وہ ہلکے پھلکے انداز میں زندگی کے بڑے بڑے فلسفیانہ حقائق بیان کر دیتی ہیں۔ افسانہ ’’علیحدگی‘‘ میں بھی ایک نئی ٹیکنیک سے کام لیتے ہوئے زندگی کی اس تلخ حقیقت کو بیان کیا ہے کہ انسان تو قبل از پیدائش ہی مختلف طبقوں میں بٹ چکے ہوتے ہیں۔ افسانے کی بنت اور اندازِ بیان نیند میں مسکراتے ہوئے بچّے کی طرح خوبصورت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’علیحدگی‘‘
کسی کے بہت بڑے ہاتھ نے مجھے درد کے اذیت ناک جال سے کھینچ کر باہر نکالا اور فضا میں میری پہلی چیخ بلند ہوئی۔ پھر کسی اور نے مجھے ہتھیلی پر اٹھا لیا اور سفید بستر پر دراز عورت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:
مبارک ہو! بیٹا ہے ۔۔۔۔ ‘‘
پھر اس نے مجھے ایک چھوٹی سی ٹوکری میں جس پر سفید کپڑا بچھا ہوا تھا، لٹا دیا۔ سفید گاؤن اور ٹوپیاں پہنے تمام نرسیں عورت کے گرد گھیرا ڈالے کھڑی تھیں۔ زرد چہرے اور پسینے میں شرابور عورت نے طویل سانس لی جیسے خوفناک خواب سے جاگی ہو۔ اس کے سوجے ہوئے پپوٹے ادھ کھلے تھے۔ ڈاکٹر کی بات سن کر اس نے اطمینان سے آنکھیں موند لیں۔
’’شکریہ ڈاکٹر، آپ لوگوں کو میری وجہ سے بہت مشکل وقت دیکھنا پڑا‘‘
میں نے یہ سن کر ایک بلند چیخ میں کہا:
’’نہیں ماں، یہ تو ہم تھے جنھوں نے مشکل وقت دیکھا۔ ہم دونوں نے ابھی ابھی موت سے جنگ لڑی ہے۔‘‘
ماں کو نرسوں کے ہجوم میں پہیوں والی کرسی پر کمرے سے باہر لایا گیا۔ مجھے بھی وہ لوگ کوریڈور میں لے آئے جس کی دوسری طرف ایک آدمی کھڑا تھا اور ایسا لگتا تھا وہ بھی بھیانک خواب سے جاگا ہو۔ ڈاکٹر کا اشارہ ملتے ہی وہ بھی ہمارے قریب چلا آیا۔ اس نے میری طرف اپنی بانہیں پھیلا دیں جیسے مجھے اٹھانا چاہتا ہو۔ لیکن پھر خوفزدہ ہو کر اپنے ہاتھ کھینچ لیے۔ اس نے اپنا متفکر چہرہ مجھ پر جھکا لیا۔ اس کی آنکھوں سے پیار بھری حیرت جھلک رہی تھی۔
’’اچھا ہے نا؟ ‘‘ ڈاکٹر نے پوچھا
’’ آں ۔۔۔۔۔ لیکن اس کا سر تو بہت لمبا ہے۔‘‘ اس نے ہکلاتے ہوئے کہا۔
اور مجھے اچانک جیسے اپنے سر کا درد یاد آ گیا۔ میں زور سے رو پڑا:
’’ابو! آپ کو کیا اندازہ کہ میرا سر کتنے تکلیف دہ طریقے سے نکالا گیا۔‘‘
’’اُف خدایا، کتنی تیز آواز ہے!‘‘ ڈاکٹر نے ہنستے ہوئے مجھے ایک نرس کے حوالے کر دیا جو مسکرا رہی تھی۔
پھر مجھے ایک وسیع دھوپ دار کمرے میں لیجایا گیا۔ دیوار کے ساتھ جھولوں کی قطار سی بنی ہوئی تھی اور ان سب میں بچے لیٹے ہوئے تھے۔ کچھ آرام سے سو رہے تھے اور کچھ چیخ رہے تھے۔ ’’میں بھوکا ہوں‘‘ ، ۔۔۔ ’’مجھے گرمی لگ رہی ہے‘‘، ۔۔۔ ’’میں گیلا ہو گیا ہوں‘‘۔ نرس جس نے مجھے اٹھا رکھا تھا، اس سارے شور شرابے سے لاتعلق سی لگ رہی تھی۔ وہ مجھے کمرے سے ملحق غسل خانے میں لے گئی اور ایک پتھر کی میز پر لٹا دیا۔ نیم گرم پانی کی دھاریں میرے جسم پر گریں اور مجھے کپکپی سی آئی۔ لیکن ساتھ ہی میں نے اپنے آپ کو تازہ دم محسوس کیا۔ میں نے تھوڑا سا سر گھما کر ساتھ والی میز کی طرف دیکھا۔ وہاں ایک بچّے کو نہلایا جا ریا تھا۔ اس کا سر گول، آنکھیں بڑی بڑی، رنگت سیاہی مائل اور جسم مضبوط تھا۔ وہ خاموشی کیساتھ کمرے سے باہر دیکھ رہا تھا۔ غسل کے بعد ہم دونوں کو سفید گاؤن پہنا دیے گئے۔ میری نرس نے اس کی نرس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:
’’تمھارا بچہ کتنا بڑا، مضبوط اور توانا ہے۔ لیکن میرے والا ۔۔۔۔۔۔ خوبصورت اور نازک ہے۔‘‘
’’کیسے ہو؟‘‘ ۔۔۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’ٹھیک ہوں، شکریہ۔‘‘ اُس نے دوستانہ جواب دیا۔
غسل کے بعد نرسوں نے ہمیں بھی دو پنگوڑوں میں ساتھ ساتھ لٹا دیا اور خود چلی گئیں۔
’’اُف میرا درد سے برا حال ہو رہا ہے۔‘‘ میں نے کہا ’’مجھے اس دنیا میں آنے کے لیے بہت محنت کرنا پڑی۔ آخری چار گھنٹے تو بہت ہی تکلیف دہ تھے۔‘‘
’’مجھے زیادہ محنت نہیں کرنا پڑی۔ بس یہی کوئی آدھ گھنٹہ۔ اور نہ ہی میری ماں کو زیادہ تکلیف اٹھانا پڑی۔‘‘ وہ اپنی مٹھیاں بھینچتے ہوئے مسکرایا۔
میں اس کی بات سن کر خاموش رہا۔ اس نے پھر کہا:
’’تم تھک چکے ہو، سو جاؤ، میں بھی یہی کرنے والا ہوں۔‘‘
میں گہری نیند سو رہا تھا جب کوئی مجھے اٹھا کر شیشے کے دروازے کے پاس لے گیا۔ دروازے کے اس طرف بہت سے لڑکے لڑکیاں تھے اور مجھے دیکھنے کے شوق اور تجسس میں انھوں نے اپنے ہاتھ اور منہ اتنے زور سے شیشے کے ساتھ چپکا رکھے تھے کہ سب کی ناکیں چپٹی ہو رہی تھیں۔ وہ مجھے ایسی متجسس نگاہوں سے دیکھ رہے تھے جیسے بچّے دوکانوں میں رکھے ہوئے کھلونوں کو دیکھتے ہیں۔ وہ میری طرف اشارے کرتے ہوئے کہہ رہے تھے:
’’اس کی بھنویں اپنی پھوپھو جیسی ہیں‘‘
’’اور ناک چچا کی طرح‘‘
’’آنکھیں ماموں پر گئی ہیں۔‘‘
’’منہ تو بالکل خالہ جیسا ہے۔‘‘
مجھے ایسا لگا جیسے وہ مجھے ٹکڑوں میں تقسیم کر رہے ہوں۔ میں زور سے رو دیا۔
’’نہیں، میں کسی جیسا نہیں ہوں۔ میں تو اپنے جیسا ہوں۔ مجھے سونے دو‘‘
نرس مجھے روتا دیکھ کر مسکرانے لگی اور واپس پنگوڑے میں لا کر لٹا دیا۔ اس وقت تک میرا پروسی بھی جاگ چکا تھا۔ اُس نے مجھے واپس آتے دیکھ کر پوچھا:
’’کون آیا تھا تمھیں دیکھنے؟‘‘
’’پتہ نہیں، شاید میرے ماموں، چچا اور خالائیں۔ بہت سے لوگ تھے۔ ایسا لگتا ہے جیسے میں انھیں پسند آیا ہوں۔‘‘
وہ ایک لمحے تک خاموش رہا، پھر کہنے لگا:
’’کتنا اچھا ہے۔ مجھے تو پیدا ہوئے دوسرا دن ہو گیا اور میں نے ابھی تک اپنا باپ بھی نہیں دیکھا۔‘‘
میں شاید بہت دیر تک سوتا رہا تھا۔ اب میری گردن اور کمر میں زیادہ درد نہیں تھا۔ لیکن میں گیلا ہو چکا تھا۔ باقی بچّوں کی دیکھا دیکھی میں نے بھی رونا شروع کر دیا: ’’میں گیلا ہو گیا ہوں ۔۔۔ گیلا ۔۔۔۔ گیلا ہو چکا ہوں میں ۔۔۔ ‘‘
جیسا کہ مجھے توقع تھی۔ ایک نرس آئی اور اس نے مجھے اٹھا لیا۔ میں بہت خوش ہوا۔ لیکن یہ کیا؟ اس نے مجھے تھوڑا سا پانی اور پلا دیا۔
شام کو تین چار نرسیں ہمارے کمرے میں آئیں۔ ان کے کلف لگے کپڑے سرسراہٹ پیدا کر رہے تھے۔ انھوں نے جلدی جلدی ہمارے لنگوٹ تبدیل کیے۔ کمرے کے تمام بچے اس تبدیلی سے بے حد خوش اور لطف اندوز ہوئے۔
’’ہم اپنی اپنی ماؤں سے ملنے جا رہے ہیں۔ خدا حافظ!‘‘
میرے ننھے دوست سمیت بہت سے بچوں کو ایک بہت بڑے پہیوں والے بستر پر لٹا کر باہر لیجایا گیا۔ جبکہ مجھے ایک نرس نے اٹھایا اور کوریڈور سے ملحقہ کمروں میں سے ایک میں لے گئی۔ ماں ایک اونچے سے بیڈ پر دراز پر شوق نگاہوں سے مجھے دیکھ رہی تھی۔ لیمپ کی دھیمی روشنی میں وہ کسی مجسمے کی طرح لگ رہی تھی۔ اس کے سیاہ بال یچھے کی طرف بندھے ہوئے تھے۔ چہرہ زرد جیسے اس میں خون کا ایک قطرہ بھی نہ ہو۔ بڑی بڑی سیاہ آنکھیں اور ہلال ابرو۔ وہ بہت جوان دکھ رہی تھی۔ مجھے ماں کی گود میں لٹا دیا گیا اور میں ماں کا دودھ پینے کی کوشش کرنے لگا۔ ماں بہت پیار سے میرے بالوں کو اپنی گال سے رگڑ رہی تھی۔ وہ شاید اس تکلیف دہ عمل سے گزر کر بہت کمزور ہو چکی تھی۔ میں باوجود کوشش کے ماں کے دودھ کا ایک قطرہ بھی حاصل نہ کر سکا۔ بھوک اور احساسِ ناکامی نے مجھے تھکا دیا اور میں رونے لگا۔
ماں نے پیار سے کہا:
’’میری جان، مت رو‘‘
پھر اس نے گھنٹی بجائی جس کے ساتھ ہی ایک نرس کمرے میں آئی اور مجھے واپس لے گئی۔
واپس پنگوڑے میں پہنچ کر میں نے دیکھا کہ میرا دوست پہلے ہی واپس آ چکا تھا اور اپنے پنگوڑے میں مطمعن نیند سو رہا تھا۔ وہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد اپنی نیند میں مسکراتا تھا۔ پھر میں نے اپنے چاروں طرف دیکھا۔ میرے زیادہ تر روم میٹ گہری نیند سو رہے تھے۔ کچھ جاگتے ہوئے غوں غاں کر رہے تھے اور کچھ رو بھی رہے تھے۔ مجھے بہت بھوک لگ رہی تھی اور میں حیران تھا کہ ماں کا دودھ جانے کب آئے۔ مجھے دراصل یہ بات اچھی نہیں لگی تھی۔ حالانکہ اور کسی نے بھی اسے محسوس نہیں کیا تھا۔ یہ احساس کہ دوسرے بچّے سیر شکم ہیں اور میٹھی نیند سو رہے ہیں، مجھے حسد اور شرم سے دوچار کر رہا تھا۔ میں نے اس امید میں زور زور سے رونا شروع کر دیا کہ شاید کوئی مجھے آ کر دیکھ لے۔ آدھ گھنٹے بعد کوئی نرس آئی اور مجھے تھپکیاں دینے لگی۔
’’ہاں، سچ تو ہے، تم بھوکے ہو اور تمھاری امی نے تمھیں دودھ نہیں پلایا۔ چلو تھوڑا سا پانی پی لو۔‘‘ ۔۔ اس نے پانی کی بوتل میرے منہ سے لگا دی۔ میں نے غٹا غٹ پانی پیا اور پھر شاید جلد ہی سو گیا۔
دوسرے روز غسل کے دوران میری اپنے دوست سے پھر باتیں ہوئیں۔ وہ آنکھیں بند کیے سر ہلا ہلا کر غسل سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔
’’کل میں نے خوب دودھ پیا‘‘ اس نے خوشی سے کہا، ’’میری ماں کا سانولا سا گول چہرہ ہے اور وہ بہت خوبصورت ہے۔ میں اس کا پانچواں بچّہ ہوں۔ ایک خیراتی ادارے نے اس کے ہسپتال کے اخراجات پورے کیے ہیں۔ میرا باپ ایک غریب آدمی ہے۔ ۔۔ وہ قصاب ہے ۔۔۔۔۔‘‘
اس وقت نرس نے بورک ایسڈ کے کچھ قطرے اس کی آنکھوں میں ڈالے۔ اس نے ناپسندیدگی سے کچھ چیخیں ماریں، آنکھیں بھینچ بھینچ کر صاف کیں اور پھر باتیں کرنے لگا۔ ’’جانوروں کو ذبح کرنا کتنا خوفناک ہوتا ہے۔ ایک چمکتی ہوئی چھری ان کے جسم کے اندر جاتی ہے اور پھر باہر آ جاتی ہے، خون کے قطروں کے ساتھ۔‘‘
میں اس کی باتیں خاموشی سے سن رہا تھا۔ لیکن اس آخری بات نے مجھے خوفزدہ کر دیا اور میں نے آنکھیں بند کر لیں۔ اس نے پھر کہا:
’’اور تمھارا کیا حال ہے؟ کل تم نے دودھ پیا؟ اور تمھاری ماں کیسی ہے؟‘‘
میں نے کہا: ’’کل مجھے پینے کو کچھ نہیں ملا۔ ماں کا تو ابھی دودھ ہی نہیں آیا۔ نرس کہتی ہے کچھ دنوں میں آ جائے گا۔ میری ماں بہت اچھی ہے۔ وہ پڑھ بھی سکتی ہے۔ اس کے بستر کے ساتھ والی شیلف پر کتابوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا اور کمرے میں پھول ہی پھول تھے۔‘‘
’’اور تمھارا باپ؟‘‘
’’وہ وہاں نہیں تھا۔ ماں بس اکیلی تھی اور کسی سے بات بھی نہیں کر رہی تھی۔ اپنے باپ کے بارے میں ابھی مجھے کچھ معلوم نہیں۔‘‘
’’وہ پھر فرسٹ کلاس وارڈ میں ہے۔‘‘ میرے دوست نے کہا۔ ’’وہاں کمرے میں صرف ایک بیڈ ہوتا ہے۔ میری ماں کے وارڈ میں تو کوئی درجن بھر بیڈ تھے۔ ہمارے اس کمرے کے بہت سے بچوں کی مائیں اسی وارڈ میں ہیں۔ اور ان سب بچوں نے میری طرح خوب پیٹ بھر کر دودھ پیا۔‘‘
دوسرے روز جب مجھے دودھ پینے کے لیے لیجایا گیا تو میں نے اپنے باپ کو دیکھا۔ وہ میری ماں کے تکیے سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔ میرے ماں باپ کے چہرے پریشان تھے اور وہ متفکر نگاہوں سے مجھے دیکھ رہے تھے۔ میرے باپ کا چہرہ پتلا، پلکیں لمبی اور آنکھیں مہربان ہیں۔ وہ اپنی بھنویں سکوڑے رکھتا ہے جیسے ہر وقت کسی نہ کسی سوچ میں گم ہو۔
’’اب میں نے اسے اچھی طرح دیکھا ہے۔ یہ تو تمھاری طرح خوبصورت ہے۔‘‘ میرے باپ نے مجھے دیکھ کر میری ماں سے کہا۔
’’اور اس کی آنکھیں تمھاری طرح بڑی بڑی ہیں۔‘‘ ماں میرے چہرے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پیار سے مسکرائی۔
میرے باپ نے محبت سے ماں کے کندھے کو تھپکتے ہوئے کہا:
’’اب ہم اکیلے نہیں رہے۔ میں اس کی دیکھ بھال میں تمھاری مدد کروں گا۔ اور اپنے سکول ٹائم کے بعد اس سے کھیلا کروں گا۔ ہم چھٹی کے دن اسے پہاڑ یا ساحلِ سمندر پر لیجایا کریں گے۔ ہمیں اس کی صحت کا بہت خیال رکھنا ہو گا۔ اسے میری طرح کمزور نہیں رہنا چاہیے۔‘‘
ماں نے اثبات میں سر ہلایا: ’’ہاں ۔۔۔۔ اسے موسیقی اور مصوری بھی سیکھنی چاہیے۔ مجھے یہ دونوں فنون نہیں آتے اور مجھے لگتا ہے جیسے زندگی ان کے بغیر مکمل نہیں۔‘‘
’’تم کیا چاہتی ہو، یہ بڑا ہو کر کیا بنے، ادیب یا موسیقار؟‘‘
’’جو بھی یہ پسند کرے گا۔ ابھی تو بہر حال یہ بچہ ہے۔ لیکن چین کو سائینس کی ضرورت ہے۔ شاید اس کے لیے سائنسدان بننا زیادہ بہتر ہو گا۔‘‘
مجھے آج بھی دودھ نہیں ملا تھا۔ لیکن اپنے ماں باپ کی دلچسپ باتوں نے مجھے رونے سے باز رکھا۔
’’ہمیں آج ہی اس کی تعلیم کے لیے بچت شروع کر دینی چاہیے۔ جتنا جلدی کریں گے اتنا ہی اچھا ہو گا۔‘‘
میری ماں نے اچانک کہا: ’’ارے ہاں میں تمھیں بتانا تو بھول ہی گئی، میرے بھائی نے کہا ہے کہ جب یہ چھ سال کا ہو جائے گا تو وہ اسے سائیکل لے کر دے گا۔‘‘
’’ہمارے بیٹے کو سب کچھ ملے گا، میری بہن بھی تو اسے جھولا خرید کر دے گی۔‘‘ میرے باپ نے فخر سے کہا۔
ماں میرے سر کا بوسہ لیتے ہوئی بولی: ’’بیٹے، کیا یہ اچھا نہیں کہ اتنے سارے لوگ تم سے پیار کرتے ہیں۔ بڑا ہو کر اچھا لڑکا بننا!‘‘
میں بہت خوشگوار موڈ میں واپس اپنے کمرے میں آیا۔ حالانکہ آج بھی میں بھوکا تھا۔ البتہ میرا دوست آج کچھ فکرمند لگ رہا تھا۔ میں نے اس کو بتایا:
’’سنو! آج میں نے اپنے باپ کو دیکھا۔ وہ ایک سکول ٹیچر ہے۔ وہ میری ماں کے ساتھ میری آئیندہ تعلیم کی باتیں کر رہا تھا۔ اس نے وعدہ کیا ہے کہ وہ میرے اچھے مستقبل کے لیے بہترین کوششیں کرے گا۔ ماں نے کہا ہے کہ اگر اس کا دودھ نہ آیا تو تب بھی پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ کیونکہ جب میں گھر واپس جاؤں گا تو مجھے گائے کا دودھ پینے کو مل جایا کرے گا۔ اور اس کے بعد فروٹ جوس اور بہت ساری دوسری اچھی چیزیں ۔۔۔۔۔ ‘‘ میں نے یہ سب باتیں ایک ہی سانس میں کہہ ڈالیں۔
’’کتنے خوش قسمت ہو تم ۔۔۔۔‘‘ وہ مسکرایا لیکن اس کی مسکراہٹ میں رحم یا حقارت کا جذبہ بھی تھا۔ ۔۔۔ ’’جب میں گھر جاؤں گا تو مجھے ماں کا دودھ بھی پینے کو نہیں ملے گا۔ کیونکہ میری ماں کسی امیر گھر میں ’’دودھ ماں‘‘ کا کام کرنے لگے گی۔ یہ میں نے آج اپنے باپ سے سنا۔ پھر میری دادی میری پرورش کرے گی۔ وہ اب ساٹھ سال کی ہے۔ وہ مجھے چاول کا پتلا دلیہ اور سویا بین پاؤڈر کھانے کو دے گی۔ ۔۔ خیر ۔۔۔ مجھے کوئی پرواہ نہیں۔‘‘
میں خاموش ہو گیا۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے اس کی حقارت آمیز مسکراہٹ سے میرے اندر جو شکایت پیدا ہوئی تھی اس کی جگہ شرمندگی نے لے لی۔ اس نے اپنی بات جاری رکھی۔ اب اس کی آنکھوں میں غرور اور ہمت کی چمک تھی۔
’’تم ہمیشہ ایک ہرے بھرے گھر میں گملے کے پودے کی طرح رہو گے۔ ہواؤں، بارشوں اور بدلتے موسموں کی دھوپ سے محفوظ۔، اور میں سڑک کے کنارے اگی ہوئی اس گھاس کی طرح جسے انسان اور جانور اپنے قدموں تلے کچلتے رہتے ہیں اور جو آندھیوں اور بارشوں کے تھپیڑے سہتی ہے۔ تم شاید اپنے ہرے بھرے گھر کی کھڑکی میں سے مجھے دیکھو گے اور مجھ پر ترس کھاؤ گے۔ لیکن اس کی کوئی ضرورت نہیں۔ میرے سر پر ایک وسیع آسمان ہو گا اور تازہ ہوا۔ تتلیاں اور بھنورے میرے لیے گیت گایا اور رقص کیا کریں گے اور پھر میرے ساتھ اور بھی بہت سے ایسے خاکسار ہوں گے جو گھاس کی کٹائی اور آتش زدگی سے بچ رہیں گے اور پھر ایک ایک کرکے آہستہ آہستہ دنیا کو اپنی ہریالی سے سجا دیں گے۔‘‘
اس کی باتوں نے مجھے رو دینے کی حد تک شرمندہ کر دیا۔ ’’میں نے ۔۔۔۔۔ خود تو ایسی نفیس و نازک زندگی کا انتخاب نہیں کیا۔‘‘ میں نے ہکلاتے ہوئے کہا۔
میری ناخوشی کو محسوس کرتے ہوئے اس کا لہجہ نرم پڑ گیا۔ اس نے مجھے تسلی دیتے ہوئے کہا: ’’سچ ہے ۔۔۔۔ ہم میں سے کوئی بھی دوسرے لوگوں سے مختلف ہونا نہیں چاہتا۔ لیکن ہماری ہر چھوٹی سے چھوٹی چیز ایک کو دوسرے سے جدا کر دیتی ہے۔ چلو دیکھتے ہیں کہ آنے والا وقت ہم دونوں کے لیے کیسا ہو گا۔‘‘
کھڑکی سے باہر روئی کے سفید گالوں جیسی برف نے چھتوں کی سبز اینٹوں پر ڈھیر لگا دیے تھے۔ میں اور ماں نئے سال سے پہلے پہلے گھر جانے والے تھے۔ اور اسی طرح میرا دوست اور اس کی ماں بھی۔ کیونکہ اس کی ماں کو نوروز سے پہلے اپنی نوکری شروع کرنا تھی۔ اب ہم دونوں کے پاس ایک دوسرے کے لیے بس آدھا دن ہی باقی تھا۔ پھر اس کے بعد ہم دونوں کو انسانوں کے سمندر میں کھو جانا تھا۔ کیا پھر کبھی ایسا وقت آئے گا جب ہم دونوں اس طرح ایک چھت تلے سو پائیں گے؟
ہم نے ایک دوسرے کو پسندیدہ نگاہوں سے دیکھا۔ اس کے ہونٹ بھنچے ہوئے تھے اور چہرے سے پختہ عزم عیاں تھا۔ بھنویں سکوڑے ہوئے آنکھوں کے بیچ قدرے زیادہ فاصلہ، ٹھوڑی کچھ دبی ہوئی، اس کا چہرہ شام کی روشنی میں کسی قدر دھندلا سا گیا تھا۔
شام کو اپنی ماؤں کے پاس سے واپس آنے کے بعد ہمارے بیچ پھر گفتگو ہوئی۔ آج شام ہماری روانگی کا پروگرام ملتوی ہو گیا تھا اور اب ہم نے کل صبح یہاں سے رخصت ہونا تھا۔ دراصل میرے باپ نے سوچا تھا کہ نوروز کی شام گھر میں مہمانوں کا جمگٹھا ہو گا اور اس شور و ہنگامے سے میری ماں تھک جائے گی۔ اور میرے دوست کے باپ کو آج شام قرض خواہوں سے بچنے کے لیے گھر سے باہر رہنا تھا۔ رواج کے مطابق لوگ نئے سال کی آمد سے پہلے پہلے اپنے حساب کتاب صاف کرتے ہیں۔ اور وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس سلسلے میں اس کی بیوی کو خامخواہ تکلیف اٹھانا پڑے۔
آج نصف شب تک ہر جگہ پٹاخے چلنے کا لامتناہی سلسلہ جاری رہا۔ شدید برفباری میں گاہے گاہے کتوں کے بھونکنے کی آوازیں ہمیں بتا رہی تھیں کہ ایک اور برس اپنے دامن میں محبتیں اور نفرتیں لیے اپنے معمولی انجام تک پہنچنے والا ہے۔ کل صبح اپنے چہروں پر پھر سے شرافت اور خوشیوں کے ماسک چڑھانے سے پہلے لوگ آج رات کھاتے پیتے ہیں، شکائیتیں کرتے، برا بھلا کہتے اور رو دھو کر جی ہلکا کر لیتے ہیں۔ اس شہر کی اداس گلیوں اور سڑکوں پر نہ جانے کتنے جذبوں کی دھڑکنیں پٹاخوں کی بھک بھک کے شور میں دب گئی تھیں۔
صبح صبح دو نرسیں جن کے چہرے صبحِ نوروز کی مسرتوں سے دمک رہے تھے، ہمیں نہلانے کے لیے آئیں۔ ان میں سے ایک نے مجھے فلانیل کا نیکر، مٹروں کے رنگ کا ہلکا سبز سوئٹر، اسی رنگ کی ٹوپی اور موزے پہنائے۔ یہ کپڑے اس نے چھوٹے سے چوٹ کیس میں سے نکالے تھے۔ مجھے دونوں ہاتھوں میں تھام کر اس نے بغور دیکھا اور کہا: ’’واہ ۔۔۔۔ بڑے خوبصورت لگ رہے ہو۔ تمھاری امی کو تمھیں سمارٹ بنانا آتا ہے۔‘‘ ۔۔۔ کپڑے گرم اور نرم تھے لیکن مجھے یہ کپڑے پہن کر سخت گرمی لگنے لگی۔ بے چینی کے احساس سے میں نے رونا شروع کر دیا۔
اس وقت میرا دوست بھی نرس کے ہاتھوں میں تھا۔ اسے دیکھ کر مجھے شدید صدمہ پہنچا۔ اسے تو پہچاننا بھی مشکل ہو رہا تھا۔ اسے کمر سے نیچے نیلے رنگ کے کپڑے میں لپیٹ دیا گیا تھا۔ اور اوپر نیلے رنگ کی روئی بھری صدری پہنائی گئی تھی۔ جس کے بازو اتنے لمبے اور سخت تھے کہ میرے دوست کی باہیں کسی پتنگ کی طرح اکڑ گئی تھیں۔ ابھی جو سفید لبادے ہم دونوں نے اتارے تھے انھیں دیکھتے ہوئے مجھے جھرجھری سی آئی۔ مجھے معلوم تھا کہ اب ہم ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ایک دوسرے سے علیحدہ ہو گئے ہیں۔ مادی اور ذہنی دونوں اعتبار سے۔
میرا دوست میری نظریں پڑھ کر مسکرایا۔ اس کی مسکراہٹ میں فخر اور خفت کا ملا جلا احساس تھا۔ اس نے کہا: ’’تم اپنے خوبصورت کپڑوں میں اچھے لگ رہے ہو اور میں نے اپنی زرّہ بکتر پہن لی ہے تاکہ کارزارِ حیات میں زندگی کی جنگ لڑ سکوں۔‘‘
نرسوں نے ہمارے استعمال شدہ لبادے لانڈری باسکٹ میں پھینک دیے۔ اور ہمیں اٹھائے ہوئے تیزی سے باہر آ گئیں۔ جب ہم دونوں شیشے کے دروازے کے پاس پہنچے تو میں اپنے رونے پر قابو نہ پا سکا اور میرا دوست بھی اپنے آنسو روک نہ سکا۔ ہم دونوں نے پرجوش طریقے سے اپنے بازو ہلائے اور چلا کر کہا:
’’خدا حافظ ۔۔۔۔ پیارے دوست!‘‘
ہم اپنی جدا جدا راہوں پر چل دیے۔ ہمارے رونے کی آوازیں کوریڈور کے مخالف کناروں کی طرف جاتے ہوئے ڈوبتی چلی گئیں۔
ماں کمرے میں تیار کھڑی تھی، اس کے قریب ہی میرا باپ سوٹ کیس ہاتھ میں اٹھائے کھڑا تھا۔ ماں نے مجھے اپنے بازوؤں میں لے کر میرے آنسو پونچھے اور نرمی سے کہا: ’’مت رو میرے چاند، ہم گھر جا رہے ہیں۔ تمھاری امی کو تم سے بہت پیار ہے اور تمھارے ابّا کو بھی ۔۔۔ ‘‘
پہیوں والی کرسی لائی گئی۔ ماں اس میں بیٹھ گئی، اپنے بازوؤں میں مجھے اٹھائے ہوئے، اس نے ہلکے سبز رنگ کا کمبل اپنے اوپر اوڑھ رکھا تھا۔ ابّو ہمارے پیچھے پیچھے آ رہے تھے۔ ڈاکٹر اور نرسیں جو ہمیں خدا حافظ کہنے آئے تھے ان سے رخصت ہو کر ہم لفٹ کے ذریعے نیچے آئے۔ ہسپتال کے صدر دروازے کے سامنے ہی کار کھڑی تھی۔ ابو نے جونہی دروازہ کھولا، برف کا ایک گالا کار کے اندر چلا گیا۔ ماں نے فورا” میرا چہرہ کمبل سے ڈھانپ دیا۔ ہم کرسی سے اتر کر کار میں بیٹھ گئے اور کار کے دروازے زور سے بند کر لیے۔ ماں نے میرے چہرے پر سے کمبل اٹھایا اور میں نے اپنے چاروں طرف پھولوں کو اور اپنے والدین کے محبت بھرے چہروں کو دیکھا۔
ہسپتال کے گیٹ کے سامنے کی سڑک پر رکشاؤں کی بھیڑ کی وجہ سے ٹریفک جام ہو چکی تھی۔ ہم راستہ صاف ہونے کا انتظار کرنے لگے۔ اسی دوران میں نے کار کے شیشے سے باہر دیکھا اور میری نظر اپنے دوست پر پڑی جسے اس کے باپ نے اٹھا رکھا تھا۔ ان کے پیچھے اس کی ماں تھی جس نے ہاتھوں میں نیلی سی گٹھڑی اٹھا رکھی تھی۔ اس کے باپ نے نمدے کی ٹوپی اور روئی بھرا کوٹ پہن رکھا تھا۔ اس کے ننھے سے بیٹے نے اپنا سر اپنے باپ کے مضبوط کاندھوں پر ٹکایا ہوا تھا۔ میں نے اپنے دوست کا چہرہ دیکھا۔ باپ کی ٹوپی کے سائے کے باوجود، برف کے ننھے ننھے ذرے اس کی بھنووں اور گالوں پر دیکھے جا سکتے تھے۔ اس نے اپنی آنکھیں سختی سے بند کی ہوئی تھیں لیکن اس کے ہونٹوں پر مدھم سی فخریہ مسکراہٹ تھی۔ وہ ہسپتال چھوڑتے ہی اپنی جنگ کا آغاز کر چکا تھا۔
ہماری کار اڑتی ہوئی برف اور جشنِ نوروز کے ڈرموں اور باجوں کے شور کو کاٹتی ہوئی بھاگی چلی جا رہی تھی۔ ماں نے مجھے اپنے ساتھ لپٹاتے ہوئے سرگوشی کی: ’’دیکھو میری جان، ہماری دنیا کتنی ہموار اور صاف ستھری ہے!‘‘
میں بے اختیار رونے لگا۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn