باپ تو ہے نا

وہ باہر بہت نیک انسان سمجھا جاتا تھا۔ ہر ایک کے لیے اچھا سوچنا والا، کسی کا برا نا چاہنے والا، کسی سے نہ لڑنے والا شریف انسان تھا۔ لوگ اس کی تعریف کرتے نہیں تھکتے تھے۔ وہ بے مثال صابر کے نام سے مشہور تھا۔ لوگ کہتے تھے وہ ولیوں جیسا نیک ہے۔ ہر کسی سے اس کو ہمیشہ فائدہ پہنچا ہے۔ اس نے کبھی دانستہ کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کی تھی۔

گھر میں وہ ہر وقت غصہ کرتا تھا۔ اُس کے چہرے پر اپنی اولاد کے لیے کسی نے کبھی ہنسی نہیں دیکھی گئی۔ اپنی اولاد کو کبھی اس نے پاس نہیں بیٹھنے دیا۔ بلکہ یوں کہہ لیجیے کہ کھانا  کھانے کے بعد وہ خود کبھی گھر نہیں بیٹھا تھا۔ اس کے گھر آنے کے بعد ہنسنے پر پابندی تھی۔ وہ کبھی اولاد کو گلے نہیں لگاتا تھا جب کہ بھانجوں بھتیجوں سے بہت پیار اور شفقت سے پیش آتا تھا۔

جب اُس کی اولاد اپنے کزنز کو ابا جی کی گود میں بیٹھے کھیلتے دیکھتی یا اُن کے ساتھ ہنستے دیکھتے تو ان کے اندر کچھ ٹوٹ سا جاتا تھا۔ وہ شدید مایوسی اور کرب کے عالم میں آنکھوں میں آنسو ضبط کیے ہوئے گم سم اور خاموش بیٹھے رہتے تھے۔ شاید اِسی لیے وہ بچے شدید حد تک کم گو اور بغلول لگتے تھے۔اُس کی اولاد میں سے کوئی نا کوئی اس کے رویے پر آدھا گھنٹہ روتا رہتا اور باقی بہن بھائی اپنے تجربات کی بنا چپ کرواتے رہتے تھے کیونکہ ترتیب کے ساتھ وہ سب بہن بھائی اس کرب اور اذیت سے کبھی نا کبھی گزر چکے ہوتے تھے۔

جب وہ بچے کسی بڑے چاچو یا ماموں کے سامنے آنکھوں میں آنسو لیے اپنے باپ کا ذکر کرتے تو وہ بھی کہہ دیتے کہ بیٹا کوئی بات نہیں جیسا بھی ہے تمہارا باپ تو ہے نا اور وہ بچے بھی تب سر ہلا کر کہہ دیتے ہاں باپ تو ہے نا۔ لیکن تب دل میں وہ بچے یہی کہتے تھے۔ ہاں باپ تو ہے لیکن نام کا۔ اللہ کسی کو ایسا باپ نہ دے اور ساتھ ہی تہیہ کرتے تھے کہ ہم تو ہرگز ایسے والدین کبھی نہیں بنیں گے۔

ہمارے ہاں والدین اور خاص طور پر والد بچوں کے ساتھ سختی سے پیش آتے ہیں۔ اس کی بے شمار توجیہات آپ کو جا بجا ملیں گی۔ بہت سارے لوگ اس کے حق میں دلائل کے انبار لگا دیں گے بلکہ لگاتے بھی ہیں۔ لیکن ان میں سے کوئی بھی شخص یہ نہیں سوچتا باپ کا یہ رویہ بچوں کی نفسیات پر کیسے اثرانداز ہوتا ہے۔ بچہ باپ کے اس طرح کے روہے اندر سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتا ہے۔ وہ خود کو غیر محفوظ سمجھتا ہے۔ ہر گزرتے دن اور ہر نیا واقعہ بچوں کو مایوسی اور ذہنی کشمکش میں دھکیل دیتا ہے۔ بے شمار صلاحیتوں کا مالک بچہ بھی اس قدر خوف اور بے یقینی کی سی کیفیت میں جیتا ہے کہ وہ خود کو کم تر سمجھنے لگتا ہے۔ اس کی قابلیت اور تعلیمی کارکردگی متاثر ہوتی ہے.لیکن اب وقت بدل گیا ہے بچوں کے رویوں میں شدت آ گئی ہے۔ پہلے جو بچے یہ سب برداشت کر لیتے تھے۔ اب وہی بچے ایسے رویوں اور ڈانٹ ڈپٹ پر خودکشی کرنے یا کہیں بھاگ جانے کا سوچتے ہیں بلکہ ایسے بہت سے واقعات آئے روز سننے اور دیکھنے کو ملتے ہیں۔ میرے خیال کے مطابق اب والدین کو اولڈ اسکول والے وہ سخت رویے اور ترش لہجے ترک کر کے بچوں  کی دماغی سطح کے مطابق ان کو ڈیل کرنا چاہیے اور ایک اچھا اور خوشگوار ماحول فراہم کرنا چاہیے تاکہ بچوں میں کسی بھی قسم کا احساس محرومی پیدا نہ ہو جو ان کے مستقبل میں ان کے لئے مسائل کا پیش خیمہ بنے. اس لئے ضروری ہے کہ باپ جہاں بچوں کے لئے اتنی محنت کر کے کماتا وہاں کچھ اچھا وقت اپنے بچوں کو دے کر ان کو ذہنی سکون بھی دے. بچے آپ کے مسائل کو سمجھنے  کی اہلیت نہیں رکھتے. بچے معصوم ہوتے ہیں ان کی معصومیت آپ کے مسائل سمجھنے سے قاصر ہے.  ہمارے والدین ہماراقیمتی  اثاثہ ہیں اور ہر اولاد کو اپنے والدین پیارے ہوتے ہیں چاہے وہ جیسے بھی ہوں لیکن والدین سے بھی عرض ہے کہ وہ بچوں کے جذبات کا خیال رکھیں.

حالیہ بلاگ پوسٹس