Qalamkar Website Header Image

ختم نبوت دھرنا ۔۔۔ علماء، سیاستدان اور عوام

یہ دھرنا فیض آباد کے مقام پر 6 نومبر کو شروع ہوا اور 27 نومبر کو آرمی چیف کی طرف سے دی جانے والی گارنٹی کے بعداسکا اختتام ہوا۔ آئیے سب سے پہلے دھرنے کی وجوہات کے پیچھے کون کون سے محرکات تھے ان کا ذکر کرتے ہیں۔
2 اکتوبر کو قومی اسمبلی میں انتخابی اصلاحات کا بل پاس ہوا۔ جس پر اپوزیشن جماعتوں نے بہت شور مچایا۔ اس دوران تقریر کرتے ہوئے شیخ رشید نے حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا اور ایک دھواں دار تقریر کی۔ انہوں نے فضل الرحمان کو مخاطب کرتے ہوئے یہ بھی انکشاف کیا کہ ختم نبوت کو الیکشن بل سے نکال دیا گیا ہے۔ یک دم سوشل میڈیا پر لوگوں نے شور مچانا شروع کر دیا لیکن ابتدا میں کسی کو علم نہیں تھا کہ اصل واقعہ کیا ہے۔ اگلے دن تین اکتوبر کو اصل مسئلے کی نشاندہی ہو گئی اور حکومت نے اس یک لفظی تبدیلی کو دوبارہ پرانی حالت میں بحال کرنے کا اعلان کیا لیکن4 اکتوبر کو الحمرا حال میں ورکرزکنوینشن سے خطاب کرتے ہوئے خود کو خادم اعلیٰ کہلوانے والے موصوف شہباز شریف نے اپنے روایتی اسٹائل (جس میں کسی قسم کی کوئی تحقیق اور واقعاتی محرکات پر توجہ دینا گناہ مانا جاتا ہے) میں کہا کہ ”میں جناب قائد نواز شریف کو درخواست کرتا ہوں کہ نہ صرف اس لفظ کو دوبارہ اسی طرح بحال کیا جاۓ بلکہ ذمہ دار کو کابینہ سے باہر نکالا جائے“۔

اب جبکہ بہت سے لوگ اس دھرنے کے پیچھے خفیہ ہاتھ تلاش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ گڈگورننس کے ایک چیمپیئن نے ساڑھے چار کروڑ بیعانہ دے کر مذہبی جماعت کے لوگوں کو نہ صرف لاہور سے اسلام آباد بھیجا بلکہ درمیان میں کہیں بھی روکنے کی بجائے محفوظ راستہ دیا گیا۔
ورکرز کنوینشن کے بعد آہستہ آہستہ یہ معاملہ سراسر مذہبی بن گیا اور تحریک لبیک پاکستان کے صدر آصف اشرف جلالی نے 24 اکتوبر کو ڈی چوک پر دھرنا دیا اور 3 نومبر کو اپنے مطالبات منوا کر واپس آ گئے۔ اس کے بعد 6 نومبر کو خادم حسین رضوی نے فیض آباد پر دھرنا دیتے ہوئے راولپنڈی اور اسلام آباد کا رابطہ منقطع کر دیا اور مطالبہ کیا کہ وزیر قانون زاہد حامد استعفی دیں اور کاغذات نامزدگی میں تبدیلی کے پس پردہ کرداروں کو سامنے لایا جاۓ۔ ابتدا میں حکومت نے ان کو زیادہ اہمیت نہیں دی لیکن کچھ دنوں بعد مذاکرات کیلئے کوشش شروع کی جو مکمل ناکام ہو گئی۔ 24 نومبر کی صح جیسے ہی حکومت نے فیض آباد چوک سے مظاہرین کا قبضہ چھڑانے کے لئے آپریشن شروع کیا تو لاہور کراچی اور دیگر شہروں میں مظاہرے شروع ہو گئے اور شام تک پوراوسطی پنجاب مفلوج ہو کر رہ گیا۔ آخر کار آرمی چیف کی ثالثی میں ایک معاہدہ ہوا جس کے تحت 27 نومبر کو دھرنا ختم کرنے کا اعلان کیا گیا۔

توجہ طلب پہلو یہ ہے کہ اس سارے واقعے میں علما، سیاستدانوں اور عوام کا قابل ذکر کردار کہیں نظر نہ آرہا۔ یہ ایک مذہبی مسئلہ تھا اور وزیر قانون پر طرح طرح کے فتوے لگائے گئے لیکن ڈی این اے کی بطور شہادت قبولیت پر تحقیق کرنے والے اسلامی نظریاتی کونسل جیسے اہم ادارے نے اس معاملے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ تمام مسالک کے علما مکمل طور ہر خاموش بیٹھے ہوئے تھے۔ اہل سنت بریلویوں کی اکثریت تو اس دھرنے کی حمایت میں تھی لیکن یہاں طاہر القادری جیسے علما نے جلتی پر مزید تیل پھینکنے کا کام کیا۔ اس سارے واقعے میں انکی ن لیگ کے ساتھ نفرت واضح نظر آ رہی تھی۔ دیوبندی علما نے جو ایسے معاملات پر ضرور اپنی رائے دیتے ہیں مکمل خاموشی اختیار کی۔ پیروں اور گدی نشینوں کی حمایت زیادہ تر دھرنے والوں کے ساتھ تھی اور اسلام آباد کے ایک پیر صاحب نے جو مذاکرات میں اہم کردار ادا کر رہے تھے، رات کو آپریشن ہونے سے رکوایا۔ صبح تک دھرنے والوں کو اتنا ٹائم مل گیا کہ وہ اپنا دفاع کر لیں۔ دوسرے درجے کے علما جو بہت دیر سے مسجدوں میں سپیکر بند کر کے تقریر کر رہے تھے کو اپنا جوہر دکھانے کا بھرپور موقع ملا جسے انہوں نے ضائع کرنا مناسب نہ سمجھا حالانہ انکی اکثریت معاملے کی اصلیت سے ہی ناواقف تھی۔

یہ بھی پڑھئے:  مذہبی منافرت کی تازہ لہر کس کا برین چائلڈ ہے؟

یہ بل چونکہ قومی اسمبلی سے پاس ہوا اور مختلف جماعتوں کے ارکان نے مل کر اس میں اپنا کردار ادا کیا لیکن اس سارے معاملے میں نہ صرف اپوزیشن بلکہ حکومتی ارکان کا رویہ بھی بڑا معنی خیز تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ سب زاہد حامد کو پھنسا کر اپنی جان چھڑوانا چاہتے ہیں۔ حکومت مذاکرات کرتے اور آپریشن کرتے ہوئے بالکل ناکام ہوئی اور انکی تجربہ کاری دھری کی دھری رہ گئی۔ اسلام آباد میں 126 دن دھرنا دینے والے جناب عمران خان نے یہ تو کہا کہ دھرنے سے ملکی معیشت کو نقصان ہوا اور جڑواں شہروں کی زندگی مفلوج ہو گئی لیکن اپنی پارٹی کو اس سارے معاملے سے کلین چٹ دیتے ہوۓ یہ فرما گئے کہ اس سارے واقعے کے پیچھے غیرملکی ہاتھ نظر آ رہے ہیں۔ جناب اعتزاز احسن صاحب نے یہ کہا کہ قومی اسمبلی کے تمام ارکان کی اجتماعی غلطی ہے لیکن بحران کے دوران ان سے یا ان کی پارٹی سے ایسا کوئی بیان بالکل سامنے نہیں آیا۔ ویسے تو یہ تمام سیاستدان جمہوریت کو نہ چلنے دینے کا رونا روتے ہیں لیکن دوسری طرف یہ بھی سچ ہے کہ جمہوریت کے انہدام میں ہمیشہ سیاستدانوں کا ہی کردار رہا ہے۔ یہ ان سیاستدانوں کی نا اہلی ہی ہے کہ فوج کو اس سارے معاہدے میں بطور ثالث کردار ادا کرنا پڑا۔

اس سارے معاملے میں عوام خاص کر مڈل اور لوئر مڈل کلاس کے نیم خواندہ افراد کا کردار انتہائی غیرذمہ دارانہ تھا۔ خود کو عاشق رسول کہنے والے یہ لوگ حضور اکرمﷺ کی اس حدیث مبارکہ سے مکمل پہلو تہی کرتے نظر آئے جس میں فرمایا گیا کہ ”اگر تمہارے پاس کوئی شخص خبر لے کر آۓ تو اسکی تصدیق کر لو“۔ اگر ان سے پوچھا جاۓ کہ اصل معاملہ کیا تھا تو یہ عجیب غریب کہانیاں سناتے ہیں ۔کوئی کہہ رہا تھا کہ انہوں نے قادیانیوں کو مسلمان کر دیا ہے اور کوئی کہہ رہا تھا اس سب کے پیچھے نادیدہ قوتیں تھیں۔ انکو اصل بات سمجھانے کے بعد بھی یہ لوگ گفتگو اس پر ختم کر دیتے کہ اس سب کے پیچھے کوئی نا کوئی وجہ تو ہو گی۔ اب بندہ اس کوئی نا کوئی وجہ کا کیا جواب دے کہ انسان خطا کا پتلا ہے۔ اگر زاہد حامد نے قانون تبدیل کروانا ہوتا تو وہ سینٹ کاروائی میں اسے پہلے کی طرح رکھنے کا ذکر نہ کرتا۔ تفصیل کیلئے سینٹ رپورٹ دیکھی جا سکتی ہے۔ اس سب معاملے کے دوران جو زبان دھرنا قائدین اور عام لوگوں نے استعمال کی وہ کسی طور بھی عاشق مصطفیﷺ کے شایان شان نہ تھی۔ اوپر سے اپنی دشنام طرازی کا دفاع کرتے ہوۓ یہ لوگ قرآن حدیث کا حوالہ پیش کرتے حالانکہ صحیح بخاری میں حدیث شریف ہے کہ ” بہت بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک ہے کہ آدمی اپنے والدین پر لعنت کرے۔ دریافت کیا گیا کہ کوئی اپنے والدین پر کس طرح لعنت کرتا ہے؟ فرمایا کوئی شخص کسی کے والدین کو گالی دیتا ہے تو وہ اسکے ماں باپ کو گالی دیتا ہے“۔ عجب لوگ ہیں کہ اپنے ٹیکسوں سے بنی میٹرو اور دیگر سرکاری املاک کو نقصان پہنچا کر بڑا فخر کر رہے تھے۔ ان کے قائدین نے ایسی بے حسی دکھائی کہ دھرنے میں مارے جانے والے لوگوں کی معاونت کی نہ ہی زخمیوں کا کوئی مداوا کیا جبکہ دوسری طرف حکومت نے بھی تریپن زخمی پولیس والوں کو میڈیکل اور کنوینس الاؤنس تک نہیں دیا۔ اگر دوستوں سے کہا جائے کہ خادم حسین صاحب نے دھرنا دینے اور اٹھانے کیلئے پیسے لیے ہیں تو یہ لوگ اس کو مذاق کہتے ہیں۔ یہ مذہبی قائدین اتنے سچے عاشق رسول تھے کہ اب تک تین دھڑوں میں بٹ چکے ہیں۔ دو دھڑوں کے لیڈران کا وسیم بادامی کو انٹرویو دینا اور پھر ضیا اللہ قادری کا خادم حسین پر شہدا کے خون کو اکیس کروڑ میں بیچنے کا الزام لگانا، کیا یہ ان کے سیاسی عزائم کو واضح کرنے کیلئے کافی نہیں؟ کیا یہاں "کچھ تو ہے” والا ان کا اپنا فارمولا لاگو نہیں ہو سکتا؟

یہ بھی پڑھئے:  داعش کے منصوبہ سازوں کی شکست | شاہدکمال

ان سب باتوں کا ہمیں بطور معاشرہ جائزہ لینا ہو گا۔ ہمیں کسی کے مفادات کیلئے مسلمانوں کی تکفیر کرنے سے حتی المقدور اجتناب برتنا ہو گا ورنہ یہ آگ جو کل سپاہ سالار اور آج زاہد حامد کے گھر لگی ہے، کل کسی وزیراعلی یا میرے آپکے گھر بھی لگ سکتی ہے۔ خدارا کسی بھی عمل اور احتجاج کا حصہ بننے سے پہلے ایک بار سوچ لیں کہ آپکے مرنے کے بعد آپکے گھر والوں کا کیا ہو گا؟؟ کسی پرائی جنگ کا ایندھن بننے اور نام نہاد لیڈران کے مفادات کا تحفظ کرتے ہوۓ ایک دفعہ یہ ضرور سوچ لیجئے کہ کیا یہ ایسا عمل ہے جس کی خدا اور اسکے نبی محمد مصطفیﷺ نے تعلیم دی یا پھر یہ سیاستدان اور مذہبی بھیڑیوں کی آپسی لڑائی ہے جسے ہم لڑ رہے ہیں۔

حالیہ بلاگ پوسٹس