Qalamkar Website Header Image

مجھ کو چھاوں میں رکھا اور خود جلتا رہا دھوپ میں

مجھے پتہ نہیں کیوں یہ مخصوص دن منانا اچھا نہیں لگتا۔ کیسے ساری زندگی کے رشتوں کو ہم ایک دن میں سمیٹ سکتے ہیں۔ لیکن یہ بس سوچ کی حد تک ہی ہے۔ سوشل میڈیا کے اس دور میں ہم ایسی چیزوں سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ شاید اسی لیے ہرایک ہمارے ان اعمال کو ہماری شعوری کوشش نہیں مانتا۔ صبح کا لوگوں کی تحریریں اور تصویریں دیکھ کر میں بھی اس سے متاثر ہو گیا ہوں۔ کئی سوچیں کئی یادیں اور کئی ان کہی باتیں ہیں جو اظہار کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ بلکہ آج تو شدت کچھ زیادہ ہی ہے پتہ نہیں کیوں میں بھی چاہتا ہوں کہ یہ لکھ ہی دوں جو مجھے کچھ بھی نہیں کرنے دے رہی۔ میں جب اپنے باپ کے بارے میں سوچتا ہوں تو کئی طرح کے جذبات اور خیالات دماغ میں گھومتے ہیں۔

جو جذبہ سب پر حاوی ہے وہ فخر کا ہے۔ شاید یہ جذبہ ہر اولاد کے حصے میں آتا ہے۔ اولاد اپنے باپ پر فخر کرتی ہے۔ ظاہر ہے شکایتیں تو رہتی ہیں لیکن وہ تو ہر رشتے اور تعلق میں ہوتی ہیں کہ انسان جہاں پیار کرتا وہاں شکایتوں کا زیادہ انبار لگاتا ہے۔ ہاں تو میں ذکر کر رہا تھا اپنے باپ پر فخر کا تو، یہ سچ ہے کہ مجھے باپ پر فخر ہے۔ جب بڑے افسروں اور مشہور لوگوں کی اولادیں اپنے باپ کا قصہ سناتی ہیں تو وہ پتا نہیں کئی طرح کی تعریفیں کرتے ہیں۔ لیکن میرے باپ کوئی مشہور شخص نہیں ہاں وہ تو اس قدر گمنام ہے کہ شاید اس گاؤں میں جہاں وہ اپنی زندگی کی پانچویں دہائی گزار رہا ہے وہاں کے سارے لوگ بھی غالباً نہیں یقیناً اس سے ناواقف ہیں۔ اس گمنامی کے باوجود بھی مجھے وہ ایک عظیم انسان لگتا ہے۔ اس لیے نہیں کہ وہ میرا باپ ہے بلکہ اس لیے کے اس کے اوصاف آج کی نفرت، مطلب پرستی اور کینہ پروری سے بھری دنیا میں اس کو کامیاب اور مشہور لوگوں سے بھی برتر بناتے ہیں۔ میرا باپ محبت، احترام انسانیت، ہمدردی، سخاوت، صلہ رحمی اور جمع و طمع کے لالچ سے پاک انسان ہے۔ اس کی یہ خوبیاں ہی ہیں کہ مجھے بھی نفرت، لالچ، جھوٹ اور پیسہ کی ہوس سے چڑ ہے۔ جب میرے دوست مجھے مذاق میں یا سنجیدگی سے منافق کہتے ہیں تو میں ہنستا ہوں۔

یہ بھی پڑھئے:  باپ تو ہے نا

اس لیے کہ میں ان کی طرح دشمنوں سے بھی دشمنی نہیں پالتا۔ یا میں ان کی طرح کسی کا دل توڑنے اور نفرت میں تمام حدیں پار کرنے کی ہمت نہیں رکھتا۔ تب بھی اس خوبی یا خامی کو میں اپنے باپ کے سر تھوپتا ہوں کہ یہ سب تو میجھے جنیز کے ذریعے ملا ہے۔ پچھلے دنوں ایک بہت پیارے انسان نے جب دوستوں میں کہا کہ ” اس شخص کی آنے والی چار نسلیں دنیا داری کی ہوس سے پاک رہیں گی“۔ تو یہ سن کر مجھے خوشی بھی ہوئی اور حیرانگی بھی کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ سچ کہوں تو خوامخواہ کا وقتی طور پر فخر بھی ہوا لیکن پھر جب سوچا تو یہ کوئی بڑی بات نہ لگی کیونکہ میں تو اس شخص کی اولاد ہوں جس نے لوگوں کے لیے خود کو وقف کر دیا۔ جو غریب امیر کی کو دیکھے بغیر ہر کسی کی خیر خواہی کرتا ہے۔ میرا باپ تو اس قدر اچھا ہے کہ لوگ اس کی اچھائی کا مذاق اڑاتے ہیں۔ اسے بیوقوف کہتے ہیں۔ بلکہ بچپن سے مجھے بھی باپ جیسا کہتے ہیں۔ لیکن جب سے میں نے اپنے باپ کو جانا اور پہچانا ہے تو میرا فخر مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔ ہاں اب وہ شخص جس نے ساری زندگی ایک لفظ میں نہیں پڑھا جس نے اسکول اور مسجد کی راہ نہیں دیکھی۔ جس کی عمر کی پانچ دہائیاں کھیتوں میں ہل چلاتے، مویشیوں کو پالتے اور کلر کی دھول میں مٹی ہوتے گزری ہے آج مجھے وہ شخص کسی کامیاب لیکن منافق اور بے رحم انسان سے کئی ہزار گنا اچھا لگتا ہے۔ مجھے اسے سننا اچھا لگتا ہے۔ جس کی ہر بات تجربے سے گندھی ہوئی ہے ان تجربات سے جو اس کے اوپر بیتے ہیں۔ جس کا ہر جملہ اگر کسی ادیب کے ذریعے لکھا جاتا تو اپنے اندر معنویت کی کئی پرتیں رکھتا ہے۔ اس کے جن الفاظ پر لوگ ہنستے ہیں کہ کیا فرسودہ خیالات ہیں ان میں اکثر خیالات میرے پسندیدہ ہیں۔

یہ بھی پڑھئے:  کوئی ہم سا ہو تو سامنے آئے

ہاں ہماری سوچ مختلف ہے، ہمارے درمیان ایک نسل کا پردہ حائل ہے ہم بہت سے معاشرتی مسائل پر تین سو ساٹھ کے زاویے سے متضاد رائے رکھتے ہیں لیکن یہ تو ہمارے عمر کے تقاضے ہیں جو اسی طرح قابل قبول ہیں۔ میں جانتا ہوں کچھ پیارے یہ پڑھ کر ہنسیں گے۔ ایک دو پیارے تو مبالغے کی انتہا کہیں گے۔ لیکن ساری عمر کا آپ کو سن رہا ہوں ہنستے دیکھ رہا ہوں تو ایک دفع اور سہی۔۔۔ بس اب چلتا ہوں پیپر شروع ہونے والا ہے۔ دعا ہے اللہ سب کے والدین کو صحت تندرستی اور لمبی عمر دے۔ بس کسی کے باپ مرنے پر جو سر ننگا ہوتا ہے اللہ کسی اولاد کو وہ دن نہ دکھائے۔

حالیہ بلاگ پوسٹس