”بھٹیارن ایک فیس بک فینٹیسی“ رشاد بخاری کا نیا ناول ہے۔ رشاد بخاری اسلام آباد میں مقیم ہیں اور کئی بین القوامی و مقامی ترقیاتی اداروں میں کام کر چکے ہیں۔ بھٹیارن ان کا پہلا ناول ہے۔ یہ ناول دو لوگوں کے درمیان مکالمہ ہے۔ یہ فیس بک مسینجر کی چیٹ ہے تین افراد کے درمیان جو اصل میں دو ہیں۔ اردو میں یہ پہلا اور منفرد تجربہ ہے جو بہت پرپیچ تو نہیں نا ہی بہت گہرا کہا جا سکتا ہے لیکن یہ تجربہ اپنے اندر مطالعیت اور دلچسپی رکھتا ہے۔ یہ صرف ناول نگار کا حقیقی تجربہ نہیں ہے بلکہ ان دو میں سے نکلتے ہوئے تیسرے کردار کے ذریعے جو کہانی تخلیق کی گئی یا واقعہ ہوئی وہ ایک ایسی حقیقت ہے جو ہم میں سے اکثریت نے کہیں نا کہیں دیکھی ہے۔ جس کا ہم شکار ہوئے ہیں یا ہوتے ہوتے ریہہ گئے ہیں۔ بھٹیارن بھٹی میں دانے بھوننے والی کو کہتے ہیں۔ چونکہ مناہل بہزاد کو جزبات کی بھٹی میں بھونتے ہوئے ایسے تڑپاتی ہے جیسے بھٹی میں دانے بھونے جائیں تو وہ آگ کی لو کے مطابق دانے اچھل اچھل کر باہر نکلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس لیے ناول کا نام بھٹیارن رکھا گیا اور وہ بھٹی فیس بک ہے اس لیے یہ فیس بکی بھٹیارن کی تخلیق کردہ فنٹیسی کہلائی۔۔
بظاہر یہ ناول ایک عام سی مسینجر میں ہونے والی بات چیت ہے جس میں دلچسپی کا واحد ذریعہ ہمارے اندر موجود کسی دوسرے کی زندگی میں جھانک کر دیکھنے کا تجسس ہے۔ جیسے جیسے کہانی آگے چلتی ہے تو یہ آپ کے لیے ایک آئینے کا کام کرتی ہے۔ اگر آپ نے میسجز یا کسی اور شوسل میڈیا ایپ پر کسی مخالف جنس سے دوستی پیار والی چیٹ کی ہے تو آپ اس میں کہیں نا کہیں خود کو دیکھیں گے۔ آپ ہنسیں گے اور کھلکھلا کر ہنسیں گے کہ یہ سب بیوقوفیاں تو ہم نے کی ہیں۔ یا یہ سب تو ہر جگہ ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔ یہ کہانی اس قدر حقیقی ہے کہ پچھلے دنوں ایک دوست نے اپنی چیٹ پڑھائی تھی۔ آج جب ناول پڑھ رہا تھا تو اس دوست کے کچھ رومانوی میسج ہوبہو اسی ترتیب کے ساتھ کاپی کیے ہوئے لگتے تھے حالانکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔
فیس بک یا میسجنگ میں مخالف جنس سے دوستی یا پیار محبت یا جذباتی وابستگی کا ایک مخصوص پیٹرن ہے جو اس کہانی میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ سب سے پہلے تعارف، پھر دبی دبی سی بے تکلفی، پھر دوستی جو تمام تکلفات کو ختم کرتی ہے۔ پھر قربت جو اپنے ساتھ جزباتی وابستگی لاتی ہے۔ یہ قربت اور جزباتی وابستگی رمانوی جزبات کے ساتھ منسلک ہو کر ایک پرپیچ قسم کی فینٹیسی بناتی ہے۔ رومان کے اس آغاز میں ہر کہانی کے مرد و وعورت برا محسوس کرتے ہیں۔ خود کو گنہگار مانتے ہیں۔ لیکن پھر بھی آگے چل کر اس میں جنسی خلا کی تسکین بھی کی جاتی ہے اور اَن دیکھے ملکوں کی سیر بھی ہو جاتی ہے۔ اس سے گھروں میں قید اور بندشوں میں بندھی ہوئی لڑکیوں کے لیے بہت کچھ نیا ہوتا ہے جس سے وہ متاثر ہوئے بغیر نہیں ریہہ سکتی۔ لڑکیاں جن کی بہت سی ناآسودہ خواہشات ہوتی ہیں جنہیں دبانے کے لیے گھر کے افراد اور معاشرہ ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ وہ خواہشات پیار، عزت اور احترام کے ساتھ ساتھ اپنی ذات کو ملنے والی اہمیت اور شناخت سے مل کر ان لڑکیوں کو موبائل اور سوشل میڈیا کی اس دنیا میں کسی بظاہر سلجھے ہوئے انسان کی طرف دھکیل دیتی ہیں۔ جو کئی دفعہ بہت برے حادثات کا موجب بنتا ہے۔ جس میں مرد و عورت ہر طرح کے دھوکے کھاتا ہے۔
واقعات اور ان واقعات کی تفصیل میں تھوڑے رد وبدل کے ساتھ کتاب میں شروع سے لے کر آخری باب سے پہلے تک بیان کی جانے والی کہانی اتنی حقیقی ہے کہ اس پر یقین کیے بنا کوئی چارہ نہیں ہے۔ ان واقعات اور اس کہانی میں دلچسپی پیدا کرنے کے لیے جس طرح ناول نگار نے اپنے شاعری ذوق کا استعمال کیا ہے وہ کہانی میں دلچسپی بڑھا دیتا ہے۔ غالب اور میر سے لے کر غلام محمد قاصر اور اپنے معاصر عمیر نجمی کے شعروں اور غزلوں کا برمحل استعمال نثر کو خوبصورت بناتا ہے۔ ازارہ تفنن پڑھتے ہوئے مجھے محسوس ہوا کہ یہ شعر و شاعری اس نوجوان نسل کے لیے بہت فائدے مند رہے گی خاص کر ان کے لیے جو فینٹیسی کی دنیا کے باسی ہیں یا بن رہے ہیں۔ یہ اعتراف میں کوئی مزائقہ نہیں ہے کہ اس کتاب میں موجود شروع سے لے کر آخر تک عجیب کیفیات سے گزرا ہوں۔ شروع میں یہ مجھے ایک مضحکہ خیز کوشش لگی لیکن جیسے جیسے کہانی چلی تو اس نے خود کو پڑھوایا اور آخر تک پڑھوایا۔ یہ کہانی میری اور بے شمار دوستوں کی کہانی سے اس قدر مماثلت رکھتی تھی کہ تقریباً ہر صفحے پر اونچے اونچے قہقے لگانے کے ساتھ ساتھ دوستوں کو بھی سنانا پڑی۔ اگر آپ اس فینٹیسی دنیا کے باسی ہیں تو آخری چیپٹر اور اس میں موجود تجسس آپ پر کہیں پہلے ہی عیاں ہو جائے گا لیکن کہانی کے بارے میں پہلے اشارے ملنے کے باوجود آپ اس تجسس سے چھٹکارہ نہیں حاصل کر سکتے جو کہانی میں موجود ہے۔
یہ کہانی صرف مناہل اور بہزاد یا بہزاد اور تسنیم کا ایڈوینچر ہی نہیں جس میں دوستی ہے، پیار ہے، داستان غم و الم ہے جو واقعی متاثر کر دیتی ہے بلکہ یہ ہر اس اس نوجوان یا مرد و عورت کی کہانی ہے جو اس ورچول زندگی میں ایسی مہمات کے عادی ہیں۔ مناہل اور بہزاد ایک دوسرے کو جانتے ہوئے بھی انجان ہیں۔ ایک دوسرے کے قریب ہوتے ہوئے بھی دور ہیں۔ جو ایک دوسرے سے انجان بن کر جزبات کے بہاو میں بہہ جاتے لیکن جیسے ہی وہ ایک دوسرے کی اصلیت سے واقف ہوتے ہیں تو حیا اور معاشرتی روایات ان دونوں کے درمیان حائل ہو جاتی ہیں۔
اگر آپ ادب کے سنجیدہ قاری ہیں تو ہو سکتا ہے آپ کو یہ کتاب نہ پسند آئے۔ آپ مضحکہ خیز سمجھ کر اسے پھینک دیں لیکن ایک گارنٹی ہے کہ اگر آپ نے اس ورچول ورلڈ کی فینٹیسی نہیں جی تو آپ کو نوجوان نسل کی بہت سی نئی باتوں سے آگاہی ضرور ملے گی۔۔ آج کے پاپولر ادب کو ناول نگار خود پسند نہیں کرتا لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اگر یہ ناول اپنے انوکھے پن کے ساتھ ساتھ اسی جزباتی دنیا سے تعلق رکھتے ہے جس کی سیر ہاشم ندیم یا عمیرہ نمرہ احمد کرواتی ہیں۔ ہاں اس میں ٹریٹمنٹ کا فرق ہے اور یہ بھی فرق ہے کہ ناول نگار اخلاقی و مزہبی پردے تاننے کی کوشش نہیں کرتے۔
نوٹ: کتاب منڈلی پبلیکیشن نے چھاپی ہے اگر آپ خریدنا چاہیں تو رشاد بخاری صاحب سے 0302 5156600 رابطہ کر سکتے ہیں
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn