Qalamkar Website Header Image

انسانی ڈی این اے کی تاریخ

ہمارے اجداد بہت سخت لوگ تھے۔ یہاں پہنچنے کے لیے انہوں نے خشکی، قحط اور برف کے زمانہ بھی برداشت کیا۔ ہمارے جینز کے نتائج بتاتے ہیں کہ جو اجداد سب سے پہلے یہاں آئے تھے وہ دس یا بیس لوگ تھے۔ آج بھی ان کی اولادیں ہزاروں سال بعد بھی اپنے ڈی این اے میں وہ سختیوں کے ثبوت رکھتی ہے جو انہوں نے برداشت کیں۔ جب وہ یہاں پہنچے تو ان کا انعام تھا بہت زیادہ مقدار میں زمین کا ملنا اور اس سے اچھی جگہ ان کے پاس پہلے نہیں تھی۔

قطب شمالی کے میدانوں میں دس ہزار سال کی جانفشانی کے بعد انہیں سب سے بڑا انعام ملا۔ انہوں نے رہنے اور پھلنے پھولنے کے لیے ایک نئی زمین تلاش کر لی۔ ان کی تعداد اتنی تیزی سے بڑھے اور صرف آٹھ سو سالوں میں وہ شمالی اور جنوبی امریکہ میں پھیل گئے۔

سپنسر ویلز: میں ایک قدیم قبیلے سے ملنے اور ان کے خاندان کی شاخ کی کھوج پیچھے سائبریا سے ملائی ہے۔ جو چگچیوں کے اجداد تھے اور پہلے لوگ تھے جنہوں نے امریکہ ہجرت کی تھی۔ یہ لوگ نابہا ہیں اور کینڈی شے ایری زونا میں رہتے ہیں۔ نابہا انڈین شمالی امریکہ میں اس وقت سے رہ رہیں جب سے ان کے چگچی اجداد نے سب سے پہلے یہاں پہنچے تھے۔ کینڈی شے ان کی سب سے مقدس جگہ ہے۔ 
میں ان کو اس جینیاتی سلسلے کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں جسے نے مجھے ان تک پہنچایا۔ جو کہانی سائنس بتاتی ہے۔ میری اس پر اپنی رائے ہے۔ میں ایک ماہر جینیات ہوں اور دنیا میں رہنے والے تمام لوگ ایک دوسرے سے بہت قریبی تعلق رکھتے ہیں۔ ہم سب ایک بڑے خاندان کا حصہ ہیں۔ دراصل ہمارا تعلق ان لوگوں سے ہےجو قریبا پچاس ہزار سال پہلے افریقہ میں رہتے تھے۔ یہ تقریباً دوہزار نسلوں کا دورانیہ ہے۔ ہمارے دور کے رشتہ دار پوری دنیا میں رہ رہے ہیں۔ جو بنیادی طور پر افریقی ہیں۔ میں اور آپ لوگ بھی افریقی ہیں۔ میں آپ کو ان لوگوں کی تصویریں دکھاتا ہوں۔ یہ قرہ ارض پر قدیم افریقی لوگ ہیں۔

میزبان1: جو کلک آوازیں رکھتے ہیں۔

میزبان 2: یہ بہت محسورکن لوگ ہیں۔

اب اس کا ثبوت یہ ہے کہ جن پہلے لوگوں نے افریقہ چھوڑا انہوں نے ساحلی منتقلی کا راستہ اختیار کیا اور ایشیا کے جنوبی ساحل سے ہوتے ہوئے آسٹریلیا پہنچے۔ جو آسٹریلیا کے ابریجنیز ہیں۔

میزبان 3 : اس کی بنیاد جینیاتی سلسلہ ہے۔

جینیاتی نتائج کے مطابق یہ افریقہ میں ہونے والی پہلی ہجرت ہے۔ دوسروں نے اس سے مختلف راستہ اپنایا اور وہ اندرون ملک گئے۔ میں اس میں بہت اچھا محسوس کر رہا ہوں۔ یہ تصویر ایک ایسے شخص کی ہے جس کے اجداد پنتالیس سے چالیس سال پہلے وسطی ایشیا میں رہ رہے تھے۔ وہ بہت سے یروپین اور شمالی امریکیوں کے بھی اجداد تھے۔ اس آدمی کا نام نیازف ہے۔ جو کارگستان میں ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھئے:  سکھ عورتوں کی عصمتوں کا امین ایک کنواں-حبیب گوہر

میزبان1: کیا تم وہی انسان ہو جس نے انٹرنیٹ پر تحقیق پیش کی تھی کہ مقامی امریکیوں کا تعلق وسطی یورپین سے ہے؟

سپینسر ویلز: ہاں۔ وسطی ایشیا سے، میں نے یہ اُس پیپر میں لکھا تھا جو پچھلے سال شائع ہوا تھا۔ تمہارا اس بارے کیا خیال ہے؟

میزبان: میں ”جنوبی ایشیا کے لوگ“ نامی ایک کتاب دیکھ رہا تھا۔ میں نے اپنے کزن احمد اور ابراہیم کو دیکھا تو سوچا کہ اوہ میرے خدایا میرا خاندان تو وسطی ایشیا میں بھی ہے۔ وہ منگولین لوگ تھے۔ ان کی آنکھیں ایشین ہیں اور کچھ صورت حبشیوں سے مشابہت رکھتی ہے اور کرگیشین ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے یہ سب کی آمیزش ہے۔ یہ دلچسپ ہے۔ بہت ہی دلچسپ ہے۔

سپینسر ویلز : یہ چگچی لوگ ہیں جو آپ کے دور کے کزنز ہیں اور ابھی تک مشرق سائبریا میں رہ رہے ہیں۔ میں نے ان سے حالیہ ملاقات کی تھی۔

میزبان4: یہ وہ لوگ ہیں جنہیں میں نے ٹی وی پر دیکھا تھا۔

سپنسر ویلز اور نتائج یہ بتاتے ہیں کہ وہ آپ کے اجداد ہیں۔ انہوں نے سیدھا امریکہ کا سفر کیا۔

میزبان 1: یہ کتنا لمبے ہیں؟

سپنسر ویلز: یہ پانچ فٹ چھے یا آٹھ انچ لمبے ہیں۔ اگر ہم جینیٹک سلسلےکو دیکھیں تو پتا چلتا ہے پہلے دس یا بیس لوگوں کے گروہ نے امریکہ کا سفر کیا۔ میری کہانی ان نابہا لوگوں کے لیے حیران کن نہیں تھی۔ وقت کے آغاز سے ہجرت کا خیال ان کی اپنی بنائی کہانیوں کا مرکزی خیال ہے۔

میزبان: اہم نقطہ یہ ہے کہ کسی حد تک ہم سائنسی اور روایتی انداز سے ایک دوسرے کو تسلیم کرتے آ رہے ہیں۔

ہماری تحقیق مجھے بتاتی ہے کہ اس عظیم سفر کی آخری منزل پر کم سے کم دس لوگوں کے گروہ میں دو یا تین لوگ پہنچ سکے تھے۔ صرف دس غیر معمولی لوگ۔

پروفیسر: انہوں نے وہاں بہت سے جانوروں جیسا کہ امریکی بھینسوں، میملز اور دوسری چیزوں کو چرتے دیکھا اور وہ جنوب کی طرف سفر کرتے رہے۔ اور آٹھ سو سال بعد وہ جنوبی امریکہ پہنچ گئے۔

سپنسر ویلز: ان کے اجداد وہ پہلے لوگ تھے جنہوں نے پنتیس ہزار سال پہلے افریقہ سے نئی دنیا میں آنے کے لیے وہ تھکا دینے والا سفر کیا تھا۔ آج پانج سو نسلوں بعد ان کی اولادیں ایک دن میں دنیا میں کہیں بھی سفر کر لیتے ہیں۔ ہر ہرسال پانچ دن تقریبا ایک ملین لوگ یہاں ریل ڈی جنیرو پر زندگی کی سب سے شاندار تقریبات منانے کے لیے آتے ہیں۔ اسی وجہ سے میں نے یہاں کا سفر اختیار کیا۔

یہ بھی پڑھئے:  فری لانسنگ کا دور

پندرہ سال پہلے یہ کہانی بتانا نا ممکن ہوتا لیکن سائنسی ٹیکنالوجی نے اس کو ممکن بنایا۔ اس اس عالمگیریت کے دور میں تنہا آبادیاں اب مختلف طریقوں سے جزب ہو رہی ہیں۔ یہ ممکن ہے کہ اس صدی کے آخر میں ہمارے سفر کی جینیاتی نشانیاں پوری دنیا میں پھیل جائیں۔ جب ایسا ہوا تو کہانی ایک دفعہ پھر چُھپ جائے گی۔ میں اور میرے کولیگ بہت خوش قسمت ہیں کہ آپ کو اس جینیٹک تاریخ میں موجود خلا کی یہ کہانی سنا سکے۔

پوری دنیا کا میرا سفر چند غیر معمولی لوگوں کی وجہ سے ممکن ہوا۔

میں نائبیریا سے ہوں۔ میں افریقی ہوں اور مقامی امریکن ہوں۔

میں نیوزی لینڈ سے ہوں میرا باپ پولش اور ماں انگلش بولتی ہے۔
میں ڈنمارک سے ہوں میرا باپ ڈینش اور ماں تھائی ہے۔
میں کیرئیبین ہوں۔ میرا باپ افریقی اور سپینش ہے اور میری ماں آئرش جرمن ہے۔
مین سلوواکین ہوں۔ بس۔

سپنسر ویلز: میں اب اپنے سفر کےاختتام تک پہنچ گیا ہوں اورمیں نےاس سے کیا سیکھا؟ اس سفر سے بہت کچھ سیکھا۔ میں اپنے اجداد کی ہمت اور حوصلے کا شکرگزار ہوں۔ میں نے پہلی دفعہ ذہانت اور انسان کے مضبوط تعلق کو دیکھا۔ اور میں نے خود کو اور یہاں موجود دوسرے انسانوں کے سامنے ثابت کیا کہ ہمارے خون میں موجود کہانی سچی ہے۔

اس سے ایک سبق ملتا ہے جو کہ رشتوں کا سبق ہے۔ آپ، میں اور دنیا میں رہنے والے تمام لوگ جلد کے نیچے اصلی طور پر افریقن ہیں۔ بہن اور بھائی دوہزار نسلوں پہلے علیحدہ ہوئے تھے۔ تمام پرانے خیالات نہ صرف سماجی طور پر حتمی نہیں تھے بلکہ سائنسی طور پر بھی غلط تھے۔یہ تب ہی ممکن ہے جب ہم اس بات کو اہمیت دیں اور یہ کہہ سکیں کے جو سفر ان تمام سالوں پہلے ہمارے اجداد نے شروع کیا تھا وہ مکمل ہو گیا ہے۔

حالیہ بلاگ پوسٹس