کامیلا شمسی پاکستانی نژاد برطانوی ناول نگار ہیں۔ کراچی میں پیدا ہوئیں۔ ابتدائی تعلیم کراچی گرائمر سکول سے حاصل کی اور پھر وہ پڑھنے کے لیے انگلینڈ چلی گئیں۔ 2017 میں وہ مستقل طور پر انگلینڈ چلی گئی اور اب پاکستان اور انگلینڈ کی دہری شہریت رکھتی ہیں۔ کامیلا شمسی نے اپنا پہلا ناول in the city by the sea 25 سال کی عمر میں 1998 میں تب لکھا جب وہ ابھی کالج میں پڑھ رہیں تھیں۔ اس کے بعد انہوں نے سات ناول لکھے۔ salt and safroon 2000, kartography 2002,Broken verses 2005,offence the muslim case 2009, Burnt Shadow 2009 ,A God in every stone 2014 , House fire 2017.
اپنے پہلے ناول پر انہوں نے 1999 میں پرائم منسٹر ایوارڈ فار لیٹریچر حاصل کیا۔ اپنے دوسرے ناول ”سالٹ اینڈ سیفرون پر انہیں اورینج 21 رائٹر آف 21 سینچری کے لیے چنا گیا۔ ان کے اگلے دو ناول ”کیرٹوگرافی“ اور ”بروکن ورسز“ کو پطرس بخاری ایوارڈ فار اکیڈمی آف لیٹرز ان پاکستان سے نوازا گیا۔ ان کے اگلے دو ناول ”برنٹ شیڈو“ اور ”اے گاڈ ان ایوری سٹون“ کو اورینج پرائز فار فکشن اور والٹر سکاٹ پرائز کے لیے بھی سلیکٹ کیا گیا۔ لیکن میں ان کے آخری ناول ہوم فائر پر بات کرنا چاہتا ہوں جس کو بکر پرائز کے کےلیے شارٹ لسٹ کیا گیا اور حال ہی میں اس نے وومن پرائز فار فکشن حاصل کیا ہے۔ میرا اس ناول سے تعارف بھی تبھی ہوا تھا جب اس ناول کو پرائز کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔ مجھے بڑا اشتیاق تھا کہ پڑھوں تو کہ ناول میں ایسا کیا لکھا ہے۔ جو کاملا شمسی کو اس پر وومن پرائز فار فکشن ملا ہے۔ پچھلے ماہ پاک ٹی ہاوس کے سامنے سے کتابیں کھنگالتے ہوئے جب اس پر نظر پڑی تو فوراً اٹھا لیا بلکہ اس کے ساتھ پڑا ”اے گاڈ ان ایوری سٹون بھی پڑا ہوا تھا۔ لہذا چوپڑی اور دو دو والا محاورہ فٹ بیٹھ گیا۔
کاملا شمسی نے ہوم فائر میں ایک ایسے پاکستانی نژاد برطانوی خاندان کی کہانی لکھی ہے جن کا تعلق میر پور کے علاقے سے تھا اور وہ برطانیہ جانے والے اولین پاکستانیوں میں تھے۔ ناول مختصر کرداروں پر مشتمل ہے۔ کاملا نے بہت ہی سادہ زبان استعمال کی ہے۔ عادل پاشا جو کے خاندان کا سربراہ ہے۔ اپنی بیوی کے ساتھ لندن جاتا ہے۔ پھر کچھ عرصے بعد جب اس کے اندر کی مسلمانیت جاگتی ہے تو وہ بوسنیا، چیچنیا میں جہاد کرنے نکل جاتا ہے اور آخر کار 2002 میں طالبان کے ساتھ مل کر جہاد کرنے افغانستان پہنچ جاتا ہے۔اور آخر کار پکڑا جاتا ہے گوانتانامابے جیل میں قیدی بن کر رہتا ہے ایک دن قتل کر دیا جاتا ہے۔ جبکہ اس کی لاش برطانیہ کی بجائے پاکستان میں دفنائی جاتی ہے۔ اس کے چند سالوں بعد اس کی بیوی بھی مر جاتی ہے۔ عادل پاشا کے تین بچے ہیں ایک بڑی بیٹی اسما ہے اس کے بعد دو جڑواں بچوں میں ایک لڑکی انیکا اور ایک لڑکا پرویز پاشا پیدا ہوتے ہیں۔
اسما ایک سنجیدہ، سمجھدار اور اپنی والدہ کی وفات کے بعد اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کو اپنے بچوں کی طرح پالتی ہے۔ وہ اپنی مزید پڑھائی کے لیے امریکہ میں اپنی سپروائزر مس ہدی شاہ کے پاس چلی جاتی ہے اور اس کے گھر پر پینگ گیسٹ کے طور پر رہتی ہے۔ لیکن اس کی سوچ ہر وقت اپنے بہن بھائی میں اٹکی رہتی ہے۔ انیکا ایک الھڑ مٹیار، زندگی کو غیر سنجیدگی سے لینے والی لیکن ایک خوبصورت اور انتہائی ذہین لڑکی ہے جو فل سکالشپ پر لا کی تعلیم حاصل کر رہی ہے۔ اور اس کا اپنے جڑواں بھائی پرویز سے بے انتہا پیار ہے اور وہ اس کے لیے کچھ بھی کر سکتی ہے۔
پرویز ایک انیس سالہ نوجوان ہے جو ان لوگوں کا شکار بنتا ہے جو شام میں جہاد کے لیے بندے ریکروٹ کر رہے ہوتے ہیں۔ پرویز کو وہ اس کے باپ کے بارے میں بتاتے ہیں۔ اس کی بہادری اور شجاعت کے قصے سناتے ہیں۔ اس کو زنجیروں میں جھکڑ کر اس کو کہتے ہیں کہ محسوس کرو تمہارے والد پر کس کس طرح ظلم کیا گیا ہے۔ پرویز بہت جلد ان کے ٹریپ میں آ کر جہاد کے لیے شام چلا جاتا ہے۔ لیکن وہاں جا کر وہ وہاں ہونے والا ظلم، تشدد اور سفاکیت برداشت نہیں کر سکتا اور وہاں سے بھاگنے کے لیے ترکی میں موجود برٹس ایمبیسی جاتے ہے۔ جہاں ایمبیسی کے دروازے پر اسے قتل کر یا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ کرامت لون اور اس کے بیٹے ایمان یا ایمن لون کا کردار ہے۔ کرامت لون برطانیہ میں موجود مسلمان ہوم سیکرٹری تھا۔ جس کو بس اپنے اقتدار سے مطلب تھا۔ وہ برطانیہ میں موجود مسلمانوں کے مسائل حل کرنے میں ناکام رہتا ہے۔
ایمان لون امریکہ میں اسما کا دوست ہوتا ہے۔ اسما اس کو پسند کرتی ہے لیکن وہ اسے بہن کر اس کا دل توڑ دیتا ہے۔ لیکن جب برطانیہ میں وہ انیکا سے ملتا ہے تو انیکا یہ جانتے ہوئے کہ وہ اس کے بھائی کو واپس لانے میں اس کی مدد کر سکتا ہے۔ اس کے ساتھ تعلقات پیدا کرتی ہے۔ جب وہ اس کے پیار میں پاغل ہو جاتا ہے تو وہ اس سے کہتی ہے کہ اس وہ اپنے باپ سے کہے کہ وہ اس کے بھائی کو برطانیہ واپس آنے میں مدد دے۔ جس کا وہ وعدہ کرتا ہے لیکن اسی دوران پرویز پاشا کو ترک ایمبیسی کے باہر قتل کر دیا جات ہے۔ بنیادی طور پر یہ کہانی اس حقیقت کو عیاں کرتی ہے کہ برطانیہ موجود مسلمان خاندان خاص کر پاکستانی نژاد برطانوی خاندانوں کے نوجوان بچوں کے معصوم ذہنوں کے ساتھ اسلام اور جہاد کے نام پر کھیلا جاتا ہے۔ کس طرح حالیہ شام جنگ میں برطانیہ امریکہ اور دیگر یورپی ممالک سے نوجوان لڑکے جہاد کے لیے شام بھیجے گئے تھے۔ اور وہاں ان کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا جاتا تھا۔ دوسری طرف یہ ناول ان مسائل کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے جو برطانیہ کی شہریت رکھنے والے پاکستانیوں کو فیس کرنا پڑتے ہیں۔ کاملا شمسی نے اپنا مدعا بہت واضح الفاظ میں پیش کیا ہے جس میں حکومت برطانیہ کی دوغلی پالسیوں پر نقطہ چینی کی گئی ہے۔ مجموعی طور پر ایک دلچسپ ناول ہے۔ اگر آپ کو موقع ملے تو ضرور پڑھئیے گا۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn