ہمارے ہاں بڑھتی ہوئی آبادی اور موجودہ گورنمنٹ اسکولز میں دی جانے والی تعلیمی سہولیات کی کمی کی وجہ سے بہت سے نئے پرائیویٹ ادارے کھل رہے ہیں۔ موجودہ حالات میں ان پرائیویٹ اسکولز کا ہونا ناگزیر ہے۔ لیکن عموماً اب دیکھنے کو یہ ملتا ہے کہ غریب سے غریب شخص بھی اپنے بچوں کو ان تعلیمی اداروں میں پڑھانا چاہتا ہے۔ اس کی ایک وجہ تو گورنمنٹ اسکولوں میں سہولیات کی کمی ہے۔ تو دوسری طرف پرائیویٹ اداروں کی جانب سے کی جانی والی مارکیٹنگ ہے۔ جو وہ پمفلٹوں، وال چاکنگ اور باقی ذرائع سے کرتے ہیں۔ جس سے عوام کے ذہنوں میں یہ بٹھا دیا گیا ہے کہ گورنمنٹ اسکولوں میں پڑھنے والے طالب علم نالائق ہوتے ہیں اور تمام پوزیشنز تو پرائیویٹ اداروں میں پڑھنے والے طلبہ کو مل جاتی ہیں۔ایجوکیشن کے ایک ادنیٰ طالب علم ہونے کے ناتے اور تقریباً چار سال تک پرائیویٹ اسکولز میں پڑھانے کی وجہ سے میں اس بات کو ایک مغالطہ سمجھتا ہوں کہ پرائیویٹ اداروں میں نہ پڑھنے والے بچے نالائق ہوتے ہیں۔
آئیے جائزہ لیتے ہیں کہ کیا واقعی وہ پرائیویٹ پرائمری یا مڈل اسکولز جو خاص طور پر مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس طبقے سے تعلق رکھنے والوں کے لئے ہیں گورنمنٹ اسکولز کی نسبت اتنا ہی بہترین نظام تعلیم مہیا کر رہے ہیں جتنا کہ انکے اشتہارات یا بچے کو داخل کرواتے وقت ہمیں دکھایا جاتا ہے۔ یہاں ہم پرائیویٹ اور گورنمنٹ اسکولز کے اساتذہ، وہاں پڑھاۓ جانے والے نصاب اور اسکے مقاصد، پڑھانے کا طریقہ کار،ا ور انکے جائزہ/ امتحان لینے کے طریقہ کار کو دیکھیں گے۔
اساتذہ:
کسی بھی سکول میں پڑھانے والے اساتذہ ہی اس ادارے کی کامیابی کی پہلی ضمانت ہوتے ہیں۔ کتاب سے دیکھ کر پڑھانے یا ترجمہ کر دینے والا ہر شخص استاد نہیں ہو سکتا۔ ایک ڈگری ہولڈر اور تجربہ کار استاد جس کی اپنے مضمون پر گرفت ہو اسکی برابری ایک ایف اے، یا بی اے پاس استاد کسی صورت بھی نہیں کر سکتا۔ جب ہم اکثر پرائیویٹ اداروں کے اشتہارات کی طرف دیکھیں تو ہمیں کوالفائیڈ اساتذہ کا لفظ ہر اشتہار میں لکھا نظر آۓ گا۔ لیکن اگر ہم دیکھیں تو ان سکولوں میں پڑھانے والے اساتذہ کی زیادہ تر تعداد میٹرک، ایف اے یا بی اے پاس ہوتی ہے۔ تقریباً دس فیصد ہی ایسے استاد ہوتے ہیں جنکے پاس ماسٹزر کی ڈگری ہوتی ہے۔
دوسری جانب گورنمنٹ اسکولز میں پڑھانے والے استاد کی کم از کم تعلیم بی اے ہوتی ہے۔ جبکہ نئے بھرتی ہونے والے اساتذہ میں زیادہ سے زیادہ دس فیصد ایسے اساتذہ ہوں گے جن کی تعلیم ماسٹرز سے کم ہو۔ اب اگر آپ کوالفائیڈ استاتذہ سے متاثر ہوں تو ایک دفعہ اپنے بچے کو پڑھانے والے اساتذہ کی تعلیم ضرور چیک کر لیجئے گا۔
مقاصد:
کسی بھی کام کو شروع کرنے سے پہلے اس کے مقاصد کا تعین بہت ضروری ہوتا ہے۔ اب اگر کسی استاد کو یہ ہی نہیں پتا کہ اسے جو نصاب پڑھانا ہے اس نصاب کے مقاصد کیا ہیں تو وہ کس طرح بچوں کو بہتر طریقے سے پڑھا پاۓ گا۔ گورنمنٹ اداروں میں پڑھانے والے اساتذہ جن کے پاس ایجوکیشن کی ڈگری ہوتی ہے وہ کم از کم اس بات سے آگاہ ہوتے ہیں کہ وہ جو پڑھانے جا رہے ہیں اس کے عمومی یا خصوصی مقاصد کیا ہیں۔ ان کو کس طرح ترتیب دیا جاتا ہے یا ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے کون سے طریقے استعمال کیے جائیں گے۔ جبکہ دوسری طرف ایک ایف اے یا بی اے پاس استاد اس قسم کی تمام باتوں سے نا واقف ہوتا ہے، وہ تو وہی کچھ کرے گا جیسا اسکو ہیڈ کی طرف سے انسٹرکشن دی جائے گی۔ ہم یہی جانتے ہیں کہ پرائیویٹ اسکولوں میں انگلش میڈیم نصاب پڑھایا جاتا ہے لیکن اگر اس نصاب کو دیکھیں تو اُسے پڑھ کر ایک بچہ زیادہ سے زیادہ پرائمری تک دنوں، مہینوں، ہفتوں، کے نام، چند سبزیوں اور رنگوں کے نام اور گرائمر سے چند مخصوص کہانیاں اور درخواستیں یاد کرسکتا ہے۔جب کہ سادہ لوح والدین سمجھ لیتے ہیں کہ انکا بیٹا انگریز بن گیا۔ جب تک اس بات کا تعین ہی نہیں کیا جاۓ گا کہ پانچ سالہ تعلیم کے بعد ایک بچہ کس حد تک انگریزی میں ماہر ہو جاۓگا تو پھر یہ انگلش میڈیم وغیرہ سب دعوے ہی رہ جائیں گے۔ اس دفعہ جب آپ پیرنٹس ٹیچر میٹنگ میں جائیں تو بچوں کے اساتذہ سے ان کو پڑھاۓ جانے والے نصاب کے مقاصد ضرور پوچھیں۔ یا پھر اس طرح کے کسی پرائیویٹ اسکول میں داخل کروانے جائیں تو پھر یہ ضرور پوچھ لیجئے گا کہ آپکا بیٹا کس حد تک انگلش سیکھ جاۓ گا۔
طریقہ تدریس:
کسی بھی نظام تعلیم میں مقاصد اور اساتذہ کے بعد طریقہ تدریس خاص اہمیت رکھتا ہے۔ ایک استاد کو اس بات کا پتا ہونا چاہیے کہ وہ سبق کو کس طریقے سے بچے کو سمجھا سکتا ہے۔ اگر ایک مخصوص طریقہ ناکام ہو رہا ہے تو وہ اور کونسا طریقہ استعمال کرے گا۔ اگر ہم گورنمٹ اسکولز کا جائزہ لیں تو وہاں کے استاد تجربہ کار اور زیادہ پڑھے لکھے ہوتے ہیں ۔ جو کہ یہ جانتے ہیں کہ اگر ایک طریقے سے بچے کو کوئی سبق سمجھ نہیں آ رہا تو دوسرا کونسا طریقہ استعمال کیا جا سکتا ہے۔ جبکہ پرائیویٹ اساتذہ اپنی تعلیم اور تجر بے کی کمی کی وجہ سے ان طریقوں سے بالکل واقفیت نہیں رکھتے۔ اگر دیکھا جاۓ تو ان پرائیویٹ اسکولوں میں انگلش اور کمپیوٹر کی تعلیم کی زیادہ مشہوری کی جاتی ہے۔ ایسے بہت سے اسکولز جو کمپیوٹر کی تعلیم دینے کے دعوے کرتے ہیں۔ اول تو ان کے پاس بچوں کی تعداد کے مطابق کمپیوٹرز ہی نہیں ہوتے دوسرا کوئی ایسا استاد بھی نہیں ہوتا جو کمپیوٹر کوعملی طورپڑھانے کا ماہر مانا جاتا ہو۔ ایسے میں کمپیوٹر کی کتاب کو نصاب میں شامل کر لینے سے بچہ کمپیوٹر کا ماہر نہیں ہو جاتا۔
اس کے علاوہ یہ کہ اگر ہم صرف انگلش پڑھانے کے طریقہ کو دیکھیں تو اکثر پرائیویٹ اسکولوں میں اب بھی انگلش کو پڑھانےکے لیے گرائمر اینڈ ٹرانسلیشن میتھڈ یعنی کہ انگلش کا ترجمہ کر کے پڑھانے کا طریقہ ہی استعمال جاتا ہے۔ جو کہ ایک صدی پہلے تک یورپ میں متروک ہو چکا ہے۔ کچھ اسکولز میں ڈائریکٹ میتھڈ استعمال کیا جاتا ہے یعنی کہ انگلش پڑھ کر کسی اور زبان میں ترجمہ کرنے کی بجاۓ اسی زبان میں الفاظ کے مطالب بچے کو سمجھاۓ جائیں لیکن میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ان اسکولز میں پڑھانے والے بہت سے اساتذہ بلکہ ان اداروں کہ پرنسپلز بھی اس طریقے کو استعمال کرنا تو دور اس کے نام سے بھی واقف نہیں ہوں گے۔ تو پھر کس طرح یہ اسکولز ایک گورنمنٹ ادارے سے خود کو بہتر مانتے اور ہمارے سامنے بلند و بانگ دعوے کرتے ہیں۔
جائزہ/ Evaluation :
کسی بھی پروگرام کا جائزہ ہی ہمیں بتاتا ہے کہ جو کام آپ نے اب تک کیا ہے وہ کتنا نتیجہ خیز ثابت ہوا ہے یا کس حد تک آپکے متعین کردہ مقاصد پورے ہوۓ ہیں۔ تعلیمی نظام میں جائزہ لینے کے لئے امتحانات لئے جاتے ہیں۔ جس میں ششماہی اور سالانہ امتحانات زیادہ قابل غور ہیں۔ کیونکہ اس سے ہی پتا چلتا ہے کہ اب تک پڑھاۓ جانے والے نصاب سے بچوں نے کتنا سیکھا ہے۔ میرے نزدیک یہ ہی وہ جگہ ہے جہاں پرائیویٹ اسکولز میں سب سے زیادہ بد دیانتی کی جاتی ہے۔ والدین جب دیکھتے ہیں کہ انکے بچوں نے نوے فیصد سے لے کر نانونے فیصد تک نمبر لئے ہیں تو انکی خوشی کی کوئی انتہا نہیں رہتی۔ لیکن میرے نزدیک یہ خوشی ویسی ہے جیسے آپکو مشہور برانڈ کے ریپر یا ٹیگ کے ساتھ لنڈے کی کوئی چیز دے دی جاۓ۔ جب ہم اسکو گورنمنٹ اسکولز کے طلبا سے کمپیر کریں تو واقعی ایسا لگتا ہے کہ پرائیویٹ اسکولز کہ طلبہ افلاطون ہیں۔ جبکہ گورنمنٹ اسکولز میں پڑھنے والے طلبہ انکے مقابلے میں بالکل جاہل ہیں۔ جبکہ حقائق اس سے یکسر مختلف ہیں۔ پرائیویٹ اسکولز میں عام طور پر جلد ہی سلیبس ختم کرنے کے بعد دسمبر ٹیسٹ کی تیاری شروع کروا دی جاتی ہے۔ جس کے لیے بچوں کو دس یا پندرہ مخصوص سوالوں پر نشان لگا کر دے دیے جاتے ہیں۔ کیونکہ پیپرز بنانے والے اور لینے والے وہی استاد ہوتے ہیں۔ بچوں کوپیپرز ہونے تک وہ سوال اچھی طرح رٹا دیے جاتے ہیں۔ جب کہ دوسری طرف گورنمنٹ اسکولوں میں اساتذہ تک کو معلوم نہیں ہوتا کہ پیپر میں کون سا سوال آۓ گا اس لیے انکو دسمبر ٹیسٹ میں اپنا سلیبس مکمل یاد کرانا ہوتا ہے اور یہی حال سالانہ پیپرز میں ہوتا ہے کہ گورنمنٹ اسکولز میں پوری کتابوں میں سے امتحان لیا جاتا ہے۔ جبکہ پرائیویٹ اسکولوں میں جو سوالات دسمبر ٹیسٹ میں سے آتے ہیں، سالانہ ٹیسٹوں میں اس سے اگلے دس یا پندرہ مخصوص سوالات یاد کرا دیے جاتے ہیں۔ اب جب پیپرز دینے کے بعد رزلٹ آتا ہے تو گورنمنٹ اسکولز کے طلبہ ساری کتاب یاد کر کے مشکل سے پچاس سے ساٹھ فیصد نمبر حاصل کرتے ہیں۔ جب کہ پرائیویٹ اداروں کے طلبہ دس پندرہ مخصوص سواات یاد کر کے اسی سے نوے اور بعض اوقات سو فیصد نمبر لے لیتے ہیں۔ جس سے نہ صرف والدین بلکہ رشتہ دار بھی بچے کی ذہانت سے متاثر ہوتے ہیں۔ لیکن اگر ہم غور کریں تو دس پندرہ سوالات یاد کرنے والے بچہ اسی سے نوے فیصد نمبر لے کر ہرگز پوری کتاب میں سے پچاس سے ساٹھ فیصد نمبر لینے والے بچےسے زیادہ ذہین نہیں ہو سکتا۔ آپ کو پرائیویٹ اسکولز کے اس طریقہ واردات کو ضرور سمجھنا چاہیے جو کہ میرے نزدیک تقریباً اسی سے نوے فیصد سکولوں میں رائج ہے۔ میری بات کی تصدیق کے لیے آپ اپنے بچوں کے اسکولز میں ہونے والے امتحانات کے طریقہ کے بارے میں پوچھ سکتے ہیں۔
آخر میں یہ کہوں گا کہ میں ہر گز یہ نہیں کہتا کہ تمام پرائیویٹ سکولز میں دی جانے والی تعلیم گورنمنٹ اسکولز میں دی جانے والی تعلیم سے ناقص ہے۔ لیکن میں یہ ضرور کہوں گا کہ پرائیویٹ اسکولز میں تعلیم کے متعلق جتنے دعوے کیے جاتے ہیں اس میں بہت سے غلط ہوتے ہیں۔ آپ اشتہارات اور لوگوں کی باتوں میں آ کر اپنے بچوں کو داخل کرانے سے پہلے ایک بار وہاں پڑھنے والے کسی بچے سے یہ ضرور چیک کر لیجئے گا کہ وہاں پڑھانے والے اساتذہ کی قابلیت کیا ہے اور انکے امتحانات کا طریقہ کار کیا ہے۔ گورنمنٹ اسکولز میں اب بھی اچھی تعلیم دی جاتی ہے لیکن جس طرح آپ پرائیویٹ اسکولز میں اپنے بچے کی منتھلی رپورٹ لینے جاتے ہیں۔ اسی طرح گورنمنٹ اسکولز میں بھی ہر مہینے یہ چیک کرنے جائیں کہ آپکا بچہ کیسا پڑھ رہا ہے۔ یقین کریں آپکے اتنے سے عمل سے بھی آپ محسوس کریں گے کہ اس سے آپ کے بچے میں مثبت تبدیلی آئی ہے.
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn