میں جب بھی یہ عبارت کہیں لکھی ہوئی دیکھتی ہوں تو دل بے اختیار ہنستا ہے، آنکھیں روتی اور عجیب سی بے چینی شروع ہو جاتی ہےکہ بھلا محبوب کو قدموں میں کون رکھتا ہے۔ ارے محبوب کو تو سر پہ چڑھا کے رکھا جاتا ہے ۔یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جس کے لیے آپ تڑپے ہوں ،ترسے ہوں، اسے شب و روز دعاؤں میں مانگا ہو، جب مل جائے سامنے آجائے تو اسے قدموں میں رکھیں ۔ایسا ممکن ہی نہیں کہ محبوب ہو اوروہ سر چڑھ کے نا بولے۔اگر قدموں میں آگیا تو پھر وہ محبوب تو نا ہوا نا۔
ہاں ہوتی ہیں کچھ عورتیں جو شادی سے پہلے بہت زوردار قسم کا عشق فرماتی ہیں۔محبوب کو قدموں میں لانے والے بابوں کے پاس بھی جاتی ہیں اور باقی ٹونے ٹوٹکے بھی آزماتی ہیں سجدوں میں بھی الله سے محبوب کو مانگتی ہیں اور جب محبوب قابو میں آجاتاہے تو پھر شادی کے اگلے ہی ہفتے محبوب کو آنکھیں دکھانا شروع کر دیتی ہیں۔اور وہ آدمی جو خاتون کے لیے ساری دنیا سے ٹکر لیتا ہے اس کا بھی چاؤ پورا ہو جاتا ہے اور ادھر ادھر تاکا جھانکی میں لگ جاتا ہے ۔وہ جو پیسے بابے کو دیے تھے محبوب کو قدموں میں لانے کے چکر میں وہ بھی ضائع ہوئے اور جو اتنے سارے فون کالز پہ رقم لگائی وہ بھی برباد ہوئی کیونکہ وہ حسین آنکھیں جن کی تعریف کی جاتی تھی وہ اب وہی گھوری لگتی ہے یا ڈیلے نظر آتے ہیں۔وہ ادائیں جو دل کو بھاتی تھیں اب عذاب بنتی جاتی ہیں پر کیا کریں اور کدھر جائیں اب تو محبوب کو ہر چیز ہر بات میں کیڑے نظر آتے ہیں وہ جو دل کا جانی تھا اب جان کا دشمن بنتا جاتا ہے ۔پر بتائیں بھی تو کسے خود ہی تو ٹکر لی زمانے سے اور محبوب قدموں میں آتا آتا اب گلے پڑنے لگا ہے۔
ارے کوئی بات نہیں ایسا تو پھر ہوتا ہے نا محبوب آپ کے قدموں میں آئے یا آپ محبوب کے قدموں میں جائیں بات تو ایک ہی ہے بس اس بات کا خیال رکھیں کہ کسی کی بھی عزت نفس مجروح نہ ہونے پائے ۔جسے الله سے رو رو کے مانگا ہے اس کی بے قدری نہ ہی کریں تو بہتر ہے۔
ارے جب اسے محبوب مان ہی لیاتو کیا ضروری ہے کہ اس کے لتے بھی لیے جائیں۔ چھوڑ دیں اس کو اس کے حال پر۔آخر دنیاداری بھی کوئی چیز ہے اور اسے نبھانا بھی پڑتا ہے۔جتنی آزادی آپ اپنے لیے چاہتے ہیں آپ کے محبوب کو بھی اسی قدر آزادی اور سکون چاہیے۔
اگر تو واقعی آپ نے سچی محبت کی ہے تو محبوب ساری دنیا بھی گھوم لے، آئے گا اپ کے پاس ہی ۔پراگر آپ پابندیاں لگائیں گے، روک ٹوک کریں گے، بلاوجہ الزامات کی بارش کریں گے تو پھر جتنے مرضی جتن کر لیں آپ کے پاؤں میں جوتا تو ہو سکتا ہے پر محبوب کے قدموں میں نہیں بلکہ آپ کے پاس بیٹھ کر بھی آپ سے کوسوں دور ہو گا ۔کوشش یہ کریں کہ محبوب قدموں کے بجائے دل کے پاس رہے۔


ڈاکٹر زری اشرف ایک ڈاکٹر ہونے کے ساتھ ساتھ سوشل ورکر بھی ہیں۔ اور اس کے علاوہ مطالعہ کی بیحد شوقین۔ قلم کار کے شروع ہونے پر مطالعہ کے ساتھ ساتھ لکھنا بھی شروع کر دیا ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn