” الذی خلق الموت والحیوة لیبلوکم ایکم احسن عملا ”
————-
تمہیں اندازہ ہے کہ جس متاعِ غرور کو تم لازوال جانے ہو۔
جس چراغِ راہ کو منزل تصور کیے ہو۔
جس عارضی سامانِ عشرت
کو سرمدی خیال کیے ہو۔
جس پل بھر کے غم کو
دائمی شمار کیے مایوسی کےگہرے دلدل میں غوطہ زن ہو۔
تمہیں معلوم نہیں کہ اس کی حقیقت کیا ہے؟
کیوں؟
ان عارضی زخموں پر اتنا واویلا، اتنا غوغا کیوں ؟
تم تو جانتے تھے۔
نا آشنا نہیں تھے۔
تمہیں تو معلوم تھا کہ یہ قیام قیامِ دائمی نہیں۔
تم تو واقف تھے موت و حیات کی حقیقت سے۔
پھر کیوں ؟
یہ بے صبری، بے چینی یہ اضطراب کیوں ؟
شاید تم حقیقت پسند نہیں۔
اگر ہوتے تو بھلا ان عارضی زخموں پر اتنا واویلا کرتے؟
ذرا سی مصیبت پر مایوس ہو کر یوں شکوے کرتے؟
تمہارا اضطراب تمہارے ایمان کا حال صاف کہے دیتاہے۔
تمہاری مایوسی، تمہارے شکوے، تمہارے یقین کی نا پختگی کا پتہ دیتے ہیں۔
ایسا نہیں کہ تم حقیقت سے واقف نہیں۔
ایسا نہیں کہ تم منزل شناس نہیں۔
ایسا نہیں کہ تم قرینہ ہائے زندگی سے آشنا نہیں۔
تم واقف ہو، تم منزل شناس بھی ہو، تم انجان نہیں، بس مجبور ہو۔
وقتی مصلحت پسندی کا شکار ہو۔
انجام سے باخبر بھی ہو پر منہ موڑے ہو۔
کتراتے ہو، سامنا نہیں کرنا چاہتے۔
سنو ! کبوتر کے آنکھ بند کرنے سے وہ بچ نہیں پاتا۔
تمہارے انکار کرنے سے تم بچ نہیں سکتے۔
حقیقت ٹل نہیں سکتی۔
تمہیں ہار ماننا ہوگی۔
حقیقت کا اقرار کرنا ہوگا۔
حق تمہاری تصدیق و تردید سے بے نیاز ہے۔
اقرار کی ضرورت تمہیں ہے، تمہارے اطمینان واسطے،تمہارے سکون واسطے۔
یقین کر لو کہ یہ غم، یہ خوشیاں، یہ زخم ، یہ مرہم سب عارضی ہیں۔
فقط آزمائش ہیں۔
یہی حقیقت ہے۔
یہ مصیبتیں، یہ مشکلیں، یہ کٹھن حالات تمہاری آزمائش ہی کے لیےہیں۔
مایوسی چھوڑدو۔
اس یقین کے ساتھ کہ آزمائش تو شرط ہے۔
اسکی رضا کے لیے۔
تیری فلاح کے لیے۔
آزمائش شرط ہے۔


دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn