آج وہ دو گھنٹوں سے مسلسل خود کو تسلی دینے پر لگا ہوا تھا۔ خود ہی سوال کرتا اور خود ہی تسلی بخش جواب خود کو دیتا ۔آخر غلط کیا ہی کیا ہے اس نے ؟کوئی دنیا سے الگ نرالی حرکت نہیں کی۔ پھر سب سمجھتے ہیں۔ سب کو اس سے بلا کی ہمدردی تھی۔ آخر سولہ سال سے اس نے شمع سے نبھایا تھا۔ بہت خوش رکھا۔ کیا ہوا اس نے انہیں کوئی اولاد نہیں دی۔ ایک بانجھ عورت کو سینے سے لگا کر رکھا۔ ہمیشہ کہتا شمع کبھی مت سوچنا تو کوئی اولاد پیدا نہیں کر سکتی ۔کوئی بات نہیں، اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ بےفکر رہ۔ مجھے بھی زیادہ خواہش نہیں۔ میری طرف سے بے فکر رہ۔ اور وہ کبھی دو لفظ تشکر کے ادا بھی نہیں کرتی تھی۔ بس ایک دکھ بھری مسکراہٹ آجاتی تھی آتی کیوں نہیں۔ آخر اتنا چاہنے والا ہمدرد انسان اس کا شوہر تھا۔ شمع خاموش ہوتی گئی۔ لبوں سے گنگناہٹ ختم ہو گئی جو لب مسکراتے تھے وہ اداس ہو گئے آنکھوں میں نمی لئے رہتی وہ۔ اب اس نے بھی اپنے کارخانے میں زیادہ وقت گزارنا شروع کردیا۔ رات گئے دوستوں میں رہنا شروع کر دیا۔ آخر اس کا صبر ٹوٹ ہی گیا۔ اپنے دوست رضوان کی طلاق یافتہ سالی سے نکاح کر لیا۔ اور اب وہ اس کو گھر لےکر جا رہا تھا۔
بار بار خود کو حق پر ثابت قدم سمجھتا اور خود کو سمجھاتا دوسری بیوی کو لے کر شمع کے پاس کھڑا تھا۔ اور شمع کے چہرے پر وہ سب تھا جس کا اس نے سوچا تھا۔ وہ آنسو بھری آنکھوں سے اسے تکتی جا رہی تھی۔ سہیل کاش آپ شادی کرنے سے پہلے ایک بار تو مجھ سے کہتے۔ یہ کہہ کر وہ روتی ہوئی اندر بیڈروم میں چلی گئی۔
وہ شرمندہ سا نئی نویلی بیوی کو دیکھنے لگا۔ جس کے لبوں پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ ناچ رہی تھی۔
تب ہی شمع اندر سے بر آمد ہوئی۔ ایک لفافہ اس کو دے بولی کاش آپ کو میں یہ دے دیتی۔ وہ الجھی ہوئی نظروں سے لفافہ کھولنے لگا۔ اس میں ایک رپورٹ تھی۔ پندرہ سال پہلے کی ڈاکٹر کی رپورٹ، شمع مکمّل تھی وہ نامکمّل تھا۔ اس میں باپ بننے کی صلاحیت ہی نہیں تھی۔ ہمارے معاشرے میں بہت سارے مرد یہ سمجھتے ہیں کہ جس عورت سے وہ شادی کرتے ہیں۔ یہ ان کا اس عورت پر بہت بڑا احسان ہے۔ مگر شاید وہ کچھ باتیں نہیں سوچتے یا یہ کہیں کہ سوچنا نہیں چاہتے۔ شادی کے بعد عورت اپنا نام تبدیل کرتی ہے، گھر تبدیل کرتی ہے، اپنا گھر رشتے سب کو چھوڈ کر آپ کے ساتھ رہتی ہے، پھر آپ کے گھر کو اپنا بناتی ہے، نو مہینے تک اولاد کو اپنے پیٹ میں پالتی ہے اس نو مہینے کی تکلیف اٹھاتی ہے، جسمانی طور پر بد صورت ہو جاتی ہے، بچے کی پیدائش کی تکلیف اٹھاتی ہے۔ اور یہ سب تکلیفیں اٹھانے کے بعد بھی بچے کو آپ کا نام ملتا ہے۔
اپنی آخری سانس تک وہ آپ کے لیے اپنا آپ قربان کر دیتی ہے۔ گھر کی صفائی کھانا پکانا بچوں کو پالنا ساس سسر اور دوسروں گھر والوں کا خیال رکھنا اور اسی طرح کے بہت سارے دوسرے رشتے نبھانا غرض یہ کے ضرورت پڑے تو روزگار کے لیے نکل پڑنا اور پتہ نہیں کتنی ہی اور ذمہ داریاں نبھاتی ہے۔ اور بدلے میں آپ سے صرف ایک چیز مانگتی ہے عزت و احترام۔
عورتوں کی عزت کیجے احترام کیجئے آج کی بچی کل کی ماں بنتی ہے تو عزت و احترام صرف ماں کا ہی نہیں ہر عورت کا کیجئے۔ کیوں کہ عورت کی زندگی اتنی آسان نہیں جتنی نظر آتی ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn