انسان کو جب بھوک ستاتی ہے …..اور کام کا جذبہ بنتا ہے تو وہ کسی بھی کام کو معمولی نہیں سمجھتا.تعلیم کی اعلی ڈگریوں پہ بھی وہ نازاں نہیں ہوتا.وہ جب بھانپ جاتا ہے کہ انٹرویو کے باوجود بھی ہنوز نوکری ندارد.تو عقل مند جلد ہی کسی بھی چھوٹے موٹے کام کا آغاز کر دیتے ہیں۔مگر ساتھ ہی ساتھ وہ انٹرویو کاسلسلہ بھی جاری رکھتے ہیں۔اس طرح سہولت کے ساتھ آسا نی بھی رہتی ہے۔ کام کرنے والوں کے لئے نہ کوئی کام چھوٹا ہوتا ہے نہ معمولی.
خالی پیٹ کچھ دن رہنے والوں کو اس کا خوب ادراک ہوتا ہے۔ مگر اُس کا پیٹ بھرا ہوا تھا.تعلیم میں وہ آٹھ جماعت پاس تھا.آٹھویں تک پہنچتے ہی اسے احساس ہوا کہ آخر اسے تعلیم کی کیونکر ضرورت ہے.ماں باپ کا وہ اکلوتا لاڈلا ہے.اور اپنے بڑے سے قصبے کا ایک چھوٹا سا زمین دار.ماں باپ نے تو اپنے بیٹے کو سمجھایا.دیکھو بیٹا ساجد یہ سچ ہے ہماری تھوڑی زمین ہے.اور یہ تمہاری ہی ہے بیٹا.مگر بیٹا جب بارش ہوفصل ہوجاتی ہے نہ ہو تو مشکل ہو جاتی ہے۔ ہم چاہتے تم زیادہ پڑھو .تاکہ کسی اچھی جگہ ملازمت کر لو. وہ ایک کان سے سُن کے دوسرے سے بات نکال دیتا.
آٹھویں جماعت کے بعد ساجد گھر بیٹھ گیا۔ماں باپ آخر کر ہی کیا سکتے تھے.دو سال اسی طرح گزر گئے.ساجد کے باپ کی شرافت کو دیکھتے ہوئے اسکول کے ہیڈ ماسٹر نے میٹرک کا پرائیویٹ امتحان دینے کی اجازت دے دی۔ پھر کیا تھا ساجد کے ماں باپ کی آنکھوں میں تو گویا جگنو سے چمک گئے.جلدی سے داخلہ بھجوایا.اور ہر اک استاد کو پیغام بھجوایا کہ ہمارے پُتر کا تو ضرور خیال رکھنا ہے.گاؤں کے سکول کا اثر تھا یا ماں باپ کی دعا ساجد تھرڈ ڈویثرن میں پاس ہو گیا.آس پاس مٹھا ئی بانٹی گئی.گھر بھر میں جیسے خوشی کا سماں تھا.ماں باپ کی مرضی تھی کہ ساجد کو راضی کر کے آگے پڑھائیں گے مگر ان کا خواب ادھورا رہا. خدا کا کرنا یوں ہوا کہ قریب کے شہر جاتے ہوئے بس کے ایکسیڈنٹ میں ساجد کے ماں باپ فوت ہو گئے۔ ساجد کی تو جیسے دنیا ہی اجڑ گئی.گاؤں بھر کی ہمدردیاں ساجد کے ساتھ تھیں.ہیڈ ماسٹر صاحب نے ایک قدم آگے بڑھاکر کسی نہ کسی طریقے سے نائب قاصد بھرتی کروا دیا. ایک دو سال میں ہی ساجد سکول کی اس نوکری سے اکتا سا گیا وہ سکول کے سائنس ٹیچر کو دیکھتا.اس کی چالیس ہزارتنخواہ کو دیکھتا تو حسد محسوس کرتا.اس کو آواز دے کے جب کوئی ٹیچر کام کہتا تب بھی اسے برا محسوس ہوتا.ہیڈ ماسٹر صاحب اکثر اسے پیار سے سمجھاتے.کہ بیٹا اب بھی اگر محنت سے کام کرو ساتھ پڑھائی کرو تو میں پرائیویٹ ایف اے ، بی اے کے بعد تمہیں ٹیچر لگوا سکتا ہوں مگر یہ سن کروہ ہو امیں بات کو اڑا دیتا.پھر اچانک ہی اس نے سکول جانا چھوڑ دیا ہیڈ ماسٹر سمیت اس نے کسی کی بات نہ سنی اور اڑ گیا کہ وہ اب قاصد نہیں رہے گا.ہیڈ ماسٹر صاحب نے نوکری ختم ہونے کا محکمانہ کاغذ اس کے ہاتھ میں تھما دیا. نہ بارشیں ہوئیں نہ اس نے فصل کاشت کی.دو ماہ میں ہی نوبت فاقوں تک آگئ.
اپنے پشتو ں کی زمین میں سے کچھ حصہ فروخت کرتے اس کی آ نکھو ں میں آنسو آگئے.جلد وہ پیسے خرچ ہو گئے مزدوری کو گیاتو اس کے ہاتھوں میں چھالے پڑگئے.ماں باپ کی قبر سے لپٹ کر بہت رویا.تو اس کے کندھے پہ کسی نے ہاتھ رکھا .وہ ہیڈ ماسٹرصاحب تھے.انھوں نے چالیس ہزار دے کے کہا بیٹا یہ تمہاری تنخواہ ہے.میں نے نوکری سے نکالا نہیں تھا.مجھے پتہ تھا تم صبح کے بھولے ہو۔کل سے ڈیوٹی پہ آجاؤ.وہ رات بھر اپنے مالک کا شکر ادا کرتا رہا.۔صبح اسکول جاتے ہوئے اس نے دیکھا کتنے ہی لوگ اس سے زیادہ مشکل کام کر رہے تھے اور وہ کتنوں سے اچھا ہے.بے اختیار اس کی زبان سے الحمدللہ نکلا.آج وہ بے حد خوش تھا.اس کے سینے سے ایف اے کی کتابیں لگی تھیں.ہیڈ ماسٹر صاحب نے روز اس کو پڑھانے کا وعدہ بھی کیاتھا .لیکن ٹیچر بننے تک وہ ایک اچھا اور محنتی نائب قاصد تھا.
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn