قصور میں ہونے والا زینب کا واقعہ انتہائی افسوناک اور درندگی کی بدترین مثال ہے۔ اس افسوناک واقعہ کے بعد عوام اور پولیس کے درمیان نفرت کی فضا میں اضافہ ہو گیا ہے۔ ایسے زینب جیسے واقعات کے بعد مجرموں کو پکڑنا پولیس اور ریاست کی ذمہ داری ہے اس کے بعد پولیس کا مجرموں کو نہ پکڑنا اور ان کو پکڑنے کے قابل نہ ہونا ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے یہ سارے سوال عوام کے اندر پولیس کے خلاف بداعتمادی کی فضا کو پروان چڑھا رہے ییں۔ لہذا حکمرانوں کو پولیس میں فی الفور اصلاحات نافذ کرنی چاہیے۔ ورنہ عوام کے اندر پولیس کے خلاف نفرت اور بے چینی کی فضا قائم ہو گی۔ دنیا کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جہاں پھر ایسی فضا بنی پھر یہ خون ریزی کی طرف بڑھی۔ جس میں مجرموں کے علاوہ بہت سے بے گناہ لوگ بھی مارے گئے ہمیں اپنے بچوں کا مستقبل محفوظ بنانے کے لئے پہلے سے ہی ایسی اصلاحات بنانی چاہیے ۔ مگر مجھے لگتا ہے کہ یہ حکمرانوں کی سوچ اور فکر ہی نہیں یا پھر وہ لوٹ مار میں اپنی کرسی بچانے میں لگے ہوئے ہیں اور ان کو اس آنے والے وقت کا اندازہ ہی نہیں اگر حکمرانوں کے پاس اتنا وقت نہیں تو وہ ایسی سوچ رکھنے والے نوجوانوں کو اصلاحات بنانے کی ذمہ داری سونپ دیں۔ تاکہ ہمارے بچوں کا مستقبل محفوظ ہو سکے۔ میری چند گزارشات حکمرانوں کی خدمت میں پیش ہیں۔
1۔ تمام پولیس اسٹیشنز پر ویڈیو کیمرے لگائے جائیں اور ان کے سرکاری ٹیلی فون ریکارڈ کرنے کا کام شروع کیا جائے۔ ایف آئی آر کا اندراج ایس ایچ او کے انڈر سے نکال دینا چاہیے۔ کیونکہ کسی بھی تھانے میں جرائم کا بڑھنا اور ایف آئی آر کا زیادہ ہونا تھانے کے ایس ایچ او کی کارکردگی کو متاثر کرتا ہے اور اس کو حکام علی کے سامنے جواب دہ ہونا پڑتا ہے جس کے لیے وہ ہر ایک حربہ استعمال کرتا ہے جس کی قانون اسے اجازت بھی نہیں دیتا اور اس کا یہ عمل عوام میں بداعتمادی کی فضا کو فروغ دیتا ہے۔ جب ایف آئی اے کے اندراج کا سسٹم الگ کر دیا جائے گا تو عوام کے لیے آسانی پیدا ہو گی یا تھانوں میں کام کا پریشر بڑھ جائے گا۔ پھر وہ اپنی کارکردگی کو بہتر کرنے کے لیے جدوجہد کریں گے اس طرح پولیس کے نظام کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔
2۔ حکمرانوں کو ایسا قانون بنانا چاہئے کہ ریاست کا کوئی بھی ملازم اور پولیس اہلکار کو جرم ثابت ہونے کے بعد لائن حاضر اور تبادلے کی سزائیں دینے کے بجائے جرم کی سزا دی جائے اور ملازمت سے فارغ کر دیا جائے جب تک یہ عمل نہیں کیا جائے گا ملک سے جرائم اور کرپشن ختم نہیں ہو گی۔ پولیس کے جو ایمان دار اہلکار ہیں اور کام کرنا چاہتے ہیں پھر وہ کھل کر کام نہیں کر سکیں گے سارے پولیس والے اچھے نہیں ہیں کچھ ایماندار لوگ بھی ہیں لیکن وہ کرپٹ افراد کی وجہ سے اور پوزیشن کی مداخلت کی وجہ سے مجبور ہیں۔
3۔ اہک ایسا قانون نافذ کرنے کی ضروت ہے کہ ریاست کا کوئی بھی آدمی اپنے نام کے ساتھ آرائیں، جٹ، گجر، چوہدری، میاں اور خان نہ لگائے کیونکہ یہ اہلکار ریاست میں بسنے والی عوام کے نمائندے ہوتے ہیں نہ کہ صرف ایک برادری کے نمائندے ہوتے ہیں۔ ان کا یہ عمل انصاف میں فراہمی کی ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ اور اس عمل سے لوگوں میں نفرت پیدا ہو رہی ہے ایسی بہت سی اصلاحات پولیس کے محکمے میں موجود ہیں جو معاشرے کو خون ریزی کی جانب دھکیل رہی ہیں۔ کیونکہ کسی بھی طرح کی کی اصلاحات کھیل شروع ہونے سے پہلے کی جاتی ہیں نا کہ کھیل ختم ہونے کے بعد نافذ کی جاتی ہیں ۔ دنیا کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جب ظلم، زیادتی، ناانصافی بڑھ جائے تو ایسے افراد کی تعداد لاکھوں ہو جاتی ہےاور ایسی تحریک جو کہ ریاست کو کمزور کرنے کے لیے چلائی جاتی ہیں یہ ان کا حصہ بن جاتے ہیں۔ جس کا انجام بھیانک ہوتا ہے۔ ہمیں ایسے بھیانک انجام سے پہلے ہی قانونی محکموں میں اصلاحات نافذ کر دینی چاہئے۔ زینب کے مجرم کو سرعام پھانسی دی جائے تاکہ عوام کا اعتماد بحال ہو۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn