عصرِ حاضر کا مسلمان متعدد مشکلات و آفات میں مبتلا ہے۔ تعلیمی و تربیتی فقدان، اقتصادیاتی مسائل، انفرادی و اجتعماعی شناخت کا خاتمہ، معاشرتی و نفسیاتی تناؤ اور ثقافتی بگاڑ نے مسلمانوں کو روبہ زوال کر رکھا ہے۔ اگرچہ آج کا مسلمان ہر شعبہ ہائے زندگی میں مشکلات کا شکار ہے، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ مشکلات جزوِ زندگی شمار کی جاتی ہیں۔ حوادثِ روز و شب سے کنارہ کشی بے حرکت معاشروں کو جنم دیتی ہے۔ مردہ معاشروں میں انسانی تقدیر چندغالب افراد کے ہاتھ میں دے دی جاتی ہے جبکہ باقی تمام انسان تماش بین بن کر بیٹھ جاتے ہیں۔زندہ معاشرہ وہ ہے جس کی زمام زندہ رہبر کے ہاتھ میں ہو، اُس معاشرے کے تمام انسان اجتماعی حیات کے تمام اصولوں پہ باقی ہوں اور یا حی و یا قیوم کہتے ہوئے اپنے ہدف و منزل کی طرف گامزن ہوں۔
مشکلات کا درپیش ہونا بھی ایک نعمت ہے۔ ایسی نعمت جو حکمت آمیز انسانوں کواپنے قوتِ ارادہ و اختیار کو سمجھنے اوراپنی تقدیر سازی میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ مشکلات ہی انسان کے اندر کی چھُپی کمزوریوں سے آشنائی کا سبب بنتی ہیں۔اہم مسئلہ یہ نہیں کہ مسلمان زحمتوں کا شکار ہے، اہم مسئلہ یہ ہے کہ آج کے مسلمان ان مشکلات میں گھر کر کونسا فیصلہ کرتے ہیں، کس طرف رُخ موڑتے ہیں۔ کس طرح مشکلات کا صحیح تعین کرتے ہیں اور راہِ حل کے لیے کونسی روش اپناتے ہیں۔ قوتِ ارادہ سے کس طرح کام لیتا ہے اور نفسیات کے الجھاؤ میں کیسا رویہ اختیار کرتا ہے۔
آج کا انسان مشکلات میں نہ منفی سوچ رکھتا ہے نہ مثبت۔ کبھی شکست خوردہ بن کے مشکلات سے فرار ہی راہِ حل سمجھتا ہے تو کبھی بلندو بانگ دعوے کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ آج کا مسلمان نہ مردہ ہے نہ زندہ، بلکہ ایک وائرس کی طرح صفر اور ایک کے درمیان موجود ہے۔ اس ہلاکت کی منطقی وجہ یہی ہے کہ دورِ حاضر میں اسلام کو زندگی کے تمام شعبوں سے نکال کر ایک الگ سے شعبہ بنا دیا گیا ہے۔ اسلام کو کنارے لگا نا اُن عیاش حکمرانوں اور غیر عادلانہ حکومتوں کا کام ہے جن کے ہاتھ میں معاشروں کی زمام ہے۔ یہ مکار و عیار حکمران معاشرے کو چار پاؤں والا جانور بنا کر عرصہِ دراز سے سواری لے رہے ہیں۔ تاریخ کی بدترین غلامی نے مسلمانوں کا رُخ جدید ثقافت کی طرف موڑ دیا ہے۔ ثقافتی یلغار نے سب سے پہلے مسلمانوں سے ان کی ہویت، شخصیت اور خودی کو چھین کر نئے چیلینجز سےنمٹنے کی قوت سے محروم کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام مسلمان معاشرے خواہ کسی بھی سرزمین پر ہوں خودکشی کو تیار ہیں۔کیونکہ جانتے ہیں کہ ہمارے بدن سے ہماری روح تو کب سے نکال لی گئی اب فقط ایک پھونک ہے جو تہذیبِ نو کی شکل میں ہمارے اندام میں موجود ہے، جو غیر کی ہے۔
مسلمان اسلام کو مانتے ہیں، لیکن اسلام کے الہٰی اصولوں اور ملکوتی اقدار کو درک کرنے سے قاصر ہوچکے ہیں ۔ اصلِ اسلام وہی اصول ہیں جن کے ذریعے کسی بھی جامد شعبہ میں حرکت ایجاد کی جاسکتی ہے۔ اہم زحمت اصولِ اسلام کی تطبیق ہے، جسے رفتہ رفتہ غیر الہٰی حکمرانوں اور استعمار کی فکری فریب کاری نے محو کر دیا ہے۔ اب مسلمان یہی سوچتے اور جانتے ہیں کہ اسلام کے اصول تطبیق نہیں کیے جاسکتے۔ وسائل کی کمی کا بہانہ بنا کراسلام کی عالی اقدارکو معاشرے میں عملی کئے جانے کو بے موقع سمجھتے ہیں۔
اس وقت کےمسلمان کو چاہیے کہ اپنا موقف شفاف رکھے اور اپنی اندرونی صلاحیتوں کو سامنے رکھے۔ ماضی کے کارناموں پہ فخر کے بجائے خود اپنے حال کو باعثِ فخر بنائے۔ مشکلات پر قابو پانے اور معلولات کے اسباب کو درک کرکے انہیں ختم کرنے کی قوت و اقدامات پہ یقینِ محکم رکھے۔ آگے بڑھنے، ترقی کرنے، صحراؤں میں شادابی پھیلانے اور گلشن سے کانٹے صاف کرنے کو فریضہ سمجھے۔ اسلامی فکر و فلسفہ کو فقط مطالعہ تک محددونہ کرے بلکہ اسے عملی بھی کرے۔اسلامی سرزمینوں پہ اپنے وجود کو محسوس بھی کرے۔ کشمیر، فلسطین، بحرین،افغانستان، شام اور عراق کے مسائل پہ دقیق نگاہ رکھے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنے ہر فیصلہ میں عقل و وحی کو قاضی ٹھہرائے ۔ تب جا کر اسلام ہر شعبہ ہائے زندگی میں ایک نظام کی صورت عملی ہوگا اور اس کے تطبیقی ہونے میں کوئی توہم مانع نہیں ہوگا۔ اسی میں ہی ان تمام مشکلات کا حل ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn