Qalamkar Website Header Image

اسد عمر اور تحریک انصاف معاملات کنٹرول کرنے میں ناکام اور مخالفین پر گولہ باری

الیکشن 2018ء سے پہلے تحریک انصاف نے اسد عمر کا تعارف معاشی نجات دہندہ کے طور پر کروایا تھا۔ عمران خان کے لئے وزارت عظمیٰ کی کنفرمیشن کے علاوہ یہ صرف اسد عمر ہی تھے جن کے لئے وزارت خزانہ پکی سیٹ تھی۔ اسد عمر کے بارے میں دعوی کیا گیا تھا کہ وہ دنوں اور ہفتوں میں ملک کو تمام معاشی بحرانوں سے نکال دیں گے کیونکہ وہ معاشی جادوگر ہیں۔ خود اسد عمر صاحب کی پچھلے دور حکومت میں جو ٹویٹس ہوا کرتی تھیں، انہیں پڑھ کر عامہ الناس کے خون کی گردش بڑھ جایا کرتی تھی۔ لوگ سمجھتے تھے کہ "کرپٹ” نواز شریف اور "ظالم” اسحاق ڈار کی لوٹ مار کی وجہ سے پاکستان کا بیڑہ غرق ہو گیا ہے۔ یکم فروری 2016ء شام 07:13 بجے پوسٹ ہوئی اسد عمر کی ایک ٹویٹ تو بہت ہی مشہور ہوئی تھی جس میں پٹرول کی قیمت 71.30 روپے فی لٹر مقرر ہونے پر انہوں نے فرمایا تھا کہ عالمی مارکیٹ میں پٹرول کی فی لٹر قیمت (ریفائنری سے نکلنے کے بعد) 46.80 روپے بنتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس پر ٹیکس 24.50 ہے یعنی کہ پٹرول پر کل ٹیکس 52% بنتا ہے۔ اس ٹویٹ کی کاپی ملاحظہ فرمائیں۔

تحریک انصاف نے گزشتہ حکومت پر لوٹ مار کے جو الزامات لگائے ان سب کے باوجود

1):۔  جنوری 2016ء میں پاکستان اسٹاک مارکیٹ دنیا کی (5) بہترین اسٹاک مارکیٹوں میں شمار ہوتی تھی۔ اور 2017ء میں نواز شریف کی اقتدار سے علیحدگی کے وقت تک اسٹاک مارکیٹ کا 100 انڈیکس 54000 پوائنٹس تک پہنچ چکا تھا۔

2):۔  اس وقت شرح نمو یعنی جی ڈی پی 5.8 تک چلا گیا تھا اور ایک اندازہ تھا کہ جنوری 2019ء میں یہ 6.2 تک پہنچ جاتا۔

3):۔خزانہ میں انتہائی لوٹ مار کے الزامات کے بعد بھی 23 ارب ڈالر پڑے ہوئے تھے۔

4):۔بقول تحریک انصاف کے جاتی امرا کا خرچہ چلانے کے بعد بھی سونا پچاس ہزار روپے فی تولہ کے آس پاس مل جاتا تھا۔

5):۔ ڈالر بھی 100 روپے کے آس پاس رکا ہوا تھا۔

6):۔کک بیکس کے الزامات کے بعد بھی ترقیاتی منصوبے، سی پیک، لیپ ٹاپ، نئے ہسپتال اور نئی صنعتیں لگ رہی تھیں۔

پھر یوں ہوا کہ اقتدار کے اصلی مالکوں نے غریبوں کی سن لی، "کرپٹ” شریف حکومت سے جان چھوٹی۔ طاقت والی سرکار کی کوششوں سے ملک میں صادق و امین تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوگئی۔  جس نے بقول مولانا طارق جمیل صاحب کے "تاریخ میں پہلی بار ریاست مدینہ کا تصور پیش کیا”۔ لوٹ مار کرنے والوں سے چھٹکارے کے بعد اب حالت یہ ہے کہ

یہ بھی پڑھئے:  سلمان حیدر تو کہاں پھنس گیا تھا۔

1):۔  ڈالر کو عزت مل گئی ہے اور وہ 140 سے اوپر چھلانگیں لگا رہا ہے یعنی روپے کی قیمت میں 33 فیصد کمی ہوچکی ہے۔

2):۔ اسٹاک مارکیٹ دنیا کی پانچ بدترین اسٹاک مارکیٹوں میں شمار ہونے لگی ہے۔ اس وقت بھی 100 پوائنٹس انڈیکس 40،000 سے نیچے ہے۔

3):۔  سعودیہ، امارات، ترکی، ملائیشیا اور چین سے پتہ نہیں کیا ملا ہے اور کیا نہیں مگر خزانہ ابھی تک سات ارب ڈالر سے آگے نہیں بڑھ رہا۔

4):۔ جی ڈی پی 3 فیصد سے بھی کم پر ہے جو کہ گزشتہ 10 سال کی کم ترین سطح ہے اور یہ 10 سال وہ ہیں جن میں ” کرپٹ” پیپلز پارٹی اور "ڈاکو” ن لیگ کی "مخصوص جمہوری” حکومتیں قائم تھیں۔

5):۔ بنیادی شرح سود 10 فیصد سے اوپر ہے جبکہ تیل، گیس اور بجلی کے ریٹس صارفین خود چیک کر رہے ہیں۔

6):۔ گردشی قرضے 1،000 ارب سے بڑھ کر 1،362 ارب روپے ہوچکے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ آنے والی گرمیوں میں نہ بجلی ہوگی، نہ پانی، نہ تیل۔

7):۔ حکومتی اعداد و شمار کہہ رہے ہیں کہ پچھلے چھ (6) ماہ میں ٹیکس کی وصولی  میں 175 ارب روپے کی کمی آچکی ہے۔

8):۔ ریکوڈک معاملہ میں پاکستان کیس ہار چکا ہے اور جرمانہ کے طور پر اب ہمیں 4 ارب ڈالر یعنی تقریبا” چھ کھرب روپیہ جرمانہ ہوا ہے اور اگر پاکستان یہ جرمانہ ادا نہیں کرتا تو دنیا کے 60 سے زیادہ ممالک میں ہماری ائیر لائن بند کر دی جائے گی اور بدنامی الگ ہوگی۔ واضح رہے کہ اس سے پہلے بھی نیب کو ایک کیس میں آٹھ ارب روپے کا جرمانہ ہوا تھا کیونکہ نیب نے احتساب کے لئے جس کمپنی کو نواز شریف اور زارداری سمیت تمام مخالف سیاستدانوں کی بیرون ملک جائیدادوں اور ناجائز دولت کے ثبوت اکٹھے کرنے کو کہا تھا، اس کے ساتھ معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جنرل (ر) مشرف دور میں این آر او کر لیا تھا۔

9):۔ پاکستان کرکٹ بورڈ نے باہمی سیریز نہ کھیلنے پر انڈین بورڈ پر ہرجانے کا دعوی کیا مگر نہ صرف کیس ہار بیٹھا بلکہ خود پر جرمانہ بھی کروا بیٹھا ہے۔

10):۔ اورنج لائن ٹرین پراجیکٹ کو لیٹ کرنے سے جو تعمیری لاگت میں اضافہ ہوا وہ اپنی جگہ ایک مسئلہ ہے مگر ایک اور مصیبت یہ ہے کہ اب روزانہ کے حساب سے اس پر جرمانہ بھی ادا کرنا ہوگا۔

11):۔  پاک ایران گیس لائن پر بھی ایرانی اپنے حصے کا کام مکمل کئے بیٹھے ہیں اور اگر انہوں نے کیس کر دیا تو یقینی بات ہے کہ ہم وہاں بھی کیس ہار جائیں گے۔ اس معاملہ میں موجودہ انصافی حکومت کے علاوہ لیگی حکومت بھی ذمہ دار ہے جس نے اپنے 5 سالہ دور حکومت میں سوتے رہے۔ وفاقی وزیر غلام سرور خاں نے کہا تھا کہ وہ ایران گیس پائپ لائن منصوبہ کو ازسر نو مکمل کروائیں گے مگر معاملہ ابھی تک جوں کا توں ہی ہے۔ پاکستان اور ایران کے درمیان آزاد تجارتی معاہدہ ہونے کے معاملات بھی مزید تاخیر کا شکار ہو چکے ہیں۔ وفاقی وزیر خزانہ کی اس بات پر کوئی توجہ نہیں ہے کہ پاکستان اور ایران کے درمیان بینکنگ چینل کے قیام کے بغیر یہ اہم ترین معاہدہ ممکن نہیں ہے۔ اس لئے انہیں اس طرف فوری توجہ دینی ہوگی۔

یہ بھی پڑھئے:  پہلی جنگ عظیم کی تباہ کاریاں

12):۔ قطر سے ایل این جی گیس کی درآمد کا معاہدہ عمران خان حکومت نے آتے ہی کینسل کر دیا تھا۔ شنید ہے کہ قطری شہزادہ کے حالیہ دورے میں انہیں راضی کرنے کی بہت کوشش کی گئی مگر بیل منڈھے نہیں چڑھ سکی۔

یہ وہ بڑے معاملات ہیں جہاں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اور وفاقی وزیر خزانہ معاملات کو کنٹرول کرنے میں بالکل ناکام دکھائی دیتے ہیں۔ اسد عمر کی پیش کردہ کرشماتی صلاحیتوں کا پچھلے چار (4) مہینوں سے زیادہ میں بھی کوئی نام و نشان نہیں مل سکا۔  یہ طے ہے کہ حالات اور بھی خرابی کی طرف جاتے نظر آ رہے ہیں۔ مزید بدقسمتی یہ ہے کہ ہمیں جھوٹے خواب دکھائے جا رہے ہیں۔ یہ کہا جا رہا ہے کہ پریشانی کی کوئی بات نہیں، لوگوں کو چاہئے کہ وہ صدرمملکت، گورنر اور وزراء کی عام مقامات پر نمازیں پڑھنے اور ائیر پورٹ، سینما اور دوسرے مقامات پر قطاروں میں کھڑے ہونے والی تصاویر دیکھیں، جن لوگوں کو زیادہ پریشانی اور تجسس ہو تو اتوار کو ایوان صدر یا گورنر ہاؤس کا چکر لگائیں۔ اور اگر کسی کو ان میں سے کچھ بھی سہولت میسر نہیں تو گھر بیٹھ کر تحریک انصاف کے سوشل میڈیا کے نعروں سے جی بہلائیں کہ یہ سب کچھ سابقہ حکمران کی کرپشن کی وجہ سے ہورہا ہے یا وزیر اعظم کی موریوں والے لباس کی تصویر دیکھیں اور نواز شریف، زارداری سمیت پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے تمام سیاستدانوں کو خوب گالیاں دیں۔

حالیہ بلاگ پوسٹس