تلوار لئے درہم و دینار کے بازو
کرتے ہیں قلم روز قلم کار کے بازو
آجائیے مولاؑ ،میں یہاں کب سے کھڑا ہوں
پھیلائے ہوئے حسرتِ دیدار کے بازو
ہمت ہے کسی کی مجھے رستے سے ہٹائے؟
میں تھام کے چلتا ہوں عزادار کے بازو
ہاتھوں میں کہاں دم تھا کہ میں تیغ چلاتا
قدرت نے عطا کردئے اشعار کے بازو
مجلس میں نہ چھلکیں تو ہیں کس کام کی آنکھیں
ماتم کو نہ اٹھیں تو ہیں بے کار کے بازو
فتوے کی چھری اس نے چھپائی ہے بغل میں
میں کاٹ نہ دوں مفتئِ مکّار کے بازو
کعبے نے سجا رکھی ہے اس وقت کی تصویر
پھیلے تھے یہاں پر کبھی دیوار کے بازو
تاخیر نہ کی ، تیغِ دو دم بھیج دی اس دم
جس دم نظر آئے اسی میعار کے بازو
صورت علی اکبرؑ کی محمدؐ کی ہے صورت
بازو ہیں مگر حیدرِ کرار کے بازو
اب حشر تلک مشک و علم ساتھ رہیں گے
تسمے سے حمائل ہیں علم دارؑ کے بازو
کمسن تھے مگر خوب لڑے عون و محمدؑ
خنجر نے اڑائے یہاں تلوار کے بازو
ناوک نظر آیا تو گلا آگے بڑھایا
اصغرؑ نے بچائے شہہِ ابرارؑ کے بازو
ہے آیتِ سجدہ کہ ہے شمشیر امامتؑ
سجدے میں پڑے ہیں صفِ اغیار کے بازو
مانا کہ رسن بستہ رہے بازوئے زینبؑ
آزاد رہے قامتِ اظہار کے بازو
پہنائی گئی پَیروں میں سجّاد کے بیڑی
باندھے گئے زنجیر سے بیمارؑ کے بازو
ان ہاتھوں سے ہی اِس نے کیا ہے وہاں ماتم
حسرت سے تکے جاتا ہوں زواّر کے بازو
آجائیں علیؑ ، میں انہیں آرام سے دیکھوں
کھل جائیں مری تربتِ ہموار کے بازو
شاعر: عارف امام
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn