دہشت گردی یا عسکریت پسندی ایسا لفظ ہے جس کودنیا کے ہر ملک و مذہب نے اپنی مرضی کے معانی پہنائے ہیں،کسی کے نزدیک بے گناہ اور معصوم لوگوں کو ظلم و بربریت سے قتل کرنا دہشت گردی ہے تو کسی کے نزدیک مذہب کی آڑ میں کسی کی جان لینا۔کسی کے نزدیک توہین رسالت کے نام پہ کسی کو ذاتی انتقام کا نشانہ بنانا تو کسی کے نزدیک ہر باریش بوڑھے اور نوجوان کو تضحیک کے طور پر طالبان کہہ کر پکارنا۔اسی عمل کو مغربی دنیا دہشت گردی ،احتیاط پسند لوگ عسکریت پسندی اور اہل مدارس جہادکا نام دیتے ہیں۔اگرچہ یہ سچ ہے کہ دین اسلام نے مسلح جدوجہد پر کافی زور دیا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی جہاد کو جہاد بالنفس ،جہاد بالقلم،اور جہاد با لسیف جیسے درجات میں بھی تقسیم کیا ہے جس میں سب سے افضل در جہ جہاد بالنفس کا ہے مگر نادان مولویوں اور عاقبت نا اندیش علما ء کرام نے تمام دین کا نچوڑہی جہاد بالسیف میں رکھا ہے۔مثال کے طور پر مولانا زاہدالراشدی فرماتے ہیں:
مسلمانوں کے تمام فقہی مذاہب کا متفقہ فیصلہ ہے کہ خلافت اسلامیہ کا قیام ملت اسلامیہ کا اجتماعی دینی فریضہ ہے
جبکہ ایک جگہ مفتی تقی عثمانی صاحب یوں رقمطراز ہیں
ان الحکم الا للہ کی تشریح یہ ہے کہ جس خدا کا حکم آسمانوں پر قائم ہے اس کا حکم زمین پر بھی قائم ہونا چاہئے
مختلف علماء کے نزدیک غلبہء دین کا تصور بالخصوص سیاسی غلبہ تمام امت مسلمہ کا لازمی فریضہ ہے۔شاید یہی وہ ذہنیت ہے جو ہمارے ہاں جہادی نرسریاں تیار کرنے اور ان کی آبیاری کا سبب بنتی ہے۔حیرانی تو اس بات پر ہے کہ وہ اہل علم قرآن و حدیث میں جن کی فضیلت و اہمیت نہ صرف بڑی صراحت سے بیان کی گئی ہے بلکہ ان کو انبیاء کا وارث قرار دیا گیا ہے وہ دین کی درست تشریح میں کس قدر غلط فہمی کا شکار ہیں
جب اپنوں کی علمی فضیلت کی یہ حالت ہے تو غیروں سے گلہ کیا کرنا جو دنیا کے ہر کونے میں ہونے والی دہشت گردی خواہ وہ ورلڈٹریڈ سنٹر کی تباہی کی صورت میں ہو،لندن میں ریلوے اسٹیشن پہ ہونے والے دھماکے ہوں،تاج اور اوبرائے ہوٹل پر ہونے والی قتل و غارت ہو یا پیرس میں ہونے والا قتل عام،آنکھیں بند کر کے الزام مسلمانوں پر عائد کر نا اپنا اولین فریضہ مانتے ہیں اور دنیا کو القائدہ اور داعش جیسے خطروں سے ڈرا کر اپنا ہم آواز بنانے اور یوں مظلوم بن کر ان کی ہمدردیاں سمیٹنے کا ہنر جانتے ہیں۔قربان جائیے اہل خرد کی اس جسارت پر جن کو مسلمانوں کے ہاتھوں ہونے والی یہ بربریت تو نظر آتی ہے مگر اس میں پنہا ں اسباب نظر نہیں آتے،اگر تاریخ کے د ریچوں میں جھانکیں تو یہ راز عیاں ہوتا ہے کہ دنیا میں ہونے والی اس بربریت کے اکیلے مسلمان ہی ذمہ دار نہیں بلکہ غیر مسلموں بالخصوص عیسائی حکمرانوں اور علماء نے اس میں پورا پورا حصہ ڈالا ہے۔پندرہویں صدی میں یورپی ممالک نے جدید ذرائع اور اسباب کی تلاش میں دوسرے ممالک میں داخل ہونے کا فیصلہ کیا تو1492ء میں کولمبس نے امریکہ دریافت کر کے سپین کے قبضے اور اقتدار کے لیے راہ ہموار کی تو دوسری جانب داسکو ڈی گاماپرتگیزی حکومت کی مدد سے کالی کٹ کی بندر گاہ کے راستے ہندوستان پہنچا ۔اور اصول تو یہ تھا کہ عیسائی دنیا جو صرف تجارت کی غرض سے کوچہ نوردی کر رہی تھی کا مقصد صرف معاشی وسائل کے حصول تک محدود ررہتا مگر انہوں نے ان ممالک کو ذاتی جاگیر سمجھتے ہوئے اور یہاں اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کے لیے مقامی آبادی کو غلام بنانے کی ٹھانی جس پر پوپ نے مہر تصدیق ثبت کر دی اور یوں دنیا میں یورپی استعماریت کا آغاز ہواچنانچہ سپین اور دیگر مغربی ممالک کے فوجی اور پادری جنوبی امریکہ میں داخل ہوئے اور جنوبی امریکہ کی بڑی تہہذیبوں بالخصوص الکا،مایا اور اسٹیک کو روندتے ہوئے مقامی آبادی کو عیسائی بننے پر مجبور کیا۔اگر کل کلاں اہل سپین یہ خیال کرتے تھے کہ ان کی فتوحات کا سبب ان کا مذہبی طور پر سچا ہونا ہے تو آج یہی خناس امریکہ کے دماغ میں بھرا ہوا ہے کیونکہ اس کے نزدیک دنیا کی دیگر اقوام غیر ترقی یافتہ اورجاہل ہیں اس لیے امریکہ کو ان پر حکومت کرنے کا پورا پورا حق حاصل ہے۔اسی طرح سے یورپ کی دوسری ااقوام جن میں ڈچ ،بیلجیئم،جرمن اور فرانسیسی اقوام شامل تھیں ان کے اقتدار اور امپیریلزم کا سہارا بھی مذہب ہی تھا علاوہ ازیں صلیبی جنگوں میں اگر مسلمانوں کے خلاف یکے بعد دیگرے فوجوں کو مجتمع کیا گیا اور پوپ کی طرف سے لڑائی کے شرکاء کو جنت کی وعید سنائی گئی تو یہاں بھی بنیاد مذہب ہی بنا لہذا اگر آج امریکہ اور دیگر یورپی ممالک اسلام کو دہشت گردی کا مذہب اور مسلمانوں کو بنیاد پرست قرار دے کر خود کو مظلوم ثابت کرنا چاہتے ہیں تو انہیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ وہ یہی سارے کرتوت مذہب کی آڑ میں مسلمانوں اور دیگر اقوام کے خلاف کر چکے ہیں۔اور جو فصل اس نے صدیوں پہلے بوئی تھی آج اسی کا پھل کاٹ رہے ہیں۔ورلڈٹریڈسنٹر کا بدلہ چکانے کی خاطر اس نے جس طرح سے دنیا کی دیگر اقوام کو ساتھ ملا کر افغانستان اوراعراق میں دو ملین سے زیادہ لوگوں کا خون بہایاآج انہی مظلوموں کی آہیں اس کیلئے نوشتہء دیوار ہیں۔اب القائدہ کا قصہ تو ماضی ہوا لیکن داعش کا عفریت اس کے سامنے منہ کھول کھڑا ہے۔اگر اب بھی امریکہ بہادر نے ہوش کے ناخن نہ لیئے تو وہ اپنی اس نادانستگی کے سبب پوری دنیا کو جنگ کی بھٹی میں جھونک دے گا جس کا نتیجہ آہوں،سسکیوں اور تباہی کے علاوہ کچھ نہیں نکلنے والا۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn