2اکتوبر 2016 کی شام دبئی کرکٹ اسٹیڈیم سے شروع ہونے والے پی ایس ایل کو پاکستانی کرکٹ کے لئے گیم چینجر کہا گیا۔ چاہے چیمپئن ٹرافی کی کامیابی ہو یا ٹی ٹوئنٹی کی ریٹنگ میں ٹیم پاکستان نے حکمرانی حاصل کی ہو۔ وقت نے ثابت کیا کہ اس گیم چینجر کے دیئے ہوئے کھلاڑیوں نے قومی ٹیم کی ہر کامیابی میں اہم کردار ادا کیا ۔
وہ فخر زمان ہو یا حسن علی ۔شاداب خان ہو یا محمد نواز ہو۔ آصف علی ہو یا شاہین شاہ آفریدی۔ یہ پی ایس ایل کے وہ تحائف ہیں جو کہ اب قومی ٹیم کی ہر کامیابی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، اور اپنی کارکردگی سے یہ بات باور کراتے ہیں کہ پی ایس ایل واقع ہی گیم چینجر ہے۔ کیونکہ اس کی وجہ سے پاک سر زمین کے گراؤنڈز میں انٹرنیشنل کرکٹ واپس آئی اور پوری دنیا کو باور کرایا گیا کہ دہشت گردی کو دنیا میں اگر کوئی قوم ،فوج ،ریاست ناپسند کرتی ہے اور مٹانے کی صلاحیت رکھتی ہے تو وہ صرف پاکستانی ہی ہیں ۔
اگر اب ذرا اس کے تمام سیزن کو دوسرے زاویے سے دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے۔جہاں یہ گیم چینجر ایسے ہیرے پاکستان کرکٹ کے لیے سامنے لا رہا ہے اور ساتھ ہی پاکستانی قوم کے بلند حوصلوں اور قربانیوں کی آواز بنا ہوا ہے۔ دوسری طرف اس کے سسٹم کی ناکامی کا علم ان وجوہات کی بناء پر ہوتا ہے۔ پہلے سیزن میں اس نے 0.6ملین ڈالر حاصل کیے کیوں کہ 2 ملین ٹیمز کو ملا۔ دوسرے سیزن میں 2.5 ملین ڈالر جو کہ نجم سیٹھی صاحب نے ایک بیان میں کہا۔ اب اگر تیسرے سیزن کی بات کی جائے تو صرف بیانات کی حد تک ہی بقول نجم سیٹھی کے بتایا گیا 5 ملین حاصل ہوئے ہیں ۔ مگر کوئی آڈٹ نہیں کیا گیا ۔ اب فرنچائزز کے حالات کو دیکھا جائے تو ملتان سلطان کے فرنچائز مالکان نے علیحدگی اختیار کر لی ہے ۔جب کے کوئٹہ کے بھی کوئی سازگار حالات سننے میں نہیں آرہے۔
اب تعیناتیوں کو دیکھا جائے تو وہاں بھی من پسند لوگوں کو نوازا گیا ہے۔ جیسے نائلہ بھٹی کو ڈائریکٹر مارکیٹنگ اور عثمان وہاب کو جی ایم انٹرنیشنل کرکٹ آپریشن تعینات کیا گیا ۔ اب ان تمام حالات کو دیکھنے اور سننے کے بعد پوری قوم اس چیز کی ضرورت محسوس کرتی ہے کہ پی ایس ایل کا ایک مکمل الگ سسٹم ہو ۔جو اپنی مکمل توجہ اس پر مرکوز کرے تاکہ ہر چیز میرٹ پر ہو اور یہ گیم چینجر یوں ہی نایاب ہیرے پاکستان کرکٹ کے لیے لاتا رہے۔ تاکہ کرکٹ بورڈ ان کھلاڑیوں پر کام کر کے قومی ٹیم کے لیے تیار کرے۔ اور اس گیم چینجر کے حقیقی مسائل کو سمجھا جائے اور اس کی بہتری کے بارے میں کوشش کی جائے۔ کیونکہ یہ دہشتگردی کے خلاف پوری قوم کی آواز بھی ہے۔ اب قوم بھی دہشتگردی کے خلاف آواز کو بند کرنے والوں کی سازشوں کے خلاف آواز بلند کرے گی۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn